Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مجھے یہ شادی منظور ہے

’’مجھے رسول اللہ کے سپرد کردیں، جہاں چاہیں وہ اپنی مرضی سے میری شادی کردیں،وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کریں گے‘‘

    اللہ کے رسول اپنے ساتھیوں سے نہ صرف بے حد محبت فرماتے تھے، بلکہ ان کے حالات وضروریات کی بھی خبر رکھتے تھے۔ مسند احمد اور دیگر کتب حدیث میں روایت ہے کہ جلیبیب ایک انصاری صحابی تھے جو مالدار تھے،نہ خوبصورت، کسی بڑے قبیلہ سے تعلق تھا نہ ہی کسی منصب پر فائز تھے، مگر ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اللہ کے رسول سے اور اللہ کے رسول ان سے محبت کرتے تھے۔
    قارئین کرام!قائد ہو تو ایسا کہ جو اپنے عام ساتھیوں کی بھی ضروریات کا خیال رکھتا ہو۔ ایک دن اللہ کے رسول نے اپنے اس ساتھی کی طرف شفقت بھری نظروں سے دیکھا اور مسکراتے ہوئے فرمایا:
     ’’جلیبیب تم شادی نہیں کروگے؟‘‘
    سیدنا جلیبیب ؓجواب میں عرض کرتے ہیں:
    ’’ اللہ کے رسول! مجھ جیسے شخص سے اپنی بیٹی کی شادی کون کرے گا۔‘‘
     اب ذرا اللہ کے رسول کے اخلاق کریمہ کو ملاحظہ کریں کہ آپ  اپنے اس فقیر صحابی کوکس قدر اہمیت دے رہے ہیں اور اپنی بات کو دہرا رہے ہیں: ’’جلیبیب! شادی نہیں کروگے؟‘‘
    وہ پھر جواباً عرض کرتے ہیں:
    ’’اللہ کے رسول! بھلا میرے ساتھ شادی کون کریگا۔میرے پاس نہ مال ودولت ، نہ حسن وجمال نہ جاہ ومنصب ہے۔‘‘
    مگر رسالت مآب کی نظر اس کے دنیاوی معیار پر نہیں بلکہ اس کی دینداری اور للہیت پر ہے۔آپ   تیسری مرتبہ پھر وہی الفاظ دہرارہے ہیں:    ’’ جلیبیب! تم شادی نہیں کروگے؟ ‘‘
    وہ جواب میں پھر اپنا وہی عذر پیش کر تے ہیں:
    ’’اللہ کے رسول! مجھ سے شادی کون کرے گا؟،میرے پاس ما ل ودولت نہیں، میرا خاندان کوئی معروف اور بڑا خاندان نہیں۔ میں خوبصورت بھی نہیں ہوں ،نہ ہی میرے پاس کوئی منصب ہے۔ تب اللہ کے رسول   اپنے ساتھی کی مایوسی کو خوشی میں تبدیل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’جلیبیب!فکر نہ کرو، تمہاری شادی میں خود کروں گا۔ ‘‘
    سیدناجلیبیبؓ نے کہا:
     ’’مجھ بے مایہ سے تعلق قائم کر کے کون خوش ہوگا، اللہ کے رسول!؟ ‘‘
    آپ نے اُن سے فرمایا:
    ’’نہیں جلیبیب!تم اللہ کے نزدیک بے قیمت نہیں ہو، تمہاری وہاں بڑی قدر ومنزلت ہے۔  ‘‘
    اسی دوران ایک دن آپ نے فرمایا:
    ’’ جلیبیب!فلاں انصاری کے گھر جاؤ اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسول   تمہیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرماتے ہیں: اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔‘‘سیدنا جلیبیبؓ خوشی خوشی اس انصاری کے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ دروازہ پر دستک دی، گھر والے اندر سے پوچھتے ہیں کون؟ جواب دیا: جلیبیب۔ گھر والے کہتے ہیں: کون جلیبیب؟ ہم تو تمہیں نہیں جانتے۔گھر کے مالک انصاری صحابی باہر نکلے اور پوچھا: کیا چاہتے ہو، کہاں سے اور کس مقصد سے آئے ہو؟ جلیبیب جواباً عرض کرتے ہیں: اللہ کے رسول نے آپ لوگوں کو سلام بھیجا ہے۔انصاری صحابی حیرت سے کہتے ہیں:
    ’’ اللہ کے رسول نے مجھے سلام بھیجا ہے، ارے یہ تو میرے لیے بہت بڑی خوش قسمتی کی بات ہے۔ ‘‘
    خوشی سے سرشار ہوکر انہوں نے گھر والوں کو بتایا۔ پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پھرسیدنا جلیبیب ؓنے کہا:
    ’’اللہ کے رسول نے تمہیں سلام کے ساتھ یہ بھی فرمایا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔‘‘
    صاحب خانہ نے یہ بات سنی تو سناٹے میں آگئے۔ یہ شخص میرا داماد بنے گا؟ انہوں نے سوچا: نہ مال ودولت نہ خوبصورتی، نہ بڑا خاندان  ۔ کہنے لگے : ذرا ٹھہرو !میں اپنے گھر والوں سے مشورہ کرلوں۔ رسول اللہ کے یہ انصاری صحابی گھر کے اندر گئے، اہلیہ کو بلایا اور رسول اللہ    کا پیغام سنایا کہ آپ    فرماتے ہیں  کہ  اپنی بیٹی کی شادی جلیبیب سے کردو۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ ساتھ والے کمرے میں پردے کے پیچھے ان کی بیٹی بھی ماں باپ کی گفتگو سن رہی تھی۔ماں گویا ہوئی: جلیبیب کے ساتھ شادی کیسے کردوں۔ اپنی بیٹی ایک ایسے شخص کے سپرد کردوں جو خوبصورت بھی نہیں ، مالدار بھی نہیں اور بڑا خاندان بھی نہیں۔ ہم نے تو فلاں فلاں خاندانوں کی طرف سے آنے والے رشتوں کو مسترد کر دیا تھا۔ میاں بیوی آپس میں گفتگو کررہے تھے۔بیٹی بھی پردے کے پیچھے کھڑی یہ سب ماجرا دیکھ اور سن رہی تھی۔ جب سیدنا جلیبیبؓ نا امید ہو کر واپس جانے لگے تو لڑکی نے معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے جھکی ہوئی نگاہوں سے والدین سے مخاطب ہوکر آہستہ سے کہنا شروع کیا:
      ا َٔتُرِیدُونَ أَنْ تَرُدُّوا عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِ أَمْرَہُ ۔
     ’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسول   کا حکم ٹالنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں؟‘‘
    قار ئین کرام! اس بچی کی سوچ فکر اور محبتِ رسول   کو ہزار مرتبہ داد دیجیے، کہنے لگی:
     ادْفَعُونِي إِلٰی رَسُولِ اللَّہِ ۔
     ’’مجھے رسول اللہ کے سپرد کردیں، جہاں چاہیں وہ اپنی مرضی سے میری شادی کردیں۔‘‘ 
     فَإِنَّہٗ لَنْ یُضَیِّعَنِي ۔
    ’’ وہ مجھے ہرگز ضائع نہیں کریں گے۔‘‘
    والدین نے بھی سر جھکادیا۔ تھوڑی دیر پہلے تک ان کے ذہن میں نہ تھا کہ وہ اس رشتہ کو قبول نہ کرنے کی صورت میں اللہ کے رسول کے حکم کو نظر اندازکرنیوالے بن جائیں گے۔وہ اپنی بیٹی کی عقل ودانش اور اس کے خوبصورت فیصلے پر راضی ہوگئے۔ مطمئن اور خوش باش سیدنا جلیبیب پیغام پہنچا کر واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد ہی اُس ذہین وفطین اور سمجھدار بچی کے والد اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور عرض کیا:
    ’’اللہ کے رسول !آپ  کا پیغام ملا۔ آپ  کا حکم، آپ  کا مشورہ سر آنکھوں پر، میں راضی ہوں۔ میری بیٹی بھی اور میرے گھر والے سبھی آپکے فیصلے سے راضی اور خوش ہیں۔ رحیم ورؤف نبی  کو بھی اس بچی کے جذبات اورسمع وطاعت پر مبنی جواب کا علم ہوچکا تھا: اللہ کے رسول نے اسے ایک عظیم تحفہ عطا فرمایا۔ اپنے مبارک ہاتھوں کو بارگاہ الہٰی میں اٹھالیا اور دعا فرمائی :
     اللّٰہُمَّ صُبَّ الْخَیْرَ عَلَیْہِمَا الْخَیْرَ صَبًّا وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَہُمَا کَدًّا  ۔
    ’’اے اللہ !ان دونوں پر خیر وبرکت اور بھلائی کے دروازے کھول دے اور ان کی زندگی کو مشقت اورپریشانی سے دو رکھ۔‘‘ (موارد الظمآن احمد، مجمع الزوائد )۔
    اس بچی کی شادی سیدنا جلیبیبؓ سے ہوگئی۔ مدینہ طیبہ میں ایک اور گھر آباد ہوگیا، وہ جلیبیب جو کبھی مفلس اور قلاش تھے اللہ کے رسول کی دعا کی برکت سے ان پر رزق کے دروازے کھل گئے۔ یہ گھرانہ بڑا مبارک اور بابرکت ثابت ہوا۔ ان کے مالی حالات بہتر ہوتے چلے گئے۔اس گھرانے کو اللہ کے رسول کی اطاعت کا صلہ یہ ملا :
    فَکَانَتْ مِنْ أَکْثَرِ الأنْصَارِ نَفَقَۃً وَمَالاً ۔
     ’’انصاری گھرانوں کی عورتوں میں سب سے خرچیلا گھرانہ اسی لڑکی کا تھا۔‘‘قارئین کرام! یہ تھا ہمارے پیارے رسول   کا اپنے ساتھیوں سے تعلق اور واسطہ۔ آپ  کا اعلیٰ اخلاق کہ کسی ادنیٰ صحابی کو بھی نظر انداز نہیں فرماتے اور اس لڑکی  کیلئے آپ   کا دعا فرمانااس  کیلئے نہایت خوبصورت تحفہ ثابت ہوا۔ دنیا میں بھی بھلائی نصیب ہوئی اوراطاعت رسول کے باعث جو کچھ آخرت میں ملنے والا ہے اس کا تو کوئی اندازہ ہی نہیں۔

مزید پڑھیں:- - - -  -عفت وعصمت کی اسلامی تدابیر

شیئر: