Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سلہٹ میں جا بجا ہریالی نے ہر گوشہ حسین بنا دیا، ریحا حسین

زینت شکیل۔جدہ
علیم بذات الصدور، بلاشبہ دلوں کی باتوں کی پوری خبر رکھتا ہے ۔اس لئے جو کام انسان کرے اس میں اخلاص اور اعتقاد بھی ہونا چاہئے۔حیات انسانی اور کائنات کی ساخت میں حد درجہ مماثلت موجود ہے۔ زمین کا خول یا پوست چٹانوں کا بنا ہوا ہے اور چٹانوں میں مختلف معدنی مرکبات پائے جاتے ہیں۔ یہ مرکبات نرم حالت میں بھی ہوتے ہیں اور سخت حالت میں بھی چنانچہ یہ مرکب مٹی کی طرح نرم ہو ںیا پتھر کی طرح سخت، دونوں صورتوں میں چٹان کہلاتے ہیں۔ انسان بھی ہر وقت ایک حالت میں نہیں رہتا کبھی کسی استاد کے سامنے یا والدین کے آگے بالکل موم کی طرح ہوجاتاہے اور جب بات مالک حقیقی کے احکامات کی آجائے تو ہر صورت میں اس کی بجاآوری کو ممکن بناتا ہے اور خداداد صلاحیت کی بنا پر ایسی چٹان کی مانند ہو جاتا ہے جس کو دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کرسکتی ۔ یہی مومن کی نشانی ہے۔
”ہوا کے دوش پر“ اس ہفتے ہمارے مہمان محمد ابو الحسین اور انکی اہلیہ ریحا حسین ہیں۔ برصغیر پاک و ہند کا بٹوارہ ہوا تو ہندوستان کے ایک سرے پر مشرقی پاکستان اور دوسرے سرے پر مغربی پاکستان وجود میں آیا۔ سرحدی لکیریں وجود میں آگئیں۔ اس دوران ایک ایسی لکیر بھی کھینچی گئی جس کا مقصد یہ تھا کہ ہندوستان اور نومولود پاکستان، دونوں ہی باہمی تو تکار اورخلفشار میں مبتلا رہیں ۔ اپنے اپنے تئیں ترقی کرنے کی بجاے آپس میں بحث و مباحثہ کرنے پر مجبور رہیں اور یہ سلسلہ سال ہا سال جاری رہے۔ اس مقصد کے لئے کشمیر کے آدھے 
 حصے پر قبضہ کرلیاگیا۔ اس کے باوجودبھی جب دل کی خلش نہ نکلی تو بالآخرشرقی اورغربی پاکستان میں دوریا ں بڑھانے کی سازش رچائی گئی جس میں دشمنان کامیاب ہوگئے۔ پاکستان کا مشرقی بازو کٹ گیا اور آج اس کا نام بنگلہ دیش ہے۔ پاکستان کو دولخت کرنے کا ”سہرا“ پڑوسی ملک ہندوستان اپنے سر سجاتا ہے اور اسے ہر الیکشن میں اپنے سر پر تاج کی طرح رکھتا ہے۔
اسے بھی پڑھئے:سلیم ضیاءآغا:لوگ راہوں میں زندگی بِتاتے ہیں، یہ زندگی کو راستہ دکھاتے ہیں
اس میں کوئی شک نہیںکہ زمینی فاصلے خواہ کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں ،ہر کلمہ گو ایک قوم کی مانند محکم ہوتاہے ۔ بنگلہ دیش کی سرزمین سرسبز اور شاداب ہے جہاں کے پٹ سن اور دوسری زمینی پیداوار کی مانگ دنیا بھر میں ہے ۔بنگلہ دیش کا صرف حسن ہی جادوئی نہیں ہوتا بلکہ یہاں کا ”جادو“بھی مشہور ہے ۔
ریحا حسین دو بچیوں ریما اور سعدیہ کی والدہ ہیں۔ ان کا زیادہ وقت اپنے بچیوں کی دیکھ بھال میں ہی گزرتا ہے لیکن سیاحت کابھی بے حد شوق رکھتی ہیں گھر گرہستی کی ذمہ داری بھی نبھاتی ہیں ۔ان سب کے باوجود وہ سمجھتی ہیں کہ جگہ جگہ بکھری قدرتی ہریالی نے ہر علاقے، ہر گوشے کو خوبصورت بنا دیا ہے۔ٹھنڈا میٹھا پانی اور تاحد نگاہ سبزہ آنکھوں کو بھلا معلوم ہوتا ہے۔ملک چونکہ زراعت کے شعبے میں نئے نئے امکانات پر عمل درآمد کرتا ہے ا س لئے ملک میں عام ادمی کی طرز معاشرت بہتری کی جانب گامزن ہے۔
خواتین کے حوالے سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اب سے ڈھائی دہائی پہلے سے خواتین ذاتی طور پرزراعت و کاروبار میں بڑے پیمانے پر حصہ لے رہی ہیں اور اس کے لئے ڈاکٹر یونس کا بلا سود قرضہ اسکیم نے ملک گیر تبدیلی اور ترقی کا راستہ کھول دیا ہے۔ شہر ہو یا گاﺅں ہر جگہ عورت تعلیم کے بعد جاب کے حصول اور تجارت میں مردوں کے شانہ بشانہ عمل پیرا ہیں۔
محترمہ ریحا نے اپنے خاندان کے بارے میں بتایا کہ ان کا تعلق سلہٹ سے ہے اور سسرال بھی وہیں ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شادی بیاہ کی سب ہی رسمیں خوشیاں بانٹنے کے لئے ہوتی ہیں۔ اکثر گھر کی بزرگ خواتین شادی کی تاریخ رکھے جانے کے بعد اپنے زمانے کے رخصتی کے گیت گاتی ہیں اور اس دوران شادی کی تیاریاں بھی ہوتی رہتی ہیں۔کبھی کوئی ایک گیت گاتی ہیں پھر کپڑے کو تہ کر کے سجاوٹ کی چیزوں کے ساتھ پلاسٹک کی پیکنگ میں رکھتی جاتی ہیں۔اردو کے معروف قدیم شاعر امیر خسرو کا گیت ہے کہ:
” کاہے کو بیاہی بدیس ہے لکھی بابل مورے 
میں تو با بل تورے جھانوے کی چڑیا
 بھور بہے اڑ جائے
 میں تو بابل تورے کھونٹے کی گئیاں
 ہانکو جدھرہنک جائیں ہے لکھی بابل مورے 
اسی طرح دوسرے گیت بھی یاد کر کر کے گاتی ہیں ۔ دراصل ان ہی بزرگوں کی وجہ سے گھر بھر میںرونق ہوتی ہے۔ رت جگے میں مشغلے کے طور پر جو ناشتے کی چیز یں تیارکی جاتی ہیں وہ سب دن بھر مہمانوںکی خاطر داری میں کام آتی ہیں۔بنگالی مٹھائیاں نہ صرف شادی بیاہ کے موقع پر اپنے ملک میں بنائی جاتی ہیں بلکہ دنیا بھر میں بھاشانی مٹھائی کی دھوم ہے۔بنگالی مٹھائی اپنے منفرد ذائقے اور لذت کی وجہ سے ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے۔
سوتی ساریاں بھی بہترین تیار ہوتی ہیں۔ اب لڑکیاںپڑھائی لکھائی میں زیادہ وقت لگاتی ہیں تو ٹیلرز یا پھر ریڈی میڈ سوٹ ضرورت کے حساب سے خرید لیتی ہیں ۔ بنگالی ربڑی اور میٹھادہی بھی بیرون ملک پسند کیا جاتا ہے۔
ریحا حسین کی شادی انکی بہن اور بہنوئی کی وساطت سے ہوئی۔ پرانے دستور کے تحت سب رسمیں اد ا ہوئیں اور ایک ہی شہر میں ہونے کی وجہ سے کوئی چیز مختلف نہیں تھی۔ سسرال میں سب اچھے ہیں۔ خیال کرتے ہیں۔ ویسے تو دال اور سبزی بھی کھاتے ہیں لیکن سب سے زیادہ پسندیدہ سادہ چاول اور تلی ہوئی مچھلی ہے جس کو ہر فرد اپنی معمول کی خوراک میں شامل رکھتا ہے۔ 
دونوں بچیاں اپنی پڑھائی کے اوقات کے بعد مختلف کھیل کھیلتی ہیں ۔گڑیا اور گڈے بھی سجاے جاتے ہیں۔کارٹون فلم انکا 
 سب سے پسندیدہ ٹی وی پروگرام ہوتا ہے۔ دونوں گھر بھر کی لاڈلی ہیں۔ پڑھائی میں بھی دل لگاتی ہیں۔ شوخ رنگوں کے کپڑے پسند کرتی ہیں۔
محمد ابو الحسین نے اپنے والد محمد اسحاق علی اور والدہ سعیدہ بیگم کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت دین دار اور سادہ لوگ ہیں، چونکہ پرانے زمانے میں خاندان بھر کے لوگ اکثر گھرانوں میں ساتھ رہتے تھے یعنی مشترکہ خاندانی نظام تھا تو آج بھی ہمارے یہاں اسی خاندانی نظام کو خاندان بھر کے لئے بہترین سمجھا جاتا ہے ۔کچھ چھوٹی موٹی باتیں توہوتی رہتی ہیں لیکن اس نظام کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان خود کوتنہا بالکل نہیں سمجھتا۔ خاندان کی اکائی قوت کی مظہر ہوتی ہے ۔
سلہٹ ایسا شہر ہے جہاں ہریالی ، کشتی کی سواری،پانی کی روانی ، یہ سب انسان کو فطرت کے قریب رکھتی ہیں۔ سیاحت کے شوقین کے لئے نہ صرف بیرون ملک بلکہ اپنے ملک کے مختلف شہروں سے بھی لوگ جافلونگ، لالہ خال اور چائے کا باغ کی سیر کو پہنچتے ہیں ۔اسکول کالج کے طلبا و طالبات پکنک لے لئے سلہٹ جانا پسند کرتے ہیں جہاں صحرا بھی ہے چاروں طرف تا حد نظر پہاڑ بھی ہیں۔سڑک کے اطراف پوری وادی میں ہریالی ہی ہریالی ہے۔ کشتی کی سواری ہر کسی کو پسند آتی ہے کیونکہ بہت گہرا پانی نہیں ہے اور خطرے والی کوئی بات نہیں بلکہ ایسا ہی لگتا ہے کہ پرانے زمانے کی سواری میں،آج کی دھول ’مٹی اور دھوئیں کے مقابلے میں کہیں بہتر آپشن ہے ۔ ٹانگہ شہر کی تمام سڑکوں پر ٹریفک کے درمیان رواں دواں رہتا ہے عموماًاس میں 2 افراد سوار ہوتے ہیں۔ یہاں چونکہ بارش اکثر ہوتی ہے تو ٹانگہ بھی شیڈ والا ہوتا ہے جو گرمی میں سورج کی تپش اور بارش میں بھیگنے سے بچاتا ہے۔
ٹانگے کی شاہی سواری ہر سیاح شوق سے کرتا ہے۔ سلہٹ میں مشہور ہل اسٹیشن ہے جس کے دونوں طرف ہریالی ہے اور مقامی لوگ اکثر گھومنے کا پروگرام بنالیتے ہیں۔ لالہ کھل بہترین ٹورسٹ پوانٹ ہے ۔بوٹ کی سواری کے شوقین اپنا شوق پورا کرتے ہیں ۔ انکے شہر میں جنگلات کا سلسلہ بھی ہے ۔
کھیل میںچونکہ کرکٹ پسند ہے اس لئے اس کے تمام میچز ٹی پر دیکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی کئی کھیل بچپن میں کھیلے مگر اب کرکٹ ہی سب سی زیادہ پسندیدہ ہو گیا ہے ۔ قومی ٹیم کی عالمی مقابلے میں فتح کو جشن کی طرح مناتے ہیں ۔ آج سے 3دہائی پہلے بنگلہ دیش کے موسیقار روبن گھوش اور فلم اسٹار شبنم کی سپر ہٹ فلموں کا حصہ بنے ۔یہ جوڑا بعد ازاں پاکستان سے بنگلہ دیش شفٹ ہو گیا لیکن روبن گھوش کی رس گھولتی موسیقی آج بھی وہی چاشنی رکھتی ہے۔ ہزاروں گانے ایسے ہونگے جنہوں نے عوامی پسندیدگی کی سند پائی مثلاً:
”مجھے دل سے نہ بھلانا
 چاہے روکے یہ زمانہ
تیرے بن میرا جیون کچھ نہیں 
مہدی حسن کے ان گنت معروف و مقبول کئی گیت ایسے ہیں جن کی موسیقی روبن گھوش کی ترتیب دی ہوئی ہے ۔اسی طرح بنگلہ دیش کے حوالے سے ایک فنکار شخصیت رونا لیلیٰ ہیں جو پاکستان میں تھیں تاہم شبنم اور روبن کی طرح وہ بھی پاکستان سے بنگلہ دیش منتقل ہو گئیں۔ ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی اپنی مقبولیت اور فنی باریکیوں کے حوالے سے لاثانی قرار پاتے ہیں۔ پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک دور ایسا بھی تھا جس میں رونالیلیٰ کے گانوں کو فلم کی کامیابی کی ضمانت قرار دیا جاتا تھا۔ ان کے گائے ہوئے گانے:
٭٭آپ دل کی انجمن میں حُسن بن کر آگئے
٭٭دنوا دنوا میں گنوں کب آئیں گے سانوریا 
٭٭او میرا بابو چھیل چھبیلا میں تو ناچوں گی
٭٭چمپا اور چنبیلی، یہ کلیاں نئی نویلی
٭٭جان من اتنا بتا دو، محبت ہے کیا
٭٭رم جھم برسن لاگی رے پھوار
یہ اور ان جیسے ان گنت نغمے سننے وا لے آج بھی اپنے دور کی یادیں تازہ کرنے کے لئے سنتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رونالیلیٰ کے بعد پاکستان میں ناہید اختر نے کچھ عرصہ دنیائے موسیقی کو اپنے فن سے حیران کیا مگران کے بعد رونا جیسی دھاک بٹھانے والی کوئی مغنیہ لالی وڈ کا مقدر نہ ہو سکی۔
ریحا اور ان کے شوہر نے مملکت کے لئے دعاکی اور کہا کہ ہماری دلی خواہش ہے کہ ہم ہمیشہ یہیں رہیں اور اس مقدس سرزمین کی برکات سمیٹیں۔   
 

شیئر: