Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بیوی کو شوہر کے شانہ بشانہ چلنے کا حق ہے، ڈاکٹر مبینہ اختر

 زینت شکیل۔جدہ
  عالم الغیب والشہادہ نے مخلوقات کی بنیادی ضرورت کو ہر خاص و عام کے لئے یکساں مہیا فرمایا ہے۔ زمین کو فرش، آسمان کو چھت بنایا، سورج کی روشنی سے دن منور فرمایا، معطر ہوائیں انسانی زندگی کی اساس اور شفاف پانی زندگی کی علامت بن گئے۔ ہر جاندار پانی سے بنا ہے ۔ایک انسان وہی کچھ ہوتا ہے جو اس کے ماحول میں ہوتا ہے۔ بہترین ماحول، طرز معاشرت اور معاملات زندگی جہاں ذہن کو جلا بخشتے ہیں وہیں آب و ہوا،پیکر خاکی کی نشو و نما کرتے ہیں ۔
رواں ہفتے ”ہو اکے دوش پر“ محمد جاوید اختر اور انکی اہلیہ ڈاکٹر مبینہ اختر اردو نیوز کی مہمان ہیں جن سے اسی موضوع پر بات ہوئی کہ آخر سب سے ذہین مخلوق نے اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ایسے جنجال میں کیوں ڈالا کہ وہ سر جوڑکر بیٹھنے پر مجبور ہوگئے کہ گلوبل انوائرنمنٹ کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کا سامنا کیسے کیا جائے۔
ڈاکٹر مبینہ اختر راجپوت نے2007ءمیں یونیورسٹی آف جامشورو سے اینالیٹکل کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی سند نیشنل سینٹر آف ایکسیلنس ان اینالیٹکل کیمسٹری حاصل کی ۔ڈاکٹر مبینہ ایک گرلز کالج کی پرنسپل ہیں ۔ انہوں نے اس چیلنج پر کام کیا کہ صاف پانی کی فراہمی کیسے ممکن بنائی جائے ۔ اس حوالے سے انہیں کامیاب تجربہ بھی ہوا لیکن اسے پبلک سیکٹر میں لانے کے لئے سرکاری توجہ کی ضرورت ہے۔
محمد جاوید اختر راجپوت نے انجینیئرنگ کی سند حاصل کی اور معروف کمپنی میں ملازمت شروع کر دی بعد ازاں انہوں کے بحریہ میں شمولیت اختیار کی۔ویسے تو جاوید اختر کی اس جاب میںدنیا بھر کی سیاحت کی سہولت حاصل تھی لیکن سمندرکے نمکین پانی نے پریشانی کا روپ دھارا جس کا ا نجام یہ ہوا کہ آج جاوید اختر راجپوت اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ ویسے بھی بنیادی طور پر وہ ایک زمین دارہی ہیں۔
اسے بھی پڑھئے:شوہر افسانے کو سراہتے ہیں، میں ہواﺅں میں اڑنے لگتی ہوں،سیمیں
ڈاکٹر مبینہ اختر کے والد حامد علی خان اور والدہ اختر حامد نے اپنی صاحبزادی کا نا م بہت بامعنی رکھا کیونکہ مبین کا مطلب تو واضح، ظاہر ہے اور اس لحاظ سے وہ اپنے خاندان اور علاقے میں مبینہ ہوئیں کہ واضح پہچان رکھتی ہیں۔ تعلیمی ادارے کی سربراہ ہیں اور رفاہ عامہ کے کاموں میں بھی بھرپور دلچسپی رکھتی ہیں کالج کوجدید خطوط پر چلانے کے لئے محنت کرتی ہیں۔ اکثر نئی نئی ایجادات و واقعات کے علامتی دن بھی مناتی ہیں جیسا کہ کچھ عرصہ قبل ارتھ ڈے منایاگیا ۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زمین کی ہریالی وجود زندگانی کے لئے کس قدر ضروری ہے۔ اس دن سے اس بات کی یاددہانی ہوجاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شجر کاری کو عادت کی طرح نہیں بلکہ کسی نیکی کی طرح کرنا چاہئے۔ یہ حیات زندگانی کے لئے لازمی بھی ہے اور ایک بہترین صدقہ جاریہ بھی۔واضح رہے کہ علم نافع پہنچانا، درخت لگانا اور کنواں کھدوانا ایسے کام ہیں جو عام لوگوںکے لئے راحت و فائدے کا سبب بنتے ہیں کیونکہ بلا شبہ علم کی نعمت ، پھل ، چھاﺅں اور ٹھنڈے میٹھے پانی سے راحت ملتی ہے۔
انسان کی تین ضرورتیں ہیں، باطنی ، ظاہری اور ماحولیاتی۔ یہ تینوں کام اس طرح کی سوچ کے تحت ممکن ہوجاتے ہیں کہ علم ذہنی وباطنی قوت کو بڑھاتا ہے ۔پھلدار درخت سے ایک مسافر بھی سیر ہوسکتا ہے اسی لئے پرانے زمانے میں شاہراہوں کے دونوں اطراف پھل دار درخت لگائے جاتے تھے کہ پھل انسان کے کام آئیں اور اسکے چھلکے چوپایوں کے لئے ہوں۔
پانی زندگی کی ایسی ضرورت ہے کہ چند دن اسکے بغیر گزارنا محال ہے اس لئے کنویں کے صاف شفاف پانی سے کوئی پیاسا جب اپنی پیاس بجھاتا ہے تو دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ماحولیاتی تغیر کو روکنے کے لئے گھنی چھاﺅں میں مسافروں اور ہر گھر کے بچوں بڑوں کے لئے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے صبح کی سیر کو دلچسپ اور ماحول کو آسودہ بناتے ہیں۔ 
عام تجربے کی بات ہے کہ جس علاقے میں دھوپ شدیدہوتی ہو اور بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے پانی کی بھی قلت جیسی صورتحال ہو تو کسی مہمان کا آنا یا پھر کسی دور والے کا خیر سگالی فون کرنا ایسا ہی ہے جیسا جیسے کسی متحارب گروہ کے ارکان سے آمناسامنا ہا گیا ہو۔ اسی لئے اکثر لوگ بہتر موسم میں خیر سگالی فون کرتے ہیں اور جب بات ہوجائے تو دوسروں کوبھی خبر دیتے ہیں کہ آج بجلی، پانی موجود ہے اس لئے گپ شپ اچھی رہی۔دوران گفتگو موسم بہار پر بھی کئی اشعار پڑھے گئے ۔آج ایک مرتبہ بھی خواہ مخواہ ڈانٹ نہیں پڑی۔اس لئے آپ بھی فوراً فون کر لیں۔ اس سے پیشتر کہ وہاں لائٹ چلی جائے اور ہر ایک کا غصہ ناک پر پہنچ جائے۔
ڈاکٹر مبینہ اختر بچپن ہی سے ذہین تھیں اور سائنسی مضامین میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوتی رہیں۔کیمسٹری میں ماسٹرز کیا اورفرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن حاصل کی۔ کیمسٹری میں ہی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ۔پی سی ایس ٹی نے پروڈکٹو سانٹسٹ کے طورپر ان لسٹ کیا ۔ انکے ریسرچ ورک سے عوام کو معلومات اور جاننے میں مدد ملی اس پر انہیں ایواڈ سے نوازا گیا۔
ایس اے پی ایل اے نے2009ءمیںڈاکٹر مبینہ کو انکی بہترین کارکردگی پر ایوارڈ دیا۔ آپ کی 15سے زائد انٹرنیشنل ریسرچ پبلی کیشنز ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا اصل کام زراعت کے شعبے میں ترقی کی نئی راہیں تلاش کرنا ہے اور اس میںانہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔ جنرل آف کیمسٹری سائنس کے کئی ممالک میں ایڈیٹوریل ایکسپیرینس حاصل ہوا۔انہوں نے کئی سیمینارز، سمپوزیم اور کانفرنس کی تیاری کی ذمہ داری بھی احسن طور پر انجام دی ۔ آپ کا نام اعزازی فضیلت کے ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا لیکن اس دن موسم ایسا خراب ہوا کہ وہ سرکاری تقریب منعقد ہی نہ ہوسکی ۔
محترمہ مبینہ ادب کے لئے بھی وقت نکالتی ہیں۔ انکا خیال ہے کہ علم و ادب انسان کو عمل کی طرف لاتا ہے۔ شاعر اپنی فلسفیانہ فکر و بصیرت سے کام لیکر حیات وکائنات کے تعلق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے اور کامیاب بھی ہوتا ہے ۔سب کا درد محسوس کرنا ایک دوسرے سے مختلف ہوتاہے۔ کئی مصنفوں کی تخلیقات انہیں مورخ کا درجہ دے دیتی ہیں ۔یہ انکی بصیرت کی وجہ سے اس کمال کو پہنچتا ہے۔نام کی مناسبت سے کئی سوال زباں تک آئے کہ جتنے نام ڈاکٹر مبینہ لیتی جاتیں، ان میں کوئی نہ کوئی فنکار کا نام یاد آتا گیا۔ 
جاوید اختر کانام لیا تو انکے ہم نام ،پڑوسی ملک کے نغمہ نگار یاد آئے کہ ایک بڑی تعداد انکی شاعری کو پسندیدگی کی سنددے چکی ہے۔ اپنے بیٹے حاشر اختر کا نام لیا تو ایک ٹی وی کا اپنے وقت کا زبردست سیریل دھواں یاد آگیا کہ اس وقت جب یہ ڈرامہ آن ایئر تھا تو اسکے فنکاروں کی شہرت چند دنوں میں ہی کافی ہو گئی تھی لیکن رائٹر کا نام عاشر تھا ، یہ دونوں سننے میں ایک ہی لگتے ہیں۔ اسی طرح پٹیالہ خاندان کے حامد علی خان بھی یاد آئے کہ جب غزل سناتے ہیں تو امانت علی اور اسد امنت علی کی غزلیں بھی یاد آجاتی ہیں۔ جیسے انشا جی کی غزل :
انشا جی اٹھو ،اب کوچ کرو
 اس شہر میں جی کو لگانا کیا 
اور خاص طور پر وہ شعر کہ :
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو
 سجنی سے کروگے بہانہ کیا 
  ڈاکٹر مبینہ گھر کے کام کاج بھی کرتی ہیں اور طالبات کو بھی یہی سکھاتی ہیں کہ وقت کو منظم کریں تو آپ کا ہرکام وقت پر ہو جائے گا ۔ انکا کہناہے کہ سسرال میں جب تک آپ کو سپورٹ نہ ملے ،آپ اپنے شوق کو عملی جامہ نہیں پہناسکتے ۔خاص طور پر شوہر کا ساتھ اور تعاون انتہائی ا ہم ہوتا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ شوہر ہی وہ ہستی ہوتی ہے جوحقیقتاً نہ صرف بیوی کے ہم قدم ہوتی ہے بلکہ بیوی کو بھی مکمل حق ہوتا ہے کہ وہ گھر کو گہوارہ¿ امن بنانے میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ کردار ادا کرے۔
ڈاکٹر مبینہ کے شریک حیات محمد جاوید اختر راجپوت کا کہناہے کہ میری اہلیہ ڈاکٹر مبینہ بہت محنتی خاتون ہیں۔ وہ وقت پر اپنا کام مکمل کرتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ کئی ایسوسی ایشنز کی رکن ہونے کے باوجودوہ عام دنوں کی مصروفیات بھی نمٹاتی ہیں۔ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں خواتین کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرنے اور ان کی تعلیم میں اضافہ کر کے ہی خواندگی میں اضافہ ممکن ہو سکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے سے ناخواندگی کے اندھیرے دور کرنے کے لئے سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ کسی ایک ادارے، تنظیم یا فرد کا کام نہیں۔ اس کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
 

شیئر: