Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صنف نازک کا اصل مقام چہار دیواری ، سڑک نہیں

عنبرین فیض احمد۔ ینبع
عورت جو صنف نازک کہلاتی ہے ، دلگداز افسانوں، ناولوں اور غزلوں کا موضوع ہی بنی رہی۔ شاعروں نے اسے اپنی شاعری کا محور بنایا۔ اسے ہمیشہ سے ہی مردوں کی بالادستی کا سامنا رہا۔ برابری سے خوفزدہ معاشرہ اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے جبکہ عصر حاضر میں خواتین کے بغیر ترقی کا تصور بھی ناممکن ہے۔ ملکوں کی ترقی و خوشحالی کا راز ہی اس میں مضمر ہے کہ خواتین بھی ملک کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں۔ ان کی شمولیت کے بغیر معاشرے میں بہتری ممکن نہیں۔ جس ملک میں خواتین کو کردارادا کرنے کی اجازت نہ ہو، وہ کبھی تیز تر ترقی نہیں کر سکتا۔دیکھا یہی گیا ہے کہ عام طور پر مرد یہ سمجھتے ہیں کہ عورت بحیثیت ماں، بیوی، بہن یا بیٹی تو بہترین کردار ادا کر سکتی ہے مگر وہ سیاسی ، سماجی کارکن یا کسی ادارے میں ملازمت کے قابل نہیں ہوتی حالانکہ یہ بات حقیقت سے بہت بعید ہے ۔
سچ یہ ہے کہ عورت کی شمولیت کے بغیر معاشرے کا شاہراہ ترقی پر گامزن ہونا مشکل ہوتا ہے ۔ ہم اپنے اطراف نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ زندگی کے تمام شعبوں میں عورت صنفی امتیاز کا شکار ہے۔ بانی پاکستان محمد علی جنا ح کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قوم اس وقت تک حقیقی ترقی کی طرف گامزن نہیں ہوسکتی جب تک اس قوم کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوں۔ عالمی بینک ، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں نے بھی اپنی رپورٹس میں اعتراف کیا کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے حوالے سے خواتین کے تعاون اور شراکت کے بغیر کسی بھی ملک کی حقیقی ترقی کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ 
یوں تو عورت استحصال کا شکار رہی ہے ۔ شہر کی تعلیم یافتہ عورت کے مقابلے میں دیہات میں بسنے والی عورت کو قانونی، معاشی، معاشرتی سہولتیں میسر ہی نہیں ۔ وہ تنگ نظر سوچ کے حامل افراد کے ظلم سہنے پر مجبور ہے۔ اس کو یہ علم ہی نہیںکہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو کس طرح روک سکتی ہے۔ عورت فرد واحد کا نام نہیں، اپنے آپ میں منظم اور متحرک ادارہ ہوتی ہے۔ آج پراعتماد خواتین کو شاہراہوں پر نہ صرف سائیکلیں، موٹر سائیکلیں اور بڑی چھوٹی گاڑیاں چلاتے دیکھا جاسکتا ہے بلکہ کمرشل اور جنگی جہاز تک اڑا رہی ہیں۔ انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے کہ عورت محض صنف نازک نہیں رہی بلکہ وہ تسخیر کائنات کی جستجو میں فلک بوس پہاڑوں کی چوٹیوں اور خلا تک جا پہنچی ہے۔ 
عورت نے ادب، سیاست، معیشت سمیت معاشرت کے ہر شعبے میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ آج کی عورت کسی بھی طور کمزور نہیں ، وہ شاعری کا موضوع نہیں بلکہ تمام مسائل خواہ وہ معاشی ہوں یا معاشرتی، ان سے بذات خود نمٹنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ اپنی حفاظت بھی بخوبی کرنا جانتی ہے۔ جس قوم کی خواتین تعلیم یافتہ، نڈر، بلند خیالات کی حامل ، ہمت و حوصلے کی پیکر ہوں ، مہذب شائستہ اوصاف کی مالک ہوں تو اس قوم کے بچے بہترین معاشرہ تشکیل دیتے ہیں۔
دھنک کے صفحے پر شائع ہونےو الی تصو یر اسلام آباد کی ہے جس میں ایک خاتون معاشی پریشانیوں سے تنگ آکر ریڑھی پر پھل فروخت کرنے پر مجبور ہے۔ یہ باہمت خاتون اپنے حالات سے لڑتی دکھائی دیتی ہے ۔ کہا تویہی جاتا ہے کہ مرد اور عورت گاڑی کے دو پہئے ہیں، جن میں سے کسی ایک کے بغیربھی گاڑی چلنا ناممکن ہے یعنی مردو زن دونوں کی اہمیت اپنی جگہ ہوتی ہے۔ مرد جہاں گھر سے باہر نکل کر محنت مشقت کرتا ہے ، پیسے کماکر لاتا ہے، وہیں عورت گھر میں رہ کر بچوں کی پرورش اور گھر کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ ہمارے ملک کی کل آبادی کا نصف حصہ صنف نازک پر مشتمل ہے۔ ان کی صلاحیتوں سے کام نہ لینا ملک کے قیمتی اثاثے کو ضائع کرنے کے مترادف ہے لہٰذا جہاں مرد حضرات تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں وہیں خواتین بھی اپنے شعبوں میں کردار ادا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ مثلاً اسپتالوں ، بینکوں، تعلیمی اداروں اور ایسے ہی کئی سرکاری و نجی اداروں میں ان کی کارکردگی قابل رشک ہوتی ہے۔ 
اس مہنگائی کے دور میں فرد واحد کی کمائی سے گھر کا چلنا مشکل ہے لہٰذا جب تک کوئی اور گھر کا فرد ہاتھ نہ بٹائے، مشکلات میں اضافہ ہی ہوتا جاتاہے۔ ایسے میں عورت کا اپنے شوہر کے معاشی مسائل میں ہاتھ بٹانے کے لئے اس کے شانہ بشانہ کام کرنا ضروری ہوگیا ہے تاکہ دونوں کی زندگی آسان ہوجائے۔ یہ بات بہرحال اپنی جگہ درست ہے کہ اگر عورت بھی مرد کی طرح ذریعہ معاش کی تلاش میں گھر سے باہر نکل جائے تو گھر پھر گھر نہیں رہتا۔ بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا جس سے بچوں کی پرورش پر انتہائی مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات معاشی حالات اتنے خراب ہوجاتے ہیں کہ عورت کو کبھی ریڑھی لگاکر سڑکوں پر گھومنا پڑتا ہے تو کبھی فیکٹریوں میں گھنٹوں کام میں مصروف رہنا پڑتا ہے۔ 
حکومت اور صاحبان اختیار کو چاہئے کہ ایسی مجبور خواتین کو مشکلات اور پریشانیوں سے بچانے کیلئے ان کی مالی مدد کا کوئی نظام تشکیل دیں۔ آسان اور بلاسود قرضوں کا کوئی ایسا سلسلہ جاری کیاجائے جن سے ضرورت مند خواتین کو گھر سے باہر سڑکوں پر آوازیں لگا کر چیزیں فروخت نہ کرنی پڑیں۔ صنف نازک کا اصل مقام چہاردیواری ہے نہ کہ سڑک پر مارے مارے پھرنا۔ 
 
 

شیئر: