Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تین بہنیں ایک ہی گھر میں بیاہی گئیں،تعلق اور مضبوط ہوگیا ،ثمینہ ارشد

عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
بڑے بزرگ ہمیشہ یہی نصیحت کیا کرتے تھے کہ آپس میں میل جول سے محبت پروان چڑھتی ہے۔ رشتوں میں کشش کا احساس برقرار رہتا ہے۔تمام رشتوں اور خاص طور پر بہن بھائیوں کی محبت کو مثالی بنانے کیلئے عفوودرگزر سے کام لینا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ رشتے بڑے ہی انمول ہوتے ہیں۔ بہن بھائی موتیوں کی لڑی کی طرح ہوتے ہیں ۔ انہیں ایثار و قربانی کے مضبوط دھاگوں میں پروکر رکھنا چاہئے ۔ ان رشتوں میں ذرا بھی بے اعتنائی برتی جائے تو یہ لڑی ٹوٹ جاتی ہے، شیرازہ¿ محبت بکھر جاتا ہے پھر رشتو ں کی مٹھاس کڑواہٹ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ رشتوں میں مٹھاس پیدا کرنا، آپس میں فاصلے کم کرنا انسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ فاصلوں کو قربتوں میں تبدیل کرنے سے خاندان میں مضبوطی آتی ہے ۔ اس خاندان کا کوئی بھی فرد مصائب میں کبھی اپنے آپ کو تنہاءمحسوس نہیں کرتا۔ محبت، دلوں کی سلطنت میں رائج کرنسی ہے۔ یہ زیست کی حکمراں ہے ، جذبوں کی زباں ہے ،انسانیت کا کارواں ہے ،محبت اک سحر ہے ، یہ نغمہ حیات کی بحر ہے ، یہ ہر دل میں آباد اک شہر ہے ،احساس کی لہر ہے ،اسی کے باعث خاندان کا ہر فرد ایک دوسرے سے مربوط رہتا ہے ،ہر لمحہ ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتا ہے۔
رواں ہفتے ”ہوا کے دوش پر“ اردونیوز کی مہمان ایسی ہستی ہیں جو اپنی مثال آپ ہیں ۔ ان کی گفتگو کا انداز اتنا متاثر کُن ہے کہ کسی بھی فرد کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ وہ ان سے پہلی مرتبہ مل رہا ہے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت دھیمی مسکان رہتی ہے۔ بہت ہی نفیس خاتون ہیں۔ان کا نام ثمینہ ارشد ہے ۔پاکستان کے شہر لاہور سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ میرے والد محترم دما م میں بطور انجینیئر ایک نجی کمپنی میںملازمت کرتے تھے لہٰذا میری زندگی کاابتدائی حصہ دمام میں ہی گزرا۔ یہ بڑا خوشگوار ، بہترین اور یادگار دور تھا۔ میری سہیلیاں بھی دمام میں ہی بنیں۔ میں جب پانچویں جماعت میں پہنچی تو ہم پاکستان منتقل ہوگئے۔ والد دمام میں ہی معاش کے سلسلے میں تنہاءرہ گئے۔ ویسے بھی اس وقت پڑھائی کے سلسلے میں میرا پاکستان جانا ضروری تھا۔ ہم 5بہنیں اور2 بھائی ہیں۔ الحمد للہ، ہم بہن بھائیوں میں آپس میں اتنی محبت ہے کہ اگر کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو ہم سب اس اذیت کو محسوس کرتے ہیں اور اسکی مشکل دور کرنے کی کوشش کے لئے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ میں اللہ رب کریم کا بہت شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے ایسے بہن بھائی عطا فرمائے ۔ ہماری مثال بند مٹھی جیسی تھی۔
اسے بھی پڑھئے :ماحول ، معاشرہ اور مستقبل عورت کے ہاتھ میں ہے، شبینہ فرشوری
انسان کی زندگی میں کبھی ایسا موڑبھی آتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب میں لاہور کالج سے ایف ایس سی کررہی تھی ، ہماری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔ یہ صدمہ ایسا تھا جس نے ہم سب بہن بھائیوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔ یہ میری زندگی کا کٹھن ترین مرحلہ تھا۔ گو کہ ماں کی کمی تو دنیا میں کوئی پوری نہیں کرسکتا لیکن ہماری زندگیوں میںایک خلا پیدا ہوگیا ۔ایسے میں ہمارے والد محترم نے ہمت کے ساتھ ساتھ ایثار و قربانی کا ثبوت دیا۔ انہوں نے ہمیں ماں اور باپ دونوںکا پیار دیااور ماں کی کمی قطعی طور پر محسوس نہیں ہونے دی۔ ثمینہ یہ سب بتاتے ہوئے بہت جذباتی ہوگئیں۔ کہنے لگیں مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ ماضی کی یادیں میرے ذہن میں پھر سے تازہ ہوگئی ہیں۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے۔ یہ پر لگا کر اڑتا رہا۔ سب بہن بھائی اپنی اپنی زندگیوں میں مگن ہوگئے۔ میرے دل میںہر وقت دل میں خلش سی رہتی کہ کاش ماما زندہ ہوتیں۔ اسی دوران میری شادی میرے خالہ زاد سے ہوگئی جو میرے تایا کے بیٹے بھی تھے ۔ شوہر نے اتنی محبت دی کہ میںبیان نہیں کرسکتی۔ زندگی میں ماں کے نہ ہونے سے جو خلا پیدا ہوگیا تھا ،وہ کافی حد تک پر ہوچکا تھا۔ شوہر بہت سلجھے ہوئے اور محبت کرنے والے ہیں۔ میں شادی کے فورا ً بعد سعودی عرب آگئی۔ اللہ کریم کا بڑاشکر ہے کہ بڑا اچھا وقت گزرا۔ یہاں آکر دین سے قربت حاصل ہوئی۔ جب بھی دل چاہتا ،آسانی سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی زیارت کرسکتی ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عنایات ہیں ۔ ان سے یہاں مقیم غیر ملکی ہمہ وقت استفادہ کر سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مملکت میں رہتے ہوئے وطن کی کمی محسوس نہیں ہوتی ۔ جیسا کہ اکثر لوا کہتے ہیں کہ انہیں پاکستان سے دوری کا احساس رہتا ہے اور انہیں اپنے لوگ یاد آتے ہیں تاہم میرے ساتھ ایسا کچھ نہیں ۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کا سسرال کیسا ہے تو انہو ں نے کہا کہ میری ساس ،میری خالہ اور میرے سسر میرے تایا بھی ہیںلہٰذا یہاں سسرال والا کوئی معاملہ نہیں۔ سسرال میں کوئی غلط فہمی ہو بھی جائے تو فورا ً اس کو دور کردینا چاہئے۔ ویسے بھی کسی نئی جگہ پر قدم جمانے کیلئے قربانی تودینی پڑتی ہے اور کئی چیزوں کو نظرانداز بھی کرنا پڑتا ہے۔ ہم تین بہنیں ایک ہی گھر میں بیاہی گئیں ۔یہاں ایک مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارا آپس میںروایتی دیورانیوں اور جٹھانیوں والا کوئی معاملہ نہیں بلکہ ہم بہنوں کا تعلق اور زیادہ مضبوط ہوگیا ہے لہٰذا سب مل جل کر رہتے ہیں ۔ باہر سے آنے والے کو یہ فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس بہن کی کون سی اولاد ہے۔ اس طرح بچوں کی شخصیت پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے۔ ایک طرح سے ہمارا مشترکہ خاندانی نظام ہے۔ اکثر لوگ اس نظام کو برا کہتے ہیں مگر میری نظر میں یہ بہت اچھا ہے۔ اس کا بچوں پر اچھا اثر پڑتا ہے بشرطیکہ گھر کا ماحول درست ہو ۔
ثمینہ ارشد نے کہا کہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار لمحہ وہ تھا جب اللہ رب العزت نے مجھے اولاد جیسی نعمت سے نوازا۔ ماں بن کر مجھے احساس ہوا کہ ماں کی ذمہ داریاں نبھانا کتنا مشکل کام ہے۔ بچوں کی پرورش کرنااور ان کی تربیت کرنا بڑا ہی مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ بچے نیک اور صالح بن جائیں تو والدین سرخرو ہوجاتے ہیں لیکن تربیت میں ذرا سا بھی سقم رہ جائے توایسے والدین کیلئے اس سے بڑی اذیت ناک چیز اور کوئی نہیں ہوتی ۔ جن والدین کی اولاد فرمانبردار نہ ہو۔ ماں کی گود ہی بچوں کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔ دراصل ماں ہی اپنے بچوں کی اصل تربیت کرتی ہے ۔ اسے گھر کی تمام ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ بچوں پر بھی دھیان دینا پڑتا ہے لہٰذا میںا پنے بچوں کی تعلیم پر بھرپور توجہ دینے کی کوشش کرتی ہوں۔
ثمینہ ارشد نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ اس نے مجھے اولاد عطا فرمائی۔ ماشاءاللہ، میرے چار بچے ہیں۔ دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ بڑی بیٹی نے اے لیول او رچھوٹی بیٹی نے او لیول کیا ہے۔ میرا بیٹا قرآن کریم حفظ کررہا ہے اور انگریزی اسکول میں بھی تعلیم حاصل کررہا ہے۔دوسرابیٹا ابھی چھوٹا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ بچے نہ صرف دنیاوی تعلیم حاصل کریں بلکہ دینی تعلیم بھی سیکھیں تاکہ دین و دنیا دونوں ساتھ لے کر چلنے کے قابل ہو سکیں۔ 
ثمینہ نے کہا کہ میری زندگی کا ایک اصول ہے کہ کسی کو میری ذات سے تکلیف نہ پہنچے کیونکہ انسان کی زندگی بہت مختصر سی ہوتی ہے۔ جب انسان کسی کو تکلیف دیتا ہے تو اس کا بدلہ اسے جلد ہی مل جاتا ہے۔ دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد ایسے لوگوں کو اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جاتا لہٰذاانسان کو ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اس کی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ جہاں تک ممکن ہوسکے دوسروں کی مدد کی جائے۔ 
محترمہ ثمینہ نے بتایا کہ میری والدہ کا اس وقت انتقال ہوا جب میرا سب سے چھوٹا بھائی دوسری جماعت میں تھا۔ ہم سب بہن بھائیوںنے مل کر ایک دوسرے کا خیال رکھا اور زندگی کی دوڑ میں شامل ہوگئے ۔یہ میری زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ بلا شبہ یہ امر حقیقت ہے کہ ماں کی کمی کوئی پوری نہیں کرسکتا۔ہم نے دیکھا کہ ثمینہ کی طرح ان کی صاحبزادیاں بھی بہت سلجھی ہوئی ا ور سلیقہ مند ہیں۔ 
جب ادب پر بات ہوئی تو ثمینہ ارشد نے کہا کہ مجھے کتابوں کے مطالعے کا بڑا شوق ہے۔ جب بھی وقت ملتا ہے ، کوئی نہ کوئی کتاب پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ میں اخبار بھی باقاعدگی سے پڑھتی ہوں۔ شاعری سے بھی لگا¶ ہے۔ اردو شاعری میں فیض احمد فیض ، غالب اور امجد اسلام امجد کافی پسند ہیں، انہیں پڑھتی بھی ہوں۔ امجد اسلام امجد کے چند اشعار انہوں نے سنائے، آپ بھی پڑھئے:
زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے ہیں 
تم سے کیاکہیں جاناں اس قدر جھمیلے ہیں
وقت کی روانی ہے ، بخت کی گرانی ہے
سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے
ہجر کے سمندر میں
تخت اور تختے کی ایک یہ کہانی ہے
تم کو جو سنانی ہے
بات گو ذرا سی ہے
با ت عمر بھر کی ہے
عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں
درد کے سمندر میں
ان گنت جزیرے ہیں، بے شمار موتی ہیں
آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا
بات اس دیے کی ہے
بات اس گلے کی ہے
جو لہو کی خلوت میں چور بن کر آتا ہے
لفظ کی فصیلوں پر ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے
ہماری گفتگو میں ثمینہ ارشد کے شوہر محمد ارشد حسین بھی شامل ہوگئے جو خود ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں۔ ارشد صاحب بھی دوسروں کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہمدرد طبیعت کے مالک ہیں اس لئے کاروبار میں ملازمین کا بڑا خیال رکھتے ہیں ۔ رحم دلی دونوں میاں بیوی کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ارشد صاحب کا کہنا ہے کہ جب شریک سفر نیک ہو تو یقینا زندگی آسان اور سہل ہوجاتی ہے۔ جب میاں بیوی میںذ ہنی ہم آہنگی ہو توانسان زندگی کے تمام نشیب و فراز آسانی کے ساتھ عبور کرلیتا ہے۔ بچوں کی تربیت میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ ثمینہ بطور شریک حیات میرے لئے بہترین ثابت ہوئیں اور بہو کے طور پر بھی انہوں نے اپنے فرائض احسن انداز میں ادا کئے۔ ہماری ذہنی ہم آہنگی کی وجہ سے ہمارے گھریلو حالات میں بھی کوئی فر ق نہیں آیا۔ گرہستی میں دنوں میاں بیوی کی وسیع النظری خوشگوار اور حسین زندگی کی علامت تصور کی جاتی ہے۔ الحمد للہ، ہمارے اس چھوٹے سے غریب خانے میں وہ سب کچھ میسر ہے جس سے زندگی سہل ہوجایا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر خلوص، محبت، سادگی جو خوشگوار زندگی کے پھول سمجھتے جاتے ہیں، ہمارے صحن میں جا بجا کھلے ہیں ۔
آخر میں ثمینہ ارشد اور ان کے شوہر ارشد حسین نے کہا کہ ہماری دعا ہے کہ ہمارے بچوں کو بھی اللہ رب العزت نیک اور فرمانبردار بنائے اور دین و دنیا دونوں میں کامیابی عطا فرمائے ۔
 

شیئر: