Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” حسن سلوک “یا ”سلوک حُسن“

ابوغانیہ۔جدہ
وطن عزیز پاکستان میں بہت سی اچھائیاں ہیں اور ”کچھ کچھ“ خرابیاں بھی ہیں۔اچھائیاں تو سب ہی جانتے ہیں مگر یہاں ہم بعض خامیوں کی نشاندہی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آپ یہ دیکھئے کہ ملک بھر میں امراءکے ہنستے مسکراتے، محلات کے مکینوں کے لئے تعلیم کا نظام اور ہے جبکہ غرباءکے روتے جھینکتے جھگی نشینوں کے لئے اور۔کسی درد کا شکار امیروں کو”پیمپر“ کرنے کے لئے علاج جیسی سہولت فراہم کرنے کے ذمہ دار کلینکس بھی ”پولی“ ٹائپ کے ہوتے ہیں جبکہ غریبوں کوموت کے منہ سے باہر گھسیٹنے کے لئے قینچی،چنگی، پھاٹک جیسے علاقوں میں قائم طبی امداد فراہم کرنے والے مراکز کے نام بھی ”جولی “ٹائپ کے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی دو مختلف نظام ہماری ٹریفک پولیس میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک ٹریفک پولیس وہ ہے جو لاہور ، کراچی جیسے شہروں میں ہر جگہ موجود ہے جبکہ ایک وہ پولیس ہے جس کے ساتھ ”موٹر وے“ کا سابقہ استعمال ہوتا ہے۔ عام ٹریفک پولیس کار یا موٹر سائیکل سوار کو روکتی ہے، اس کے کاغذات دیکھتی ہے، لائسنس مانگتی ہے اور پھر کسی نہ کسی قسم کے جرمانے کے نام پر ”وصولی“ کر کے چھوڑتی ہے ۔ ان سے جان بخشی کے بعد متاثرہ فرد جلتا کڑھتا، اول فول بکتاجانب منزل رواں دواں ہو جاتا ہے۔ اسکے برخلاف موٹر وے پولیس کیا کرتی ہے، یہ زیر نظر تصویر سے ظاہر ہے جس میں دو سرکاری اہلکارخواتین ”گھاگ“ ڈرائیور کا چالان کرنے یا اسے جرمانے کی رقم ادا کرنے کا حکم دینے کی بجائے سمجھا رہی ہیں کہ زندگی قیمتی ہے، گاڑی چلاتے وقت احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہئے۔ہماری باتیں یاد رکھئے اور اب جائیے۔ یہ سن کر ”متاثرہ“ شخص بار بار ان ا ہلکاروں کو یاد کرتا ہے اور ان کی باتوں کو دل و جان سے تسلیم کر لیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسا ہی” حسن سلوک “یا ”سلوک حُسن“ شہر کی دیگر شاہراہوں پرکیوں دکھائی اور سنائی نہیں دیتا۔ وہاں موجود ٹریفک پولیس کے ذمہ داران عوام سے ”سیدھے منہ“ بات کرنے کے روادار کیوں نہیں ہوتے؟ یقین جانئے اگر موٹر وے پولیس جیسی اخلاقیات کا مظاہرہ تمام شہروں کی ٹریفک پولیس کرنے لگے تو ملک میں ٹریفک حادثات کی شرح صفر کو چھونے لگے۔ ہمیں یہ دو رنگی ترک کرنا ہوگی۔
 

شیئر: