Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

زندگی کی عنایات سے دوری کا کرب جھیلنے والا”پردیسی باپ“

مسز ربانی۔ جدہ
چھٹیوں میں کئی برسوں سے ہمارایہی معمول چلا آرہا ہے کہ بچوں کو سمیٹا اور شوہر کے پاس آگئے مگر وقت کے ساتھ سب کچھ تبدیل ہوگیا۔ کوئی بچہ پڑھائی کی غرض سے باہر ہے ،کوئی نوکری کی وجہ سے۔ یوں اب اس بار اکیلے ہی سفر کیا کیونکہ بچوں سے الگ رہنا ماں کے لئے ناممکنات میں سے ہے یعنی اسکا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا پھر بھی کچھ ان کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے اس تصور کو حقیقت میں بدلنا پڑا۔
شام ہورہی تھی ،چائے کا کپ لیا اور دونوں چھت کی طرف چل پڑے۔ یہ ہر جمعہ کا معمول تھا۔ سیڑھیوں سے منسلک کمرے میں اس شخص کا معمول تھا، وہ مسلسل اپنی فیملی سے بات کرتا ۔لہجہ کبھی نرم اور کبھی گرم ہوتا۔ اوپر پہنچی تو چھت پر ایک بھائی صاحب جو عرصے سے رہ رہے تھے ، فرمانے لگے ” ہاں صاحب! آپ کہیں جارہے ہیں؟ بھابھی صاحبہ آئی ہیں۔ اب ہم کہاں نظر آئیں گے اور میا ںصاحب مسکرادیئے۔
وہ دیکھو سامنے ایک بڑے میاں نظر آرہے ہیں۔35سال سے تو میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔ اب تو 70 کے قریب ہیں ۔ کام کاج بھی برائے نام کرتے ہیں لیکن ان کے کفیل نے گھریلو کام کاج کی غرض سے رکھا ہوا ہے۔ کیوں بھئی ،یہ تو بہت بزرگ ہیں جی، ان کی داستان بہت دکھی ہے۔ بے چارے 4 سال بعد واپس آئے تو پھر نہیں گئے۔ بیوی کا انتقال ہوگیا ۔اس کے بعد سے ایک بار گئے ہیں۔ اب تو جانا بھی نہیں چاہتے۔ بہت روتے ہیں۔ اصرار کرنے پر بتایا کہ ہزار گز پر گھر ہے۔ سب بیٹے ساتھ ہیں۔ سب کی گاڑیاں ہیں۔ بیوی تھی تو ہم بھی اپنی گاڑی کا انتظام کرلیتے تھے اور بچے جہاں جاتے ،شادی بیاہ یا کسی پکنک میں ،تو ساتھ چلے جاتے تھے لیکن بیوی کے انتقال کے بعد اکیلا چھٹی گزارتاتھا بچوں کی محبت میں مگر میں نے دیکھا کہ گھر میں تو سب کا کچن اپنا اپنا تھا۔ کسی طرح کہیں نہ کہیں سے کھانا مل ہی جاتا تھا لیکن جب کہیں جانا ہوتا تو اپنی اپنی فیملی کو بٹھانے کے بعد سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے کہ ابا کے لئے جگہ ہے یا نہیں؟ دیکھو ایجسٹ کرلو۔
میں کھڑا دیکھتا رہتا اور سوچتاکہ ہم نے ہمیشہ ان کو ہر چیزبے حساب دی ، اتنی دی کہ ایجسٹ کرنے کی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ کھانے ، پینے اور تعلیم سمیت کسی بھی معاملے میں لیکن آج میں ان کےساتھ اس قسم کی ایجسٹمنٹ نہیں کرسکتا ۔اگر یہی کرنی ہے تو غیروں کے ساتھ کرلوں گا۔ اب تو کوئی کام باقی نہیں ہے ناں۔ یہاں سب کچھ مل جاتا ہے ۔مر بھی گیا تو یہ یقین ہے کہ دوست یا ر کسی کا منہ نہیں دیکھیں گے ۔ افسوس کے ساتھ دکھی دل کے ساتھ آخری آرام گاہ پہنچاآئیں گے۔
بس کریں، مزید مت بتائیں۔ دیوار کی دوسری طرف ایک لڑکا ٹیک لگائے بیٹھا تھا ۔ یہ کون ہے ؟ابھی آیا ہے، 2 سال پہلے شادی کرکے ۔ بے چارہ موجود ہ مسائل کا شکار ہے۔ بیوی کو نہ بلاسکا۔ خلع کا مطالبہ آیا ہے۔ 6 ماہ سے اسی طرح ڈیوٹی کے بعد دیوار سے لگا رہتا ہے۔
ادھر دیکھو یہ منشی صاحب ہیں ۔یہ ان کا”نک نیم“ ہے۔ بہت ہی بااخلاق ہیں۔ ہرجمعہ کے دن صبح کوبال رنگتے ہیں ،اپنے آپ کو ایسے تیار کرتے ہیں جیسے شادی پر جارہے ہیں۔ اکثر ہم انہیں چھیڑتے ہیں کہ کہاں کی تیاری ہے، بولتے ہیں یار فیملی سے وڈیو کال کرنی ہے توذرا تیار ہوجا¶ں تاکہ وہ اداس نہ ہوں ۔ فکر مند نہ ہوں کہ میں کسی تکلیف میں ہوں۔ ہم کہتے کہ تکلیف تو ہے پردیس میں رہنا، اس سے بڑی تکلیف اور کیا ہو گی ۔ وہ کہتے ،ہاں بات تو ٹھیک ہے لیکن اس حقیقت کے اظہار سے بچوں اور بیوی پر برا اثر پڑتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب واپس آجائیں ہم کسی نے کسی طرح گزارہ کرلیں گے ۔اس لئے یہ روپ دھار کر جاتا ہوں وڈیو کال پر گفتگو کرنے ۔ جانا اس لئے نہیں چاہتا کہ ابھی بڑا کام پڑا ہے، بڑی ذمہ داریاں ہیں۔
گل صاحب کو بھی کافی عرصہ ہوگیا ہے۔ وہ دیکھو ہاتھوں میں سامان اٹھائے آرہے ہیں۔ اچھی خاصی آمدنی ہے مگر نہ گاڑی لی ہے اور نہ کمرہ۔ روم شیئر کرتے ہیں اور وہاں بیٹے کو بیوی کو الگ الگ گاڑی لیکر دے رکھی ہے۔ کاروبار ہے ، گھر ہے مگر اپنی ذات کے لئے سوکھی خبز ۔ پھر لمبا سانس لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کنجوسی نہ کرتا تو آج اتنا کچھ نہ بناسکتا۔
مغرب ہوگئی اور ہم نیچے کی طرف آرہے تھے۔ سیڑھی کے ساتھ والے کمرے کا مکین اب بھی فون کال پر مصروف تھا مگر دھاڑنے کی آواز باہر تک آرہی تھی ۔وہ کہہ رہا تھا کہ:
” بچوں کو بولو اپنی اوقات میں رہیں، میں چھٹی پر نہیں آتا تاکہ ان کو سہولت دوں مگر حد سے زیادہ خرچ میری برداشت سے باہر ہے۔“ 
میں نے کہا کہ ابھی تو یہ ٹھیک ٹھاک تھا، اب کیا ہوگیا؟ انہو ںنے بتایا کہ ان کا ایک بیٹا بہت ہی ضدی اور فضول خرچ ہے۔ دوستوں کی نقالی میں نت نئی فرمائشیں کرکے بیچارے باپ کو پریشان کرتا ہے ۔ ہم نے ان کو بارہا مشورہ دیا کہ آپ پیسے نہ بھیجیں، قرض لے لے کرخود ہی سدھر جائیگا مگر بے چارہ باپ ہے ناں۔
اس مضمون کا مقصد ایک نقشہ پیش کرنا ہے جو براہ راست میری نظروں سے گزرتا ہے۔ ہم عورتیں اکثر اپنی ذمہ داری ،اپنی مصروفیت ،اپنی تھکاوٹ کا رونا رو کر کہتی ہیں کہ ماں بننا آسان کا م نہیں، اگر بنتے تو پتہ چلتا۔ 24 گھنٹے کی ڈیوٹی ہے۔ درست بالکل درست ، سو فیصد درست۔ میں خود عورت ہوں اور ہر مرحلے سے گزر رہی ہوں ۔ واقعی ماں بننا آسان کام نہیں لیکن مجھے یہ کہنے میں کوئی شرمندگی نہیں کہ باپ بننا بھی بہت مشکل کام ہے۔ اور اتنا مشکل کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو ایک درجہ عورتوں پر زیادہ عطا فرمایا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو بھی پردیس میں ہیں وہ صرف کماتے نہیں ،اپنی پوری زندگی اکیلے گزار کر سب آرام و آسائش قربان کردیتے ہیں۔ وہ بدلتے موسم ، تازہ کھانا، بچوں کی ہنسی ، بیوی کی محبت جیسی انمول اور بے مثال عنایات سے دوری کا کرب مسکرا کر جھیلنا ہی اپنا شعار بنا لیتے ہیں۔انہیں بس ایک ہی دھن ہوتی ہے کہ وہاں وطن میں رہنے والے خوش رہیں، انہیں کوئی کمی نہ ہو مگر وہ اس وقت زندہ درگور ہو جاتے ہیں جب انہیں اپنے ہی گھر میں ایڈجسٹ کرنے کی باتیں ان کی سماعتو ں پر دستک دیتی ہیں۔ایسے وقت میںبیوی کی طرف سے خلع کا مطالبہ کتنا اذیت ناک ہوتا ہے۔ بگڑی ہوئی اولاد کا دکھ مقروض بھی کرتاہے اور مغموم بھی۔
میں ہر چھٹی میں ایک آرٹیکل اس غربت کے متعلق ضرور لکھتی ہوں مگر اس بار اکیلے آنے کی وجہ سے اور زیادہ تجربہ ہوا کہ جس وقت میرے شوہر اپنا بیگ اٹھائے گھر سے نکلتے ہیں تو ان کے جذبات کیا ہوتے ہیں۔ بیوی، بچے، گھر ،سب پیچھے رہ گیا اور وہ ایک ایسی زندگی کی طرف لوٹ رہے ہوتے ہیں جہاں ان کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا۔ ذرا ان کے ایسے کرب والے لمحات کے بارے میں سوچیں اور ان کیلئے دعا کریں۔ 
ماں بننا بہت آسان ہے ،وہ تو ہماری سلطنت ہوتی ہے۔ وہاں ہم اپنی مرضی سے ہر کام کرتے ہیں، اپنی مرضی کا کھاتے ہیں۔ اپنوں کے درمیان رہتے ہیں، باپ بننا صرف اس وقت آسان ہے جب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ہو۔کمانے کے لئے صرف ڈیوٹی دے اور باقی وقت زندگی کے مزے لے لیکن پردیسی باپ بننا بہت مشکل کام ہے۔ 
 

شیئر: