Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب نے افغان عوام کے دکھ کو اپنا سمجھا ہے، شاہ سلمان

 مسلم علماءکی عالمی کانفرنس کے شرکاءسے خادم حرمین شریفین کا خطاب،اسلامی دنیا افغانستان میں مستقل امن کیلئے کردار ادا کرے،طالبان مذاکراتی عمل کو قبول کریں،کانفرنس کا اعلامیہ
جدہ (ارسلان ہاشمی) خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے افغانستان میں امن و استحکام کے لئے مسلم علماءکی کانفرنس کے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ حضرات اسلام اور اسکے پیرو کاروں کے بہترین خدمت گار ہیں۔ اہل اسلام کے درمیان اتحاد ، پراگندہ شیرازہ جمع کرنے، مسلم دنیا میں ہونے والی جنگوں اور بحرانوں کے خاتمے ، دہشتگردی او رانتہا پسندی جیسی آفتوں سے اسلامی دنیا کو نجات دلانے میں آپ کا کردار غیر معمولی ہے۔ وہ بدھ کو جدہ کے قصرالسلام میں ملاقات کیلئے آنے والی مسلم علماءکی عالمی کانفرنس میں شریک شخصیات سے خطاب کررہے تھے۔ شاہ سلمان نے مسلم علماءکا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد پر ہم اسلامی تعاون تنظیم او آئی سی اور آپ کے تئیں قدرو منزلت کے جذبات رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سعودی عرب کو حرمین شریفین کی خدمت کا اعزازبخشا ہے۔ اپنے والد کے عہد سے لیکر آج تک حرمین کی خدمت کی ہے۔ اب بھی کررہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ شاہ سلمان نے کہاکہ افغانستان کے بحران کے آغاز سے لیکر اب تک سعودی عرب نے افغان عوام کے دکھ درد کو اپنے دکھ درد کے طور پر لیا ہے۔ افغان بحران سے جنم لینے والی خانہ جنگی کی مشکلات کو ہم نے محسوس کیا ہے۔ اسی سے متاثر ہوکر سعودی عرب نے انسانی اوراقتصادی تعاون پیش کیا اور افغان بھائیوں کے مختلف گروپوں کے درمیان اختلافات و تفرقہ و انتشار سے نجات حاصل کرنے کیلئے انتھک سیاسی جدوجہد بھی کی۔ شاہ سلمان نے کہاکہ آج پرامید ہیں۔ لگتا ہے کہ ماضی کا دکھ بھرا باب لپیٹنے اور افغانستان میں نیا باب شروع کرنے کے حوالے سے آپ حضرات کی مساعی بار آو ر ثابت ہوگی۔ افغان عوام آپ لوگوں کی طرف امن و استحکام کے قیام کے حوالے سے امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ افغان عوام کی یہ آرزو مکالمے ، مصالحت اور دین اسلام کی طے کردہ روا داری اپنا کر ہی پوری ہوسکے گی۔ شاہ سلمان نے بہترین مساعی صرف کرنے پر علماءکا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ افغان بھائیوں کو ہر اچھے اور بھلے کام کی توفیق عطا فرمائے۔ اس موقع پر اسلامی تعاون تنظیم کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے او آئی سی اور شریک علماءکی نیابت کرتے ہوئے شاہ سلمان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہاکہ مملکت میں کانفرنس کی میزبانی اور خانہ کعبہ کے پہلو میں اس کے انعقاد کی ہدایت پر ہم سب آپ کے ممنون ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس کی بدولت افغان بحران پر شرعی نکتہ نظر سے علماءکو اظہار خیال کا پلیٹ فارم مہیا ہوا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اعلان مکہ افغانستان میں پرامن حل کے حوالے سے شرعی روڈ میپ ثابت ہوگا۔دریں اثناءعلماءکانفرنس کے اختتامی اجلاس میں جاری مشترکہ بیان میں سعودی عرب کی جانب سے افغانستان میں بحالی امن کی کوششوں کو سراہتے ہوئے خادم حرمین شر یفین کی جانب سے افغانستا ن میں مسلسل قیام امن اور جنگ بندی کے لئے کی جانے والی کوششوں کی تعریف کی گئی ۔ اختتامی بیان او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین نے پڑھا۔ قبل ازیں افغا ن علماءکونسل کے سربراہ مولوی قیوم الدین کاشفی نے خادم حرمین شرفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز آل سعود اور ولی عہدمملکت شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود کی کاوشوںکو سراہتے ہوئے انکا شکریہ ادا کیا ۔اختتامی بیان میں کہا گیاکہ ہم علماءجو آج یہاں جمع ہیں افغانستان میں فریقین سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مکہ اعلامیہ کااحترام کریں جو حرم شریف کے سائے میں جاری کیا گیا ۔ رب کریم سے دعا گو ہیں کہ وہ ملت اسلامیہ کی وحدت کی حفاظت فرمائے اور مملکت و تمام اسلامی ممالک کو مستقل طور پر امن و سلامتی کے سائے میں رکھے ۔ افغان عوام کے لئے بھی دعا گو ہیں کہ ان کی مشکلات ختم ہوں جن سے وہ گزشتہ 10 دہائیوں سے گزر رہے ہیں ۔ ساتھ ہی مملکت کی قیادت اور او آئی سی کے علاوہ ملت اسلامیہ کے علماءو مشائخ سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ مظلوم اور بے بس افغان عوام کے ساتھ رہیں ۔ کانفرنس کے اختتامی اعلامیہ میں 7 نکاتی بیان جاری کیا گیا جسے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل نے پڑھا ۔ مکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ افغانستان اسلامی ملک ہے جہاں کے مظلوم مسلمان عوام پر ظلم جاری ہے وہاں قتل و خون کا بازار گرم ہے جو اسلامی قوانین اور ضوابط کے مکمل خلاف ہے ۔ افغان عوام کی مشکلات کو ختم کرنے اور وہاں جاری جنگ و جدل کو روکنے کےلئے ملت اسلامیہ کو اہم کردار ادا کرنا ہو گا ۔ اسلامی سوسائٹی اور تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ افغانستان میں مسقل بنیادوں پر قیام امن کے لئے اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنا فعال کردار ادا کریں تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو اور وہاں معصوم لوگ آزادی اور سکون سے زندگی گزارسکیں ۔دوسرے نکتے میں کہا گیا کہ اسلام رحمت کا دین ہے مومن ایک دوسرے کے ساتھ اخوت و بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ رہتے ہیں ان پر ایک دوسرے کا خون بہاناحرام ہے ۔ خودکش دھماکے جس میں خون ناحق بہے کسی طور جائز نہیں ۔ افغانستان میں جاری کشت و خون کی بھر پور مذمت کرتے ہیں اور متنازعہ فریقوں کو اس امر کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اللہ تعالی کے احکامات کی پیروی کرتے ہوئے قتل و خون بند کرکے باہمی مصالحت کو فروغ دیتے ہوئے فتنہ و فساد کی آگ بجھائیں ۔ افغان حکومت اور طالبان سے بھی اس امر کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جنگ بندی کو ہر صورت میں قبول کرتے ہوئے سیز فائر کرکے مذاکرات کو کامیاب بنانے کا آغاز کریں ۔ تیسرے نکتے میں کہا گیا کہ مسلمانوں کے مقاتل گروہوں کے مابین صلح کرانا بہت بڑی نیکی اور اجر کا باعث ہے ۔ خون مسلم کو بہانا کبائر میں شامل ہے جس سے مسلمانوں کی صفوں میں انتشار اور افتراق پیدا ہوتا ہے ۔ باہمی افتراق و انتشار وحدت ملت اسلامیہ کےلئے زہر قاتل ہے ۔ اس صورتحال میں عامہ المسلمین اور علماءکو بالخصوص اس امر کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ وحدت ملت کےلئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اس کےلئے ٹھوس اور جامع انداز میں کام کریں۔ اعلامیے کے چوتھے نکتے میں کہا گیا کہ ا فغان حکومت اور طالبان موومنٹ کے مابین جاری جنگ کو روکنے اور افغان عوام کو اس کشت و خون سے نجات دلانے کےلئے انہیں مذاکرات کی میز پر لانا انتہائی ضروری ہے ۔ مذاکرات کے اس اہم اقدام کو تمام علماءکرام قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ افغان صدر اشرف غنی کی ان کوششوں کو بھی سراہتے ہیں جن کے ذریعے مذاکرات کے عمل میں پیش رفت کا کسی قدر امکان پیدا ہوا اور صدر جمہوریہ کی جانب سے طالبان کو غیر مشرو ط مذاکرات کی پیشکش کی گئی اس کے ساتھ افغان حکومت کی جانب سے طالبان کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر بھی تسلیم کرنے کی رضامندی ظاہر کی گئی تاکہ وہ مذاکرات کی میز پر آسکیں اور افغانستان میں جاری جنگ و جدال بند ہو سکے ۔ افغان حکومت کے اقدام کے بعد طالبان کو چاہئے کہ وہ کھلے دل سے اس پیشکش کا مثبت جواب دیتے ہوئے مذاکرات کے عمل کو قبول کرتے ہوئے جنگ وجدال کاراستہ ترک کریں تاکہ افغانستان کے عوام کو محفوظ مستقبل دیاجاسکے ۔اس کے ساتھ اسلامی تعاون تنظیم کے زیر اہتمام جاری قرار داد نمبر 195-204 جو کہ 19محرم 1435 ھ میں منظور ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومتو ں اور سیاسی جماعتو ںکے مابین پیدا ہونےوالے اختلافات کے حل کےلئے کسی بھی طرح تشدد کاراستہ اختیار نہ کیاجائے بلکہ تنازعات کو تعصب اور گروہی فرقہ بندیوں سے بالا تر ہوتے ہوئے حل کیاجائے ۔ مکہ اعلامیے کے پانچویں نکتے میں کہا گیا علماءکانفرنس کے شرکاءخادم حرمین شریفین شاہ سلمان اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے مسائل کو خلوص نیت اور بہترین انداز میں حل کرنے اور اس کے لئے ہر ممکن وسائل فراہم کرنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ اوآئی سی کے زیر اہتمام کانفرنس کا انعقاد مستحسن اقدام ہے جس پر او آئی سی کے شکر گزار ہیں ۔ اس پلیٹ فارم سے مخلصانہ کوششیں کی جاتی رہیں مستقبل میں بھی ان کوششوں کو جاری رہنا چاہئے ۔ افغان مسئلے کے مثبت اور ٹھوس حل تک او آئی سی کای یہ کردار جاری رہے تاکہ وہاں کے عوام کو مستقل بنیادوں پر پر امن ماحول مہیا کیاجاسکے ۔ اعلامیے کے ساتویں نکتے میں کہا گیا کہ اوآئی سی کے سیکریٹری جنرل سے ملتمس ہیں کہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی جانب سے اس کانفرنس کے انعقاد کی مثالی کاوش پرانہیں شکریہ کا خصوصی پیغام ارسال کریں ۔ افغانستان کے لئے انکی مخلصانہ کوششوں کو افغان عوام اور خواص انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ 
 

شیئر: