Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کو پیرس بنانے کے خواب

***خلیل احمد نینی تال والا***
ملک میں چھٹی نگراں حکومت آگئی تاکہ وہ صاف شفاف الیکشن کراکر واپس اقتدار آنیوالے منتخب نمائندوں کے حوالے کرکے سبکدوش ہوجائے ۔پچھلی نگراں حکومت پر خصوصاً پنجاب کے چیف منسٹر نجم سیٹھی پر الیکشن میں دھاندلیوں کے الزامات پی ٹی آئی کے عمران خان نے لگائے تھے ۔احتجاج ہوا ـعلامہ طاہرالقادری ماڈل ٹائون سانحہ کے احتجاج کے باوجود مسلم لیگ ن کے وزیراعظم نواز شریف  کی طرف سے سانحہ کے ذمہ داروں کیخلاف کوئی ایکشن نہ لینے پر عمران خان کیساتھ اسلام آباد میں دھرنے میں شریک ہوئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھرنا سانحہ پشاور عسکری اسکول پر طالبان پاکستان کے حملے کی وجہ سے منسوخ کرنا پڑااور حکومت کامیابی سے جھیل گئی۔
اب پھر نگران حکومت آ چکی ہیـ اس کو غیر ذمہ دار رہنے کی ضرورت تھی ۔ماضی کی حکومت نے 5سال ٹیکسوں ،قرضوں ،لوڈشیڈنگ ،مہنگائی ،بیروزگاری ،صاف پانی کی فراہمی کے وعدوں کو ہوا میں اُڑاکر اپنی حکومت اور اقتدار کو ن لیگ سے نہیں نکلنے دیا ۔بے تحاشہ کرپشن کے الزامات لگتے رہے، تمام مقدمات چلتے رہے۔ اب 10سال ہونے کو آرہے ہیں ۔پی پی پی دور کے مشہور مقدمات 5سال تک چلتے رہیـ ۔کسی کو اربوں روپے ،پٹرول ،گیس اور رینٹل ،ایفی ڈرین ،حج اسکینڈل ،نندی پور پاورپروجیکٹ میں ملوث تمام ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں ۔مسلم لیگ ن کے موجودہ 5سالوں میں بھی یہ مقدمات تو چلتے رہے مگر فیصلے آج تک نہیں ہوسکے ۔اسی طرح 5سال بآسانی کٹ گئے ۔ صرف نوازشریف ہی نااہل ہوئے اور گزشتہ روز انہیں ایون فیلڈ ریفرنس میں 11سال کی سزا ہوگئی ۔
قانون کے مطابق نگراں حکومت آگئی ہے جس کا مقصد صرف شفاف الیکشن کرانا مقصود تھا مگر آتے ہی اچانک ڈالر 110روپے سے راتوں رات 125روپے تک پہنچا دیا گیا ۔پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا۔ اس پر بھی بس نہیں ہوا ۔پٹرول اور ڈیزل کو بالترتیب 100روپے لیٹر اور 124روپے لیٹر کردیا گیا ۔اس نگراں حکومت کو چیف جسٹس ثاقب نثار بھی لگام نہیں ڈال سکے البتہ ایک کمیٹی ضرور تشکیل دی ہے جو اس کے بڑھانے کا جواز بتائے گی ۔
قوم کی معلومات کیلئے کہ اس وقت پٹرول بیرونی دنیا میں 48ڈالر فی بیرل میں فروخت ہورہا ہے۔ایک بیرل میں 159لیٹر ہوتے ہیں۔ جب پاکستان نے خریدا تو ڈالر 105روپے کا تھا ۔تمام اخراجات بھی لگائے جائیں تو 60ڈالر فی بیرل ہوتے ہیں ۔اگر آج کا ڈالر بھی لگائیں تو 125روپے فی ڈالر سے 46روپے فی لیٹر قیمت خرید ہے ۔اُس پر 17فیفیصد سیلز ٹیکس 3فیصد ایکسائز ٹیکس (جبکہ تمام اشیاء سے ایکسائز ٹیکس ختم کردیا گیا ہے )۔6فیصد سرچارج (تمام اشیاء پر سرچارج بھی ختم کیا جاچکا ہے )پھر بھی 57روپے فی لیٹر بنتا ہے ۔اس نگراں حکومت کو کس نے اختیار دیا ہے کہ وہ منافع میں اضافہ کرکے عوام پر مزید بوجھ ڈالے ۔وہ 25جولائی تک کی مہمان ہے جبکہ خود حکومت کو 100ارب روپے ایمنسٹی اسکیم سے وصول بھی ہوچکے ہیں اور اُس کی تاریخ میں بھی توسیع ہوچکی ہے جس سے مزید 100ارب روپے متوقع ہیں ۔
ابھی عوام اس پٹرول بم سے فارغ ہوئے تھے کہ اسی نگراں حکومت کی آڑ میں کے الیکٹرک نے تمام غریب صارفین کو 300یونٹ تک جن کو5.80روپے فی یونٹ چارج کرتے تھے اچانک 10:20روپے فی یونٹ لگاکر پچھلے ماہ کا بل بھیج دیا اور اگر اس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے غریب صارفین کی حد 15:20روپے فی یونٹ تک بڑھاکر عوام پر مزید بوجھ ڈال دیا گیا ہے ۔اب جب کوئی بھتہ بھی وصول کرنے والا نہیں کس کی آڑ میں یہ اضافہ کیا گیا ہے ۔میری چیف جسٹس صاحب سے درخواست ہے کہ عوام کوکے الیکٹر ک کی من مانی قیمتوں سے بھی نجات دلوائی جائے جبکہ دیگر صوبوں میں پرانے ہی داموں پر غریب صارفین سے بل وصول کئے جارہے ہیں ۔سندھ ہی کو مہنگی بجلی بیچنے کی اجازت کس نے دی ہیں ؟
چیف جسٹس صاحب کی ڈیم بنانے کی خوشخبری بھی عوامی پانی کی فراہمی کا سبب بنے گی مگر اُس میں بہت وقت لگے گا۔جب ہمارے ملک میں 2,2سمندر موجود ہیں ،ہم دیگر ممالک کی طرح پلانٹ لگا کر میٹھا پانی اور بجلی پیدا کرسکتے ہیں تو پھر مقامی طور پرائیویٹ سیکٹر کو یہ موقع کیوں فراہم نہیں کیا جاسکتا ۔اگر اسے بھی آزادانہ پلانٹس لگانے کی اجازت دیدی جائے تو فوری طور پر یہ مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے۔
اگر چہ قوم اس الیکشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے مگر اس مرتبہ کراچی پر سب سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کے سربراہ شہاز شریف اور پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری اور پی ٹی آئی کے عمران خان سب آمنے سامنے آچکے ہیں ۔کراچی والے گو مگوں کی حالت میںہیں ۔آیا وہ لسانی تنظیم سے نکل کر قومی سیاسی جماعتوں کی طرف بڑھیں یا پھر اُسی میں پھنسے رہنے کو ترجیح دیں ۔فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔ یہ بھید25جولائی کو ہی کھلے گا۔ ابھی تو وہ پینے کے پانی کی لائنوں میں صبح سے شام قطاریں لگانے میں مصروف ہیں ۔
تمام جماعتیں ان کو پھر تسلیاں دینے میں لگی ہوئی ہیںکہ ہم اگر اقتدار میں آگئے تو ہم تمہیں صاف پانی ،سٹرکیں اور سیوریج کا نظام ٹھیک کروادیں گے ۔کوئی بھلا ان سے پوچھے کہ گزشتہ 30سال سے یہی جماعتیں اقتدار میں تھیں تو پھر کراچی کو پیرس بنانے کا خیال کیوں نہیں آیا ۔کراچی جو جگمگاتا شہر ہوتا تھا اب وہ موہنجودڑو کا نقشہ پیش کررہا ہے۔کون اور کب اس کو پیر س بنائے گا ۔اللہ ہی کو معلوم ہے مگر لگ ایسا رہا ہے کہ جیسے یہ تمام سیاست دان دل ہی دل میں کہہ رہے ہوں کہ چلوں پھر ہم سب مل کر پاکستانی عوام کومزید 5سال کیلئے بے وقوف بنائیں ۔ 
 

شیئر: