Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کون بنے گا وزیر اعظم !

***محمد مبشر انوار***
پاکستان میں جمہوری عمل جاری و ساری ہے اور تیسرے انتخابات اپنے مقررہ وقت پر ہونے جا رہے ہیں،جس میں یقینا ً ان غیر ملکی قوتوں کا عمل دخل بھی ہے جنہوں نے ’’مذاق جمہوریت‘‘ میں اپنا کردار ادا کیا تھا۔ گو کہ ان قوتوں کا گمان ،جمہوریت اور جمہوری عمل کے حوالے سے کچھ اور رہا ہوگالیکن پاکستانی سیاستدانوں نے اسے لوٹ مار کا آخری موقع سمجھتے ہوئے اپنے دل کی مرادیں پوری کیں اور جس حد تک ممکن ہو سکا،اس ملک کو لوٹا۔ فوج اس ملک کے نظام میں ایک اٹل حقیقت کے طور پر ہمیشہ موجود رہی ہے اور آج بھی لاکھ کہیں کہ موجود نہیں ،مگر ہے۔میری ذاتی رائے اس حوالے سے ہمیشہ واضح رہی ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کو پروان چڑھانے والی فوج ہی تھی ،اس سیاسی قیادت کی نشو و نما فوجی نرسریوں میں ہوئی اور گھٹی میں ہی سودے بازی ہے کہ ہر جگہ ،ہر موقع پر اپنے مفادات کو کشید کرنا حق فائق سمجھا گیا ہے لیکن اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان میں جو جوش و جذبہ ،امنگیں اور ترنگیں اس وقت محسوس کی جا رہی ہیں۔ یہ اس ملک کی تاریخ میں تیسری مرتبہ ہے کہ عوام اتنے جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جوش و خروش کا یہ مظاہرہ پہلی مرتبہ قیام پاکستان کے وقت ،دوسری مرتبہ 70کے الیکشن میں اور آج 2018کے انتخابات میں یہ جذبہ محسوس ہو رہا ہے تا ہم انتخاب 2018میں اس وقت جو سیاسی صورتحال ابھر رہی ہے ،اس نے ابھی سے حیران کر رکھا ہے،جس طرح کا میلان سیاسی جماعتوں کا ہے اور جو کردار سامنے نظر آ رہا ہے اس میں کسی اصول کی کوئی پروا نہیں کی جا رہی،مقصد صرف اور صرف جیت کر اقتدار کا حصول ہے۔
اس وقت بظاہر پاکستان تحریک انصاف کیلئے میدان کھلا دکھائی دے رہا ہے اور بقول مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی یوں محسوس ہوتا ہے کہ فوج اور عدلیہ ہر صورت لاڈلے کو اقتدار میں لانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں،جس کیلئے ہر طرح کا اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔اس حوالے سے ’’لاڈلے‘‘ کی جماعت میں الیکٹ ایبلز کا جوق در جوق شامل ہونا،عدالتوں سے ہر طرح کا تعاون بشمول آف شور کمپنی کے حوالے سے ریلیف آرٹیکل 62،63کے مطابق ’’صادق و امین‘‘ جبکہ دیگر معاملات میں خاموشی در پردہ اس کی حمایت ہے اورانصاف کا معیار دوسری جماعتوں کیلئے مختلف اور بعینہ انہی قوانین کے تحت دوسری جماعتوں کے رہنماؤں کو سزائیں،عدالت کا دہرا معیار قرار پارہی ہیں۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کے لتے بھی لئے جا رہے ہیں کہ وہ انتخابی عمل میں ایک فریق کے طور پر سامنے آرہا ہے اور صرف ان لوگوں کیلئے ’’نرم گوشہ‘‘ رکھے ہوئے ہے،جو مسلم لیگ ن کے مخالف ہیں۔ویسے تاریخی طور پر یہ انداز اور بیانیہ مسلم لیگ ن کا ہی رہا ہے کہ جب تک معاملات ان کے حق میں رہتے ہیں،یہی انتظامات شفاف قرار دئیے جاتے ہیں اور جب ان کے غیر قانونی کاموں پر قانون حرکت میں آتا ہے تب قوانین نافذ کرنے والے ادارے فریق بن جاتے ہیں۔ قطع نظر اس کے،حقیقت یہ ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کا ووٹر ابھی تک اپنے قائد کے ساتھ کھڑا ہے،شش و پنج والی کیفیت اگر کہیں ہے تو وہ صرف انتخابی میدان میں اترنیوالے کھلاڑیوں کی ہے۔ جنوبی پنجاب میں جو دھچکا مسلم لیگ ن کو لگا ہے اور نتیجے میں آزاد ہونے والے امیدواروں کو جو انتخابی نشان الاٹ ہوئے ہیں،وہ اپنے اندر بہت معنویت رکھتے ہیں ۔علاوہ ازیں کئی اور الیکٹ ایبلز ،جو آزاد حیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں،ان کا انتخابی نشان بھی مخصوص ہے۔ اس پس منظر میں جو منظر کشی بن رہی ہے وہ کسی خاص سمت میں اشارہ کر رہی ہے اور دیکھنے والے یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ انتخابی عمل کی ڈوریں کہیں نہ کہیں سے ہلائی بھی جا رہی ہیں اور ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی انتخابی عمل شفاف نہیں ہو گا۔ سب سے دلچسپ مقابلے کی فضا ،مسلم لیگ ن کے سابق ’’دست راست‘‘ چکری کے راجپوت کے حلقوں میں ہو گی،جن کے متعلق بارہا یہ خبریں زیر گردش رہی کہ وہ جلد ہی تحریک انصاف کو پیارے ہونے والے ہیں مگر عین وقت پر وہ اپنے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے۔ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں اور جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ چوہدری نثار کے فوج میں روابط بہت گہرے ہیں اور فوج ہی نے الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں دھکیلا ہے،تو کیا وجہ ہے کہ چوہدری نثار تحریک انصاف کو پیارے نہیں ہوئے؟؟اس کا جواب اپنی دانست کے مطابق آخر میں دینے کی کوشش کروں گا۔  
اس وقت انتخابی اکھاڑے میں اترے ہوئے امیدواروں کی لسٹ پر نظر دوڑائیں ،سیاسی عمل میں موجود سیاستدانوں کی ادائیں ، چالبازیاں،دوسروں کے ہاتھوں میں برضا و رغبت کھیلنا،سیاسی داؤ پیج یا وفاداریاں بیچنا یا پھر کسی بھی قیمت پرفقط اقتدار؟؟یہ ہماری سیاست ہے اور یہ ہمارے سیاستدان۔ اسوقت پنجاب سے ایسے آزاد اراکین کی تعداد 65تک جا پہنچی ہے جن کا انتخابی نشان ’’جیپ‘‘ ہے(بحوالہ ڈان)،جنکی مبینہ طور پر قیادت چوہدری نثار علی خان ہی کرینگے۔دوسری طرف ایسے آزاد امیدواران بھی ہیں جو یقینی طور پر منتخب سمجھے جاتے ہیں اور ایسے اراکین کو بھی ایک ہی انتخابی نشان الاٹ ہوچکا ہے۔ 242کے ایوان میں آزاد امیدوار اگر 65,60میں منتخب ہو جاتے ہیں تو باقی سیاسی جماعتوں کے حصے میں کیا آئیگا؟؟حکومت کس طرح بنے گی؟ محتاط اندازہ یہی ہے کہ پیپلز پارٹی ابھی بھی 40-45 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی جائیگی، پی ایس پی بھی کوئی نہ کوئی کارنامہ /معرکہ مار ہی لے گی۔ایم ایم اے کی گزشتہ متحد کارکردگی کے پیش نظر اس انتخابی اتحاد سے بھی بہتر کارکردگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔سب سے بڑھ کر مسلم لیگ ن کا ورکر اگر ’’ہمدردی‘‘ یامحبت میں باہر نکلا تو مسلم لیگ ن ابھی بھی ششدر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ آخر میں تحریک انصاف کیا کارکردگی دکھائیگی؟ گو کہ تحریک انصاف کا دعویٰ تو 110سے120نشستیں جیتنے کا ہے مگر پس پردہ کھیل میں بالخصوص آزاد امیدواروں کی اتنی بڑی تعدادمیں یہ دعویٰ فقط دعویٰ ہی لگتا ہے اور مجھے ڈر ہے کہ تحریک انصاف ایک بار پھر اپنے ہدف کے حصول میں ناکام رہے گی لیکن اتنی نشستیںضرور حاصل کر پائیگی کہ اسے آسانی سے نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ اس اندازے کے باوجود کیا تحریک انصاف حکومت بنا پائیگی؟یہ وہ ملین ڈالر سوال ہے،جس کا جواب فی الوقت کسی کے پاس نہیں کہ غیب کا علم صرف اللہ رب العزت کو ہے۔اگر اعدادو شمار دیکھے جائیں اور سیاسی جماعتوں کے دعوؤں کو مد نظر رکھیں تو عین ممکن ہے کہ تحریک انصاف مخالف جماعتیں بمعہ آزاد امیدوار حکومت بنا لیں۔اس صورت میں چوہدری نثار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو منظور نہیں ہوں گے،ممکن ہے قرعہ فال شہباز شریف کے نام نکل آئے بصورت دیگر عمران ،نثار(جیپ) مع پی ایس پی(اگر کوئی قابل ذکر کارکردگی دکھا پائے)’’بلوچستان فارمولا‘‘ اپناتے ہوئے حکومت بنا لیںاور پرانی گھاگ سیاسی قیادت کو اقتدار سے باہر کر دیں۔ بلوچستان فارمولا اگر روبہ عمل ہوا تو پہلے حکمرانی کون کرے گا عمران یا نثار!!!
 

شیئر: