Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کتاب نہیں کتب فروش پیچھے رھ گیا

***وسعت اللہ خان ***
پشاور کے یونیورسٹی روڈ پر ایک پرانے بک ا سٹور  کے باہر یہ نوٹس پھڑ پھڑا رہا ہے۔
’’ ہماری علمی پسماندگی نے ہمیں ترقی یافتہ قوموں کی سیاسی اور اقتصادی غلامی کی گرفت میں دے دیا ہے۔ملکی وسائل کرپٹ مافیا کے توسط سے عالمی طاقتوں کے لئے استعمال کر کے غربت ، بے روزگاری و اقتصادی پسماندگی قبول کی جا رہی ہے۔نتیجے میں پورا معاشرہ اخلاقی زوال ، اجتماعی بے حسی ، انتہا پسندی ، دہشت گردی اور خوف کی گرفت میں ہے۔بے علمی و جہالت کے گھپ اندھیروں نے ہماری بصارت و بصیرت چھین لی ہے۔ہمیں مطالعے کی عادت نہیں رہی۔لائبریریاں اور کتابوں کی دکانیں ہماری معاشرتی و تعلیمی زندگی میں کوئی مقام نہیں رکھتیں۔ان حالات نے ہمیں کتب فروشی ختم کرنے کے افسوس ناک فیصلے پر مجبور کردیا ہے ’’۔شاہین بکس پشاور۔
پچھلے6 برس میں پشاور میں 3قدیم کتابی دکانیں  بند ہو چکی ہیں۔ اب ایک قابل ذکر دکان  بچی ہے۔
کراچی کے علاقے صدر میں ایک پرانی بک شاپ ( تھامس اینڈ تھامس ) گنے کا رس پیلنے والی دو مشینوں کے پیچھے سے جھانکتی رہتی  ہے۔( پاک امریکن ، کتاب محل، اسٹینڈرڈ پبلشنگ ہاؤس ، فوکس پبلشنگ اور سیسی کا کفن دفن ہوئے عرصہ ہوا )۔ڈھائی کروڑ آبادی والے کراچی میں آج اگر آپ کو کوئی ڈھنگ کا بک ا سٹور درکار ہے تو اس کے لئے دو فور اسٹارز ہوٹلوں یا کلفٹن کے ایک شاپنگ مال یا پھر اردو بازار جانا پڑے گا۔
نیشنل بک فاؤنڈیشن کا ادارہ اگرچہ سستی کتابیں چھاپتا ہے لیکن اس کا شو روم عموماً ایسی جگہ بنایا جاتا ہے کہ عام کتاب خواں رسائی کا سوچ کر ہی ہمت ہار جائے۔حالیہ برسوں میں اگر کوئی ادارہ کتابوں کے فروغ کے اعتبار سے پنپا ہے تو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کہا جا سکتا ہے۔اس ادارے کے سالانہ لٹریری فیسٹیولز نے کتب بینی کے شوق  کے احیا  میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
آکسفورڈ لٹریری فیسٹیول کی دیکھا دیکھی دیگر شہروںمیں بھی مقامی سطح پر کتابی و ادبی میلوں کی داغ بیل پڑی ہے۔اس کے علاوہ کتابوں کی تیزی سے کم ہوتی دکانوں کی کمی بڑے شہروں میں وقتاً فوقتاً منعقد ہونے والے سالانہ کتب میلے بھی پوری کر رہے ہیں۔
تو پھر ایسا کیوں ہے کہ کتابوں کی دکانیں بند زیادہ  اور کھل کم رہی ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کتابوں کی قیمت عام آدمی کی رسائی سے باہر ہے لہذا وہ چاہے بھی تو کتاب نہیں خرید سکتا۔اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر ورلڈ کلچرل انڈیکس کے30 ممالک میں کئے گئے آخری سروے  ( 2005ء ) کے مطابق  ہند ، تھائی لینڈ اور چین کتاب بینی کے معاملے میں امریکہ ، یو کے اور جنوبی کوریا وغیرہ جیسے امیر ممالک سے کیوں آگے ہیں ( ہند میں کتب بینی کا ہفتہ وار اوسط 10.7 ، تھائی لینڈ میں 9.4 اور چین میں 8 گھنٹے ہے )۔
یہ بات صرف پاکستان پر ہی لاگو نہیں ہوتی کہ کتابوں کی دکانیں بند ہو رہی ہیں یا ان میں سناٹا بڑھ رہا ہے۔امریکہ میں بھی یہی حالات ہیں۔کتب فروشی کی سرکردہ امریکی کمپنی بارڈرز 2011ء  میںدیوالیہ ہوگئی۔دنیا کی سب سے بڑی کتب فروش کمپنی بارنز اینڈ نوبلز کی617کتاب دکانیں تھیں مگر اب ہر برس اسے اوسطاً 20 دکانیں بند کرنا پڑ رہی ہیں۔تو کیا اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ امریکیوں میں کتب بینی کا شوق مر رہا ہے ؟ 
اگر ایسا ہے تو پھر ایمیزون گزشتہ20 برس کے اندر دنیا کا سب سے بڑا کتب فروش کیسے بن گیا اور  سالانہ 6  ارب ڈالر کی کتابیں کیسے فروخت کر رہا ہے۔اور جہاں بڑے بڑے کتب فروشوں کو اپنے کاروبار کے لالے پڑے ہیں  وہاں ایمیزون اگلے پانچ برس کے دوران 300 سے 400 کتاب دکانیں کھولنے کا منصوبہ کیوں بنا رہا ہے ؟ 
بات یہ ہے کہ روایتی کتب فروش زمانے کی تیز رفتار دوڑ میں پیچھے رھ گئے ہیں۔اب بھاری بھر کم کتابوں کی جگہ ای بکس کے انقلاب نے لے لی ہے۔سنگاپور کے کسی  اسکول میں بچے موٹے موٹے بستے لے کر نہیں جاتے بلکہ ان کے ہاتھ میں صرف ایک ٹیبلٹ ہوتی ہے۔اس پاؤ بھر وزن کی ٹیبلٹ میں تمام ای بک نصاب اور کاپیوں کی جگہ ہوم ورک کے لئے ورڈ سافٹ وئیر ہے۔
آج ایک کنڈل ٹیبلٹ ، کوبو ، الڈیکو سافٹ وئیر میں سینکڑوں ای بکس اپ لوڈ ہو جاتی ہیں۔ آپ نہ صرف سکرین پرورچوئل صفحہ  پلٹ سکتے ہیں بلکہ صفحہ پلٹنے کی سرسراہٹ بھی سن سکتے ہیں۔آپ ہر کتاب کسی کتب فروش کے پاس جائے بغیر کہیں بھی بیٹھے بیٹھے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں اور کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی بھی کر سکتے ہیں۔اگر ایک مجلد کتاب بیس ڈالر کی ہے اور اس کا پیر بیک ایڈیشن 10 ڈالر کا ہے تو وہی کتاب ای بک کی شکل میں آپ3،4 ڈالر میں ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں۔اب بھلا کون روایتی دکان پر جائے اور شیلف بینی کرتا پھرے۔ ایمیزون کے اس ای بک حملے نے بارڈرز کے چار سو بک سٹورز کو تو برباد کردیا مگر بارنز اینڈ نوبلز اور دیگر بڑے اشاعتی ادارے فوراً بدلتے وقت کی چال کو سمجھ گئے اور ای بکس کے بزنس میں کود کر اپنی جان بچا لی۔
اب جبکہ نیٹ پبلشنگ میں روایتی پبلشنگ بزنس سے زیادہ پیسہ اور افرادی قوت ہے۔ہمارے اردو بازار کے کھڑوس ناشر نئی ٹیکنالوجی اور آئیڈیاز کو گلے لگانے میں باقی دنیا سے اتنے پیچھے کیوں ہیں۔اس کی ایک وجہ تو ابتدائی انویسٹمنٹ کا خرچہ ہے۔دوسری وجہ یہ ہے کہ مارکیٹ چھوٹی ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ نئی ٹیکنولوجی میں یہ چھپانا بہت مشکل ہو جائے گا کہ کتاب کی تعدادِ اشاعت ایک ہزار دکھا کے 20ہزار کیسے بیچی جاتی ہے۔ڈیجیٹل پرنٹنگ کی دنیا میں آنے کے بعد لکھاری کا خون چوسنا اتنا آسان نہیں رہے گا۔مگر ہم اس کا بھی توڑ نکال لیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
 

شیئر: