Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرآن کی بنیادی تعلیم

مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مستند و مسلمہ ہدایت نامہ رکھنے کے باوجود دنیا بھر کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں لیکن قرآن سے فیض یاب ہونے کی انہیں توفیق نہیں
* * *   سید نورالعارفین ۔ حیدرآباددکن* * *
  قرآن مجید اللہ کی جانب سے انسانوں کے لئے بھیجا ہوا آخری ہدایت نامہ ہے۔ انسانی تاریخ کی ابتداء سے وحیٔ الٰہی کے نزول کا سلسلہ جاری رہا اور ہر دور میں تعلیمات الٰہی کا خلاصہ ’’اعبدواللہ ولا تشرکوا‘‘ (ایک اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ) رہا ۔
    قرآن کی بھی بنیادی تعلیم یہی ہے ۔ پچھلی انبیائی تعلیمات اور حضرت محمد کے ذریعہ ملی ہدایت میں فرق یہ ہے کہ سابق میں علم و عقیدہ کا محور اُس دور تک اور جس قوم کی طرف نبی مبعوث کئے گئے اس قوم تک محدود تھا۔ حضرت محمد    کا پیغام سارے عالم کے لئے اور تا بہ قیامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے نہ صرف جامع و مکمل بنایا گیا بلکہ ہر قسم کی تحریف سے بھی محفوظ رکھا گیا۔ یہ قرآن کا ہی اعجاز ہے کہ 14 صدیاں گزرگئیں لیکن اس کا لفظ لفظ محفوظ ہے۔ دنیا کی کوئی قوم اتنی خوش قسمت نہیں کہ اس کے پاس ایسی کتاب موجود ہو اور کوئی قوم اتنی بدنصیب بھی نہیں کہ جو ایسی عظیم کتاب کی ناقدری کی مرتکب ہو۔ ’’قرآن مجید کی ناقدری‘‘کا الزام معمولی نہیں جسے نظر انداز کردیا جائے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ آخروہ کیا ناقدری ہے جو امت مسلمہ اس نسخۂ کیمیا کے ساتھ روا رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ یہ کتاب دلوں کی شفاء ‘  تعمیرِسماج کی بنیاد‘ قوموں کا افتخار اور جہاں گیری کا مسلمہ و آزمودہ اصول ہے۔
    اس الزام پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن پاک کا جتنا احترام ہم کرتے ہیں وہ اسکی قدر دانی کا ثبوت ہے۔ کسی اہم معاملہ میں قسم کھانا ہو تو اس کتاب سے بڑھ کر ہم کسی چیز کو نہیں سمجھتے ۔گھر میں سب سے اونچی جگہ اس کتاب کے لئے مختص ہوتی ہے وہ بھی ایسی کہ وہاں صاف ستھرے کاغذ و کپڑے بچھائے جاتے ہیں۔ مزید یہ کہ قرآن مجید کے نسخے لحاف میں لپیٹ کر آنکھوں سے لگاکر چوم کر طاق میں سجائے جاتے ہیں۔ نو مولود کا نام رکھنا ہو تو اسی کتاب کو کھول کر صفحہ کے پہلے حرف سے نام رکھتے ہیں ۔ کسی کے مرنے پر یہی کتاب تو ہے جو میت کے بازو بیٹھ کر پڑھی جاتی ہے اور پھر اسی کتاب کا دور کرکرکے ہم اپنے مردوں کو بخشتے ہیں لیکن یہ جواب دینے والوں کو بتانا ہوگا کہ قرآن مجید کی قدردانی کا کیا یہی مطلب ہے ؟ کیا قرآن انہی مقاصد کے لئے نازل ہوا؟ کیا قرآن و حدیث میں کہیں مذکورہ بالا امور کو مقاصدِ نزول کی حیثیت سے پیش کیا گیا؟ ۔
    جہاں تک احترام کا معاملہ ہے، اس کتاب کا جتنا احترام کیا جائے کم ہے لیکن اصل قابل غور نکتہ اس کے مقصدِ نزول کو سمجھنے کا ہے ۔ گویا یہ جاننا ضروری ہے کہ قرآن کا ہم پر کیا حق ہے؟ اگر ہم نے اس کے حقوق کو نہ پہچانا تو اتنا سب کرنے کے باوجود ہم پر قرآن مجید کی ’’ناقدری‘‘ کا ہی الزام عائد ہوگا کیونکہ یہ قرآن کے حقوق میں سے نہیں ۔ یہ قرآن کے ساتھ ہمارا خودساختہ سلوک ہے ورنہ اس کی اصل قدر دانی تو یہ ہے کہ اس کا وہ حق ادا کیا جائے جس کا تقاضا خود قرآن مجید ہم سے کرتا ہے۔
    قرآن کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے ۔ ارشاد ربانی ہے:    ’’پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسول( ) پر اور اس روشنی (قرآن) پر جو ہم نے نازل کی ہے۔ ‘‘( التغابن8)۔     ایک اور مقام پر مطالبہ یہ ہے کہ یہ ایمان محض زبانی نہ ہو بلکہ سچے دل سے ہو :
     ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے ، وہ اس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں ،وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ (البقرہ 121)۔
    سچے دل سے ایمان لانے کے نتیجہ میں انسان عقیدہ وفکر کی گمراہ کن تاریکی سے نکل کر اس روشنی میں آجاتا ہے جسے ا للہ کی توفیق کہتے ہیں اور جو صراط مستقیم اور سبیل الحمید ہے،چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ’’(اے محمد !)یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائو اُن کے رب کی توفیق سے اُس پروردگارکے راستے پر جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے ۔‘‘ (ابراہیم1)۔
    وحی کی حکمت اور مقصدِ نزول بتانے کے بعد کہا گیا :
    ’’ اور اس سے قبل وہ (یعنی وحی سے محروم قوم) صریح گمراہیوں میں پڑے ہوئے تھے۔‘‘ (اٰل عمران 146)۔
     گویا یہ قرآن ہی ہے جو لوگوں کو گمراہی سے نکالنے کا ذریعہ ہے۔حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم  نے ارشاد فرمایا:     ’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی)۔
    حقیقت یہ ہے کہ اگر امت مسلمہ میں پائی جانے والی گمراہیوں کے اسباب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ ایک حدیث ہی کافی ہوگی ۔ یعنی امت مسلمہ غیر قرآن سے ہدایت کی متلاشی ہے۔مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اس مستند و مسلمہ ہدایت نامہ کو رکھنے کے باوجود دنیا بھر کی کتابیں پڑھ لیتے ہیں لیکن اس قرآن سے فیض یاب ہونے کی انہیں توفیق نہیں۔ اس کتاب ہدایت کو کتاب ِایصال ثوابِ بنا دیا ہے۔ یہ کتاب تو زندوں کے لئے نازل کی گئی لیکن اسے مردوں کے لئے مختص کردیاگیا۔ نتیجہ یہ ہے کہ قرآن تمام تر نور کے باوجودلحافوں میں بند ہے ۔قرآن کریم میں ہے: ’’ہم نے اس (نبیؐ) کو شعر نہیں سکھایا اور نہ شاعری اس کو زیب دیتی ہے ،یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کردے جو زندہ ہو اور انکارکرنے والوں پر حجت قائم ہوجائے۔‘‘ (یٰسین70,69) ۔
     مسلمان اس کی روشنی سے محروم ‘ افسانوں ‘ ناولوں ‘ شاعری ‘ ادب ‘ شیوخ و مرشدین کی تحریروں و فلسفوں میں الجھے ہوئے بھٹک رہے ہیں۔ انہیں زندگی کی راہِ ہدایت نظر نہیں آتی اور نہ آخرت کی راہ نجات دکھائی دیتی ہے۔زندگی میں غیر اللہ سے ہدایت کے طالب اور آخرت میں کسی کے دامن کو پکڑ کر نجات کی تمنا لئے مصروفیاتِ زندگی میں کھوئے ہوئے ہیں ۔ اگر کوئی اس پاک کلام کو سمجھنے والا ہے بھی توعمل و اخلاص کی قلت کے سبب اثر انگیزی کا فقدان ہے۔
    حضرت ابو سعید خدریؓ سے مروی ایک حدیث کا خلاصہ ہے کہ نبی کریم  نے ارشاد فرمایا :
    ’’تم لوگوں میں ایک گروہ ایسا پیدا ہوگا کہ وہ قرآن کی تلاوت کریں گے لیکن وہ ان کی حلقوں سے نیچے نہ اترے گا ، اسلام سے وہ ایسے نکل جائیں گے جس طرح تیر ۔‘‘
    یہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں رسول اللہ  نے خبردار کیا ہے ایسے زمانے سے جبکہ لوگ قرآن پڑھ رہے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یعنی دل تک نہیں پہنچے گا محض زبان و حلق کی مشق ہوگی۔ تلفظ کی ادائی میں تو کوئی فرق نہ ہوگا لیکن نہ اس کے مفہوم سے آشنا ہوں گے ‘ نہ اس کی کیفیات کو محسوس کریں گے‘ نہ اس کے احکام کو جانیں گے اور نہ اس پر عمل کی رغبت رکھتے ہوں گے۔ حلق سے نیچے نہ اترنے کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس پاک کلام کی دل تک رسائی نہیں ہوگی ۔لازمی بات ہے کہ شرک و نفاق سے لے کر اخلاقی بیماریوں تک تمام گناہوں اور نافرمانیوں کا گھر دل ہوتا ہے اور اگر قرآن کی تاثیر حلق سے نیچے اترکر دل تک نہ پہنچے تو اس کا پڑھنا پڑھانا کیسے باعث فیض و حصولِ پاکیزگی ہوسکتا ہے۔
    قرآن مجید پر ایمان لانے کا ایک تقاضا یہ ہے کہ اس کے احکام کو بلا چوں و چرا قبول کرلیا جائے۔ اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے جی چرانا اور تاویلات کے ذریعہ بچ نکلنے کی کوشش یا عملی انحراف کو منافقت سے تعبیر کیا گیا ہے:
     ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آئو اس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کی ہے اور آؤ رسول( ) کی طرف تو ان منافقوں کو تم دیکھتے ہو کہ یہ تمہاری طرف آنے سے کتراتے ہیں ۔ ‘‘ (النساء 61) ۔
    اس پر ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام تسلیم کیا جائے ۔اگر حلال و حرام کو جاننے کا معیار قرآن مجید کو نہ مانا گیا تو ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ حضرت صہیب ؓ سے روایت ہے نبی کریم  نے ارشاد فرمایا :
    ’’جس شخص نے قرآن میں حرام کی ہوئی اشیاء کو حلال سمجھا وہ گویا قرآن پر ایمان ہی نہیں لایا۔‘‘ (ترمذی)۔
    اس کتاب کے نزول کے جو مقاصد بتائے گئے ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ انسانوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات حل کئے جائیں چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
    ’’اے نبی( ) ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو ۔‘‘ (النساء  105)۔
     گویا اس کتاب پر ایمان کا تقاضاہے کہ اس کے فیصلوں کو تسلیم کیا جائے اور اپنے تنازعات کی یکسوئی کے لئے اسے حَکَم(جج) بنایا جائے۔
    سنجیدگی سے غور کیجئے کہ قرآن مجید سے ہمارا تعلق کس قدر اور کس نوعیت کا ہے۔ اسے فراموش کردیا ہے یا محض تلاوت پر اکتفا ہے۔ اسے سمجھ تو لیتے ہیں لیکن اپنی مرضی کے مطابق یا پھر ٹھیک معنوں کو پالینے کے باوجود عمل سے محروم ہیں۔ بہرحال ہمارا جو بھی حال ہو ہم خود ہی اپنا محاسبہ کرسکتے ہیں اور نزول قرآن کا مہینہ رمضان المبارک ہمیں اس محاسبہ کا موقع فراہم کرتا ہے۔
    ترک قرآن اور کتاب حکمت کی ناقدری کی وضاحت اس آیت سے ہوتی ہے:
    ’’ (بروز قیامت )رسول (حق تعالیٰ سے شکایت کے طور پر) کہیں گے کہ اے میرے پروردگار !میری قوم نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کررکھا تھا۔‘‘
    اس آیت میں لفظ ’’مہجورا‘‘ استعمال ہوا ہے جس کا ترجمہ ’’نظر انداز ‘‘ کیا گیا۔ ’’مہجورا‘‘ کا لفظ ’ہجر‘ سے مشتق ہے۔ ہجر کے معنیٰ ہیں ترک کرنا‘ چھوڑنا ‘ قطع تعلق کرنا ‘ رخ پھیر لینا وغیرہ۔ اسی سے ہجرت یعنی کسی چیز یا مقام کو چھوڑ کر دوسری چیز یا دوسرا مقام اختیار کرنا۔ مذکورہ بالا آیت میں ترک قرآن کی جو شکایت نبی کریم  کی زبانی سامنے آئی اگرچہ اس سے مراد کفار ہیں کہ قرآن کا انکار کرنے والی قوم تو وہی ہے لیکن بعض روایات کی بناء پر مفسرین و علماء نے ایسے مسلمانوں کو بھی اس آیت کے ذریعہ تنبیہ کی ہے جو قرآن پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن نہ اس کی تلاوت کا اہتمام کرتے ،نہ اس کے معانی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی اس پر عمل کرتے ہیں۔
     مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے :
     ’’اس (قرآن) کا نہ پڑھنا بھی چھوڑ دینا ہے ،اس کا نہ سمجھنا بھی چھوڑ دینا ہے اور اس پر عمل نہ کرنا بھی اسے چھوڑ دینا ہے۔‘‘        حضرت انسؓ سے مروی ہے نبی کریم  نے ارشاد فرمایا:
     ’’جس شخص نے قرآن پڑھا مگر پھر اس کو بند کرکے معلق کردیا،اس کی تلاوت کی پابندی نہیں کی ،اس کے احکام پر غور نہیں کیا تو بروز قیامت قرآن اس کے گلے میں پڑا ہوا آئے گا اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکایت کرے گا کہ آپ کے اس بندہ نے مجھے چھوڑ دیا تھا اب آپ میرے اور اس کے معاملہ کا فیصلہ فرمادیجئے۔‘‘    ثعلبی کی اس روایت میں قرآن کی شکایت ’’ان عبدک ھذا اتخذنی مھجوراً ‘‘کے الفاظ کے ساتھ آئی ہے اور یہاں بھی وہی لفظ ’’مہجورا‘‘  استعمال ہوا ہے۔
    لفظ ’’مہجورا‘‘ اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے۔ عربی زبان میں ’‘ہاجرات‘‘  بُری یا فحش باتوں کو کہتے ہیں کیونکہ یہ وہ باتیں ہوتی ہیں جنہیں ترک کردیا جانا چاہئے۔
     ’’مہجورا‘‘  ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کے گلے میں رسی ڈال کر اس کا دوسرا سرا پیر سے باندھ دیا گیا ہو، اس طرح جانور چلنے پھرنے کے قابل ہونے کے باوجود مکمل طور سے آزاد نہیں ہوتا۔ وہ چلتا پھرتا ہے لیکن اتنا ہی جتنا اس کے گلے کی رسی اجازت دے۔
    قرآن مجید کو ’ ’مہجورا‘‘ بنادینے کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے قرآن مجید کو اپنے خود ساختہ تصورات ،روایات اور خواہشات کی رسی سے اس طرح جکڑ دیا جائے کہ اس کے اصل معنیٰ و مفہوم اور پیام قاری کی خواہش کا تابع ہوجائے ۔گویا آیات کا وہ مطلب اخذ کیا جائے جو بیان کرنے والے کی مراد ہو ،اگرچہ صاف اور واضح طور پر قرآنی آیات کا استدلال کچھ اور ہی کیوں نہ ہو۔ اگر قرآن مجید کو مہجور بناکر رکھ دینے کا یہ مفہوم لیا جائے تو شاید اسی بات کو شاعر نے اس انداز میں کہا ہے :
 ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
    قرآن کا ایک حق اس کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا ‘ اس کی تعلیم کو عام کرنا بھی ہے لیکن اس کا اطلاق تو اس وقت ہوگا جب ہم مذکورہ ناقدری کو ترک کرتے ہوئے اس کی تلاوت کو حرز جان بنائیں۔ان حقوق کی ادائی ہی اصل قدر دانی ہے ۔ یہی قدر دانی ہے جس سے قرآن دنیا میں ہمارے لئے رہنما اور آخرت میں نور و ذریعۂ شفاعت بن سکتا ہے۔
    وما توفیقی الا باللہ
مزید پڑھیں:- - -  - -مجھے یہ شادی منظور ہے

شیئر: