Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عفت وعصمت کی اسلامی تدابیر

جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اوربلاروک ٹوک ہونے لگتی ہے تواللہ تعالیٰ ان لوگوں کوطاعون کی مصیبت میں مبتلا کردیتاہے اورایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتاہے جس سے ان کے اسلاف نا آشناتھے
* * *  ذوہیب یونس ۔ کراچی* * *

اسلام سے پہلے عورت کومعاشرے میں جوحیثیت دی جاتی تھی اورجن مشکلات کاسامنا کرناپڑتاتھا وہ کسی سے مخفی نہیں اورنہ ہی تعریف کامحتاج ہے۔یہ طبقہ ان طبقات میں سے تھا جوانتہائی مظلوم اورستم رسیدہ تھا۔ انکو ظلم وستم سے نجات دلانے کی کوئی سعی نہ کی جاتی تھی۔قرآن کریم میں ہے :
    ’’اوراپنی(مملوکہ)لونڈیوں کوزناکرانے پرمجبورمت کرو (اوربالخصوص)جب وہ پاک دامن رہناچاہیں محض اس لیے کہ دنیوی زندگی کاکچھ فائدہ (یعنی مال)تم کوحاصل ہوجائے۔‘‘ (النور33)۔
    اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ عورت کی حیثیت ان کی نظروں میں کیا تھی اورکیسے افعال پر اس کومجبورکیاجاتاتھا۔صحیح بخاری کی ایک حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ جاہلیت کی عورتیں رہن بھی رکھی جاتی تھیں جیساکہ محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں کعب بن اشرف کے پاس گیا اورغلہ قرض دینے کی درخواست کی تواس نے کہا : اپنی عورتوں کومیرے پاس رہن رکھ دو۔انہوں نے کہا ہم اپنی عورتوں کوآپ کے پاس کس طرح رہن رکھ سکتے ہیں، آپ توعرب کے حسین ترین آدمی ہیں( بخاری ، کتاب المغازی،باب قتل کعب بن الاشرف)۔
    اس واقعہ سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عورت کتنی مظلوم تھی اوراس کی عصمت کس قدر پامال کی جاتی تھی( اسلام کانظام ِ عفت وعصمت)۔
    ٭ اسلام میں عورت کا مقام :انہی ظلم آفریں اورظلم زدہ گھٹاؤں میں جب اسلام کاآفتاب طلوع ہواتوعورتوں کوان کے حقوق دئیے گئے،افراط وتفریط ختم ہوئی اورحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کوظلم سے نکالنے کی خصوصی جدوجہدفرمائی حجۃ الوداع کے موقع پرجب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری خطاب فرمایا اُس وقت بھی اس طرف خاص توجہ دلائی بلکہ اخیر وقت تک اس سلسلے میں فکرمند رہے اس لیے یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام نے سماج میں عورت کوعزت واحترام کامقام دیا ہے۔اسکو خاندان کی ملکہ بنایا،اس کی مستقل شخصیت کو تسلیم کیااورانسانی حقوق میں مرد کے برابر درجہ دیا(قاموس الفقہ ،فی النساء )۔
    اورپہلا قرآنی مشورہ نسوانی حقوق کے سلسلے میں جس کاعلان کیا گیا وہ یہ تھا:
    ’’اے لوگو:اپنے پروردگارسے ڈرو جس نے تم کوایک جاندار سے پیداکیا اوراس سے اس کاجوڑپیداکیا اوران دونوں سے بہت سے مرد اورعورتیں پھیلائیں۔‘‘(النساء 1)۔
    ٭ اسلام میں عفت کاتصور:اللہ پاک کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ شہوت کے استعمال کا جائز طریقہ نکاح بتایاتاکہ اس کے ذریعہ شہوت کی آگ کوٹھنڈاکیاجاسکے، اس کے شعلوں کو بجھایا جاسکے ۔بلاشبہ نکاح سے ہی انسان شہوت کو جائز طریقے سے پوراکرسکتاہے اورعفت جیسی صفت سے متصف ہوسکتا ہے۔ اسی عفت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ان الفاظ کوقرآن میں محفوظ کردیا جن الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے تھے کہ وہ بدکاری نہ کریں گی چنانچہ فرمایا :
    ’’اورنہ بدکاری کریں گے اورنہ اپنے بچوں کو کوقتل کریں گی اورنہ بہتان کی (اولاد) لاویں گی۔‘‘ (الممتحنہ21)۔
    اسی طرح حضور علیہ السلام نے بھی احادیث طیبہ میں عفت و عصمت سے متعلق اسلام کے نقطہ نظرکوبیان فرمایا اوربدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اورکثرتِ اموات کاسبب زناکوبتایاچنانچہ ایک لمبی حدیث میں منجملہ اورباتوں کے یہ بھی فرمایا:
    ’’ کسی قوم میں زنا کے عام ہونے کی وجہ سے موت کی ہی کثرت ہوجاتی ہے۔‘‘(موطاامام مالک ،کتاب الجہاد،باب ماجاء فی الغلول)۔
    اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے برائی کے پھیلنے کوطاعون اورمختلف بیماریوں کاباعث بتلایا ہے:
    ’’ جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اوربلاروک ٹوک ہونے لگتی ہے تواللہ تعالیٰ ان لوگوں کوطاعون کی مصیبت میں مبتلا کردیتاہے اورایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتاہے جس سے ان کے اسلاف نا آشناتھے۔‘‘( سنن ابن ماجہ )۔
    اسی بدکاری کوروکنے کے لیے شریعت مطہرہ نے حدود بھی مقرر فرمادیں اور ساتھ میں بدکاری کرنے والے کے بارے میں شفقت و مہربانی نہ کرنے کی بھی تلقین فرمادی چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ’’اور(تم لوگوں کو) ان دونوں (مرد و عورت)پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے۔‘‘ (النور2)۔
    قرآن پاک نے انسانیت کوپاکدامنی کاراستہ بھی دکھادیااوراپنے دل کو پاکیزہ رکھنے کا طریقہ بھی بیان فرمایاکہ اگرتم ازواج مطہرات سے کوئی چیز طلب کرو توپس پردہ کرو چنانچہ فرمایا :
     ’’اورجب تم ان سے کوئی چیز مانگو توپردے کے باہرسے مانگاکرو،یہ بات (ہمیشہ کے لیے) تمہارے دلوں اوران کے دلوں کے پاک رہنے کاعمدہ ذریعہ ہے ۔‘‘(احزاب53) ۔
    اگرچہ یہ آیت ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی لیکن علت کے عموم سے پتا چلتاہے کہ یہی طریقہ ہی انسانیت کے لیے ذریعۂ نجات ہے اورنفسانی وسوسوں اورخطروں سے حفاظت کاذریعہ حجاب ہی ہے اوربے پردگی قلب کی نجاست اورگندگی کاذریعہ ہے(معارف القرآن)۔
    اسی طرح امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں نکاح کے فوائد بیان کرتے ہوئے شیطان سے حفاظت اورپاکدامنی کوہی سرفہرست گنوایا چنانچہ فرمایا:یعنی (نکاح کے فوائد میں سے) شیطان سے بچاؤ ،شہوت کاتوڑ اوراس کے خطرے کادورہونا اورنظروں کاپست ہونا اورشرمگاہ کی حفاظت ہے(احیاء العلوم)۔
    گویاعفت کانظام برقراررکھنے کے لیے نکاح مشروع کیاگیا۔
    ٭ پردہ کی اہمیت :  عورتوں کے پردے کابیان7 آیات میں آیا ہے اور70 سے زیادہ احادیث میں قولاً وعملاً پردے کے احکام بتائے گئے ہیں ۔اتنی کثرت سے پردہ کے بارے میں احادیث کاوارد ہونا اس کی اہمیت پر بین دلیل ہے ،پھر صحابیات کے نزدیک پردے کی اس قدر اہمیت تھی کہ کسی موقع پربے پردہ رہنا گوارہ نہ کرتی تھیں۔ جیسے ایک صحابیہ کاواقعہ ہے کہ وہ راستہ سے جارہی تھیں۔پردے کے حکم کی خبرسنی تو وہیں ایک کنارے بیٹھ گئیں اورچادر منگوائی ،پھر چادراوڑھ کراپنی منزل کی طرف روانہ ہوئیں۔ اسی طرح ایک بار ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حضور کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔
    آپ کے ساتھ اونٹنی پر ام المؤمنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی تھیں۔ اچانک اونٹ کاپاؤں پھسل گیااورآپ دونوں حضرات زمین پرگرپڑے ۔سیدنا ابوطلحہؓ نے آپسے آکرپوچھا: چوٹ تونہیں لگی؟ آپ نے فرمایا:نہیں!تم پہلے صفیہ کودیکھو۔یہ سن کرسیدنا ابوطلحہؓنے پہلے تواپنے چہرے پرکپڑاڈالا،پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اورقریب پہنچ کر ان کے اوپر کپڑاڈال کر ان کوچھپاکرپوچھا، اس کے بعد وہ کھڑی ہو ئیں اورپھر ان کو سوارکیا (بخاری)۔
    اس حدیث سے پردہ کی اہمیت کااندازہ لگایاجاسکتاہے۔ پردہ اتناضروری ہے کہ ایسی حالت میں بھی حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے پردہ کااہتمام فرمایا(پردہ اورحقوق زوجین)۔
    ابوداؤدکی ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کوایک کنارے میں چلنے کاحکم فرمایااورایک مرد کو2عورتوں کے درمیان چلنے سے بھی منع فرمایا۔ معلوم ہو اکہ پردہ شریعت میں انتہائی اہمیت کاحامل ہے۔
    ٭ پردہ کاحکم:پردے سے متعلق قرآن وحدیث میں تفصیل سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں چنانچہ پردہ سے متعلق سب سے پہلی آیت5 ھ میں نازل ہوئی جس میں غیرمحرم عورت کی طرف بری نیت سے دیکھنا تحریماًاوربغیرکسی نیت کے دیکھنا کراہتاًممنوع ہے ،اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے :
     ’’محمد !مسلمان مردوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘(النور30)۔
    اوراحادیث میں بھی اس موضوع سے متعلق تفصیلی احکام موجودہیں کہ اگر بلاارادہ اچانک کسی غیر محرم پر نظر پڑجائے تو اپنی نظر کو پھیرنے کا حکم دیا گیا اوریہ بھی بتایاگیاکہ پہلی نظرجوبلاارادہ اچانک پڑجائے وہ توغیر اختیاری ہونے کے سبب معاف ہے ورنہ بالقصدپہلی نظر بھی معاف نہیں۔
    پردہ کے احکام کاذکر فرماتے ہوئے مولاناادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ عورت کا تمام بدن ستر ہے۔ اپنے گھر میں بھی اسکومستوراورپوشیدہ رکھنا فرض اورلازم ہے مگر چہرہ اوردونوں ہاتھ کہ ہروقت ان کوچھپائے رکھنا بہت دشوارہے اس لیے یہ اعضاء ستر سے خارج ہیں۔اپنے گھر میں ان اعضاء کاکھلا رکھنا جائز ہے اورفرمایا کہ یہ مطلب ہرگزنہیں کہ عورت کو اپنے چہرہ کے حسن وجمال کونامحرم مردوں کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے کہ وہ عورتوں کے حسن وجمال کانظارہ کیاکریں(معارف القرآن )۔
    وقرن فی بیوتکن  کے تحت فرمایا کہ عورت کو اپنی یہ زینت ِ ظاہرہ (چہرہ اوردونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلارکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کواس بات کی ہرگز ہرگزاجازت نہیں کہ وہ سرِبازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں۔حسن وجمال کاتمام دارومدار چہرہ پرہے اوراصل فریفتگی چہرے پرہی ختم ہے اس لیے شریعت مطہرہ نے زنا کادروازہ بندکرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا(معارف القرآن)۔
    اسی طرح احکام القران کے حوالہ سے فتاویٰ رحیمیہ میں نقل کیا گیا ہے کہ حدیث میں ہے کہ جوعورت عطر اورخوشبولگاکر نکلتی ہے وہ زانیہ ہے۔
    پردہ کے درجات:
    «  شرعی حجاب یعنی عورتیں اپنے گھروں میں ہی رہیںـ۔ اس کی دلیل یہ ہے:وقرن فی بیوتکن ’’اورتم اپنے گھروں میں رہو۔‘‘(احزاب33)۔
     «   ضرورت کے تحت جب عورت کوگھر سے باہر جانا پڑے تواس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیرتک اوڑھ کر نکلے۔ اس کاحکم:یدنین علیھن من جلابیبھن ’’(کہہ دیجیے کہ) وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔ ‘‘(احزاب95)۔
     مطلب یہ ہے کہ سرسے پاؤں تک عورت اس میں لپٹی ہواورچہرہ اورناک بھی اس میں مستور ہو،صرف آنکھیں راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہوں۔
    «   پوراجسم تومستور ہومگر چہرہ ہتھیلیاں کھلی ہوں ۔ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی ،امام مالک ،اما م احمد رحمہم اللہ نے توچہرہ اور ہتھیلیاں کھولنے کی مطلقاًاجازت نہیں دی ،خواہ فتنہ کاخوف ہویانہ ہو البتہ امام اعظم رحمہ للہ نے فرمایا کہ اگرفتنہ کاخوف ہوتوکھولنامنع ہے لیکن اس زمانہ میں خوف فتنہ نہ ہونے کااحتمال شاذونادرہے اور نادر معدوم کے حکم میں ہوتاہے اسلئے متأخرین فقہائے احناف نے بھی وہی فتویٰ دیدیا جوائمہ ثلاثہ نے دیاتھا کہ جوان عورتوں کیلئے چہرے یاہتھیلیوں کاکھولنا ناجائز اورپردہ کرنا ضروری ہے(معارف القرآن )۔
    ٭ پردہ فطری ضرورت : فطرت کاتقاضایہ ہے کہ جوچیز قیمتی ہوتی ہے اس کوخفیہ اورپوشیدہ جگہ رکھاجاتاہے کہ جس طرح پیسہ قیمتی چیز ہے توانسان اس کوچھپاکر رکھتا ہے اسی طرح عورت بھی قیمتی ہونے کے باعث اسی بات کی حقدار ہے کہ اس کو پردے میں رکھاجائے چنانچہ مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ملفوظات میں پردہ کی فطری ضرورت کو اسی ندازمیں سمجھایا کہ ریل(کسی بھی سواری) میں انسان اپنے پیسوں کوظاہر نہیں کرتا بلکہ اندر کی بھی اندروالی جیب میں رکھتا ہے، اسی طرح عورت کوبھی پردہ میں رکھنا چائیے ،اورغیرت کاتقاضا بھی یہی ہے کہ عورت پردہ میں رہے(ملفوظات حکیم الامت)۔
    ایمان کے بعد جوسب سے پہلافرض ہے وہ سترِ عورت ہے ۔تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں فرض رہا ہے بلکہ شرائع کے وجود سے پہلے جب جنت میں شجر ممنوعہ کھالینے کے سبب حضرت آدم علیہ السلام کاجنتی لباس اترگیا تووہاں بھی انہوں نے سترکھلارکھنے کو جائز نہیں سمجھا اس لیے آدم وحواء علیہم السلام دونوں نے جنت کے پتے اپنے ستر پر باندھ لیے جس کو قرآن نے یوں تعبیر فرمایا:طفقا یخصفان علیھما من و رق الجنۃ ’’اوردونوں اپنے اوپر جنت کے پتے جوڑجوڑ رکھتے گئے۔‘‘(اعراف22)۔
    حضرت شعیب ؑ کی بیٹیوں کے واقعہ سے بھی یہی معلوم ہوتاہے کہ اتنی بات تو صلحاء وشرفاء میں ہمیشہ رہی ہے کہ اجنبی مردوں کے ساتھ عورتوں کااختلاط نہ ہوکہ جب وہ2لڑکیاں اپنی بکریوں کوپانی پلانے کیلئے گئیں توہجوم کی وجہ سے ایک طرف الگ کھڑی ہوگئیں اورپوچھنے پر وجہ یہ ہی بتائی کہ مردوں کاہجوم ہے ،ہم اپنے جانوروں کوپانی اسی وقت پلائینگے جب یہ لوگ فارغ ہوکر چلے جائینگے۔
    ٭ بے پردہ رہنے کے نقصانات :شریعت مطہرہ نے خواتین کو باپردہ رہنے کاحکم دیا اورباپردہ زندگی گزار نے سے ہی معاشرہ میں امن وسکون باقی رہتا ہے اوراچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں اوربے پردگی سے جتنے مفاسد اوربرائیاں معاشرہ میں جنم لیتی ہیں ان کو شمار میں لانا مشکل ہے ۔
    عورتوں کابے پردہ رہنا ہی مردوں کی بدنظری کاباعث بنتاہے جس سے گناہوں کاسلسلہ شروع ہوجاتا ہے چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بدنظری کومہلک بیماری اورفتنہ بتایا:ایاکم والنظرۃ فانھا تزرع فی القلب شھوۃ وکفی بھافتنۃ ’’ (اجنبی عورتوں کو)تاک جھانک کرنے سے اپنے کوبچاؤ، اس سے دلوں میں شہوت کابیچ پیداہوتاہے اورفتنہ پیداہونے کے لیے یہی کافی ہے۔‘‘
    اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام نے بھی اپنے بیٹے کونصیحت فرماتے ہوئے عورتوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی:قال لابنہ یابنی امش خلف الاسد والاسود ولاتمش خلف المرأۃ ’’ فرمایا:اے بیٹا!شیراورسانپ کے پیچھے جانامگر(اجنبی)عورت کے پیچھے نہ جانا۔‘‘(احیاء العلوم)۔
    یحییٰ علیہ السلام نے بھی بدنظری اورحرص ولالچ کوزنا کاباعث بتایا:قیل لیحییٰ: مابدء الزنا؟ قال: النظروالتمنی (حضرت یحییٰ  ؑ سے کسی نے پوچھا کہ زنا کاآغاز کہاں سے ہوتا ہے ؟آپ ؑ نے فرمایا: نامحرم کودیکھنے اورحرص کرنے سے(فتاویٰ رحیمیہ)۔
    بعض صحابہ سے روایت ہے کہ آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اوران کا زنا غیر محرم کودیکھنا ہے اورزنا میں6 خرابیاں ہیں۔3 کا تعلق دنیا سے ہے اور3 کا آخرت سے ہے۔
    دنیامیں خرابیاں یہ ہیں :(1)رزق میں کمی وبے برکتی(2)نیکی کی توفیق سے محرومی(3) لوگوں کے دلوں میں اس سے نفرت۔
    آخرت کی 3 یہ ہیں:(1)اللہ کاغضب(2)عذاب کی سختی(3) دوزخ میں داخلہ ( تنبیہ الغافلین)۔
    اس دورمیں نکاح کرنا مشکل اورگناہ میں پڑنا آسان ہوگیا ہے جبکہ صحابہ وسلف کے دور میں عفیف رہنا آسان تھا کیونکہ ان کانکاح کرناآسان تھا ۔اس وقت ہمیں بے پردگی نے اس قدر جکڑلیا ہے کہ ہر وقت بازاروں میں بدنظری کاگناہ جاری ہے اس لیے ضرورت ہے کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کوعام کیا جائے اورعفت کے تحفظ کے لیے قرآن وسنت کی ہدایات کومشعل راہ بنایاجائے اورہمہ وقت اللہ پاک سے پاکدامنی کی دعا کی جائے:
    اللّٰم اِنّی اَسْئَلُکَ الْہُدیٰ وَالتَّقٰی وَالعَفَافَ وَالغِنٰی(صحیح مسلم باب فی الادعیۃ) ۔

مزید پڑھیں:- - - -کوئی رفیق نہیں کتاب سے بہتر

شیئر: