Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تصویر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

تصویروں کے عام ہو جانے سے دھوکہ نہ کھائیں اور اس کو ہلکا نہ سمجھیں بلکہ اس سے مسلمانوں کو بچانے کی فکر کریں
* *  *مولانا محمد شعیب اللہ خاں ۔ بنگلور* * *

گزشتہ سے پیوستہ:

   ایک جانب حرمت تصویر کے قائلین میں اپنے زمانے کے آسمانِ علم و عمل کے آفتاب و مہتاب فقہاء نظر آئیں گے ،جن کے علم و عمل ، تقویٰ وطہارت ،تفقہ و بصیرت ، ثقاہت و دیانت اہل اسلام کے نزدیک مسلمات میں سے ہیں،تو دوسری جانب جواز کے قائلین وہ حضرا ت ہیں، جن میں سے بیشتر کو عام طور پر جانا پہچانا بھی نہیں جاتا اور اگر جانا پہچانا جاتا ہو تو ان کا مقام و درجہ فتویٰ و فقہ کے بارے میں وہ نہیں جو پہلے طبقے کے لوگوں کو حاصل ہے لہٰذا ان دونوں میں سے کیا ان کا فتویٰ قابل عمل و لائقِ توجہ ہونا چاہیے جن کی شان تفقہ و افتاء اور ،جن کی ثقاہت و عدالت مسلم ہے یا ان کا جن کو یہ درجہ حاصل ہی نہیں ؟ اس پر غور کیا جائے۔
    ایک اور بات قابل توجہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اگرچہ اختلاف ہوا ہے مگر فتویٰ کے لیے علماء نے حرمت ہی کے قول کو ترجیح دی ہے ۔ہندوستان و پاکستان کے بارے میں تو سبھی جانتے ہیں کہ یہاں کے علماء نے ہمیشہ اس کے عدم جواز ہی کا فتویٰ دیا ہے اور اسی طرح عرب دنیا میں بھی یہی صورتحال ہے ۔سعودی عرب کے ایک عالم شیخ ولید بن راشد السعیدان نے ’’ حکم التصویر الفوتوغرافی‘‘ میں لکھا ہے کہ عکسی تصویر کے بارے میں اختلاف ہے ، بعض نے اس سے منع کیا ہے اور یہ حضرات اکثر ہیں اور اسی قول پر سعودی عرب کے اندر فتویٰ ہے۔
    جب فتویٰ حرمت پر ہے تو اس سے اعراض کرنا اور اس کے خلاف کو ترجیح دینا چہ معنی دارد ؟ یہ بات قابلِ غور ہے کیونکہ بلا وجہ مفتی بہ قول کو چھوڑ کر شاذ قول پر عمل کرنا صحیح نہیں ۔
    الغرض تصویر کے مسئلہ میں جب ایک جانب جمہورِ امت ہے اور اس کے اساطین و ائمہ ہیں اور وہ سب کے سب تقریباً اس کی حرمت پر متفق ہیں اور جمہور کے نزدیک مجوزین کی رائے غلط فہمی کا نتیجہ اور بے دلیل ہے اور پھر جمہور نے ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا اور حق کو دلائل کی روشنی میں واضح کردیا ہے ،تو ان کے قول سے گریز کرنا اور ایک چھوٹی سی جماعت کے قول ہی کو ترجیح دینا کس بنیاد پر ہے؟ کیا جمہورِ امت کا موقف اس لائق نہیں کہ اس کو ترجیح دی جائے ؟بلکہ جمہور علمائے عرب و عجم کی بات کو قبول نہ کر کے ایک شاذ قول کا اس قدر احترام کرنا کہ گویا وہی صحیح ہے اور حرمت کا قول گویا باطل و غلط ہے ،کیا یہ طرزِ عمل کسی صالح معاشرے و نیک ذہن کی پیداوار ہے یا کسی بیمار ذہنیت کا نتیجہ ؟ امام حدیث عبد الرحمن بن مھدی نے اسی لیے فرمایا کہ:
    ’’جو شخص علماء کے شاذ قول کو لیتا ہے وہ علم کی دنیا میں امام نہیں ہو سکتا ۔‘‘ (جامع بیان العلم)۔
    مسئلہ تصویر میں جمہور علما کی شدت:
    پھر یہاں ایک اور بات قابلِ لحاظ ہے کہ اگر مسئلہ تصویر ایک اختلافی مسئلہ ہو نے کی وجہ سے اس میں شدت بلکہ اس پر نکیر کوئی غلط
 بات ہو تی تو جمہور علمائے امت نے اس پر کیوں نکیر کی اور پوری شدت سے کی ؟ چنانچہ علمائے عرب و عجم نے تصویر کو جائز قرار دینے والوں پر جس قدر شدت برتی ہے ، اس سے بھی یہ بات واضح ہو تی ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف کی وہ حیثیت نہیں جو مسائل اختلافیہ کو حاصل ہے ورنہ ان حضراتِ اکابر کا یہ شدت برتنا جائز نہ ہو تا کیونکہ علماء نے تصریح کی ہے کہ مسائلِ اختلافیہ میں ایک دوسرے پر اعتراض جائز نہیں اور یہاں صورتحال یہ ہے کہ جواز کے قول کی سختی سے تردید کی گئی ہے۔ جس کے نمونے اس رسالہ میں موجود اکابرین کے فتاویٰ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔مثلاً علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے بعض فتاویٰ میں لکھا ہے :
     ’’ ہم نے جواب میں جو احادیث اور اہلِ علم کا کلام نقل کیا ہے، اس سے حق کے متلاشی پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوگ جو کتابوں ،مجلوں ،رسالوں اورجریدوں میں جاندار کی تصویر کے سلسلہ میں وسعت برت رہے ہیں، یہ واضح غلطی اور کھلا ہوا گناہ ہے۔‘‘ (فتاویٰ شیخ ابن باز)۔
    مفتی علامہ شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ نے لکھا ہے :
    ’’ جس نے یہ خیال کیا کہ شمسی تصویر منع کے حکم میں داخل نہیں اور یہ کہ منع ہونا مجسم صورت اور سایہ دار چیزوں کی تصویر کے ساتھ خاص ہے، تو اس کا خیال باطل ہے۔‘‘ (فتاویٰ و رسائل شیخ محمدبن ابراہیم )۔
    اللجنۃ الدائمۃ کے ایک فتویٰ میں لکھا ہے کہ :
    ’’انسان و حیوان وغیرہ جاندار چیزوں کی شمسی وعکسی تصویر لینا اور ان کو باقی رکھنا حرام ہے بلکہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔‘‘
    علامہ شیخ عبد الرحمن بن فریان ’’شمسی تصویر کی حرمت‘‘ پر تفصیلی کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
    ’’اے مسلم ! تُو اس زمانے کے بعض علم کی جانب منسوب لوگوں سے دھوکہ نہ کھانا جو چکنی چپڑی باتیں کرتے اور بلا دلیل و برہان ، محض اپنی رائے اور بکواس سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر تے ہیں اور عکسی تصویر کو جائز قرار دیتے اور منع کو صرف ان تصویروں سے خاص کرتے ہیں جو مجسمہ کی شکل میں ہوں۔ سبحان اللہ ! یہ فرق کہاں سے آیا ؟ جبکہ نہ تو سنت میں یہ فرق آیا اور نہ قرآن میں آیا ؟ ‘‘
    پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :
    لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اس منکر پر انکار و نکیر کریں اور اس پران کی خاموشی جائز نہیں اور تصویر کے رواج اور عام ہو جانے سے دھوکہ نہ کھایا جائے کیونکہ منکر تو ہر حال میں منکر ہے ،اس کا عام ہو جانا اور رواج پاجانا اس کو حلال نہیں کر دیتا اور نہ بعض لوگوں کی اس سے محبت اور اس کا مرتکب ہو نا اس کو جائز کر تا ہے۔‘‘(الدرالسنیۃ)۔
    قابلِ غور یہ ہے کہ اگر تصویر کے مسئلہ میں اختلاف اس درجہ کا ہوتا جو مختلف فیہ مسائل میں ہوتاہے تو کیا اس قدر شدت کا جواز تھا ، جو ان حضرات نے اختیار کیا ہے اور تصویر کو حرام بلکہ گناہ کبیرہ قرار دیا ہے اور جواز کے قائلین کو کھلی غلطی و واضح گناہ پر ٹھہرایا ہے ؟اور اہل اسلام کو اس پر انکار و نکیر کرنا ضروری قرار دیا ہے اور خاموشی کو ناجائز کہا ہے اور اس کے عام ہو جانے اور رواج پا جانے کو بے اثر ٹھہرا یا ہے ؟ نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ اس اختلاف کو وہ حضرات کوئی قابلِ لحاظ ہی نہیں مانتے تھے۔
    اسی طرح ہند و پاک کے علماء کا بھی رویہ رہا ہے ۔ایک دو حضرات کے اس سلسلہ میں فتاویٰ نقل کردینا اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ فقیہ العصر حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی نے ایک اسکول کے جلسہ (جس میں تصویر لی جاتی ہے )کے بارے میں سوال پر لکھا  کہ:
    ’’یہ معصیت کی مجلس ہے، جس میں شرکت قطعاًجائز نہیںبلکہ دورانِ مجلس اس قسم کی حرکت شروع ہو تب بھی روکنے کی قدرت نہ ہونے والے ہر شخص پر اٹھ جانا واجب ہے ‘‘۔
    نیز لکھا کہ تصویر سازی شریعت کی رو سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔
     نیز فرماتے ہیں :
    ’’انتہائی قلق کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ تصویر کی لعنت عوام سے تجاوز کرکے خواص بلکہ علماء تک پھیل گئی ہے جس کا افسوسناک نتیجہ سامنے آرہا ہے کہ بہت سے لوگ ان حضرات کے اس طرزِ عمل کو دیکھ کر اس قطعی حرام کو حلال باور کرنے لگے۔‘‘ (احسن الفتاویٰ)۔
    پاکستان میں ایک جگہ ایک مسجد میں رمضان میں ختم قرآن کے موقع پرجلسہ ہوا ، اس میں ایک وہیں کے مدرس صاحب نے جلسہ کی تصاویر لیں ۔لوگوں کے منع کرنے پر اس نے بتایا کہ یہ رِیل امام صاحب نے بھروائی ہے اور انہی کی اجازت سے تصویر لے رہا ہوں اور ایسا سب جگہ ہوتا ہے ۔ الغرض اس نے ضد میں تصاویر کھینچیں اور خود اُن امام صاحب کے مائک پر آنے پر ان کی بھی تصاویر لیں ۔اس واقعہ کا ذکر کر کے کسی نے حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی سے سوال کیا تو اس کے جواب میں حضرت نے لکھا ہے :
    ’’تصویریں بنانا خصوصاً مسجد کو اس گندگی کے ساتھ ملوث کرنا حرام اور سخت گناہ ہے۔ اگر یہ حضرات اس سے علانیہ توبہ کا اعلان کریں اور اپنی غلطی کا اقرار کر کے اللہ تعالی سے معافی مانگیں تو ٹھیک ہے ،ورنہ ان حافظ صاحب کو امامت سے اور تدریس سے الگ کر دیا جائے اور ان کے پیچھے نماز ناجائز اور مکروہِ تحریمی ہے۔‘‘ (آپ کے مسائل اور ان کاحل)۔
    اسی طرح علماء و بزرگان کی آئے دن اخبارات میں شائع ہو نیوالی تصاویر کے بارے میں سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
    تصویر بنانا اور بنوانا گناہ ہے لیکن اگر قانونی مجبوری کی وجہ سے ایسا کرنا پڑے تو امید ہے کہ مواخذہ نہ ہوگا۔ باقی بزرگان دین نے اول تو تصویریں اپنی خوشی سے بنوائی نہیںاور اگر کسی نے بنوائی ہوں تو کسی کا عمل حجت نہیں ،حجت اللہ او رسول کا ارشاد ہے۔‘‘ (آپ کے مسائل)۔
    ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
    ’’(فلم اور) تصویر آنحضرت کے ارشاد سے حرام ہے اور ان کو بنانے والے ملعون ہیں۔ ‘‘(آپ کے مسائل)۔
    پاکستان کے وزیر خارجہ سردار آصف احمد نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسلام میں رقص وموسیقی اور تصویر سازی پر کوئی پابندی نہیں ۔ اس کا رد کرتے ہوئے مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے اولاً ان امور کے بارے میں احادیث نقل کیے پھر لکھا ہے :
    ’’آنحضرت کے ارشادات کے بعد سردارآصف احمد کا یہ کہنا کہ اسلام میں ان چیزوں پر کوئی پابندی نہیں ،قطعاً غلط وخلافِ واقعہ ہے اور ان کے اس فتویٰ کا منشا یا تو ناقص مطالعہ ہے یا خاکم بدہن صاحب شریعت ؐسے اختلاف ہے۔ پہلی وجہ جہل مرکب اور دوسری وجہ کفرِ خالص۔‘‘(آپ کے مسائل)۔
    علماء کی تصاویر اور ان کا ٹی وی پر آنا عوام کو یا تو بے چین کرتا ہے یا یہ کہ وہ اس سے اس کے جواز پر استدلال کرتے ہیں ۔ایک صاحب نے آپ سے جب اس سلسلہ میں علماء کے فعل کا حوالہ دیا تو جواب لکھا :
ً    ’’یہ اصول ذہن میں رکھیے کہ کہ گناہ ہر حال میں گناہ ہے ،خواہ ساری دنیا اس میں ملوث ہو جائے۔ دوسرا اصول یہ بھی ملحوظ رکھیے کہ جب کوئی برائی عام ہوجائے تو اگرچہ اس کی نحوست بھی عام ہو گی مگر آدمی مکلف اپنے فعل کا ہے۔ پہلے اصول کے مطابق علماء کا ٹی وی پر آنا اس کے جواز کی دلیل نہیں ، نہ امامِ حرم کا تراویح پڑھانا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے ۔اگر طبیب کسی بیماری میں مبتلا ہوجائیں تو بیماری بیماری ہی رہے گی ، اس کو صحت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔‘‘(آپ کے مسائل)۔
    ان فتاویٰ پر غور کیجیے کہ کیا ایک اختلافی مسئلہ پر کسی کو ملعون کہنا اور اس کام کے ارتکاب پر امامت سے ہٹانے کی تجویز رکھنا بلکہ اس کا فتویٰ صادر کرنا صحیح ہو سکتا ہے ،اگر نہیں اور یقینا نہیں تو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ اس مسئلہ کی وہ نوعیت نہیں جو اختلافی مسائل کی ہو تی ہے بلکہ ان حضرات علماء کے نزدیک اس مسئلہ میں اختلاف غلط فہمی کا نتیجہ ہے ،نہ یہ کہ اس کی بنیاد دلائل ہیں۔
    مجوزین کی ایک لچر دلیل کا جواب:
    یہاں یہ ذکر کر دینا بھی مناسب ہے کہ موجودہ دور کے مجوزّین ِتصویر میں سے بعض کو سنا گیا کہ وہ دلیل جواز یہ دیتے ہیں کہ آج کل تصویر کا عام رواج ہو چکا ہے ، کوئی محفل و مجلس اس سے خالی نہیں ، عوام تو عوام علماء بھی لیتے ہیں ، تو کب تک اس کو ناجائز کہتے رہیں گے ؟ ابھی قریب میں ہمارے مدرسہ میں ایک مفتی صاحب کا ورود ہوا، میں تو سفر پر تھا ،لہٰذا ملاقات نہیں ہوئی ،دیگر اساتذہ کے درمیان انھوں نے یہ باتیں کہیں اور تصویر کو ناجائز کہنے والوں پر طنز و تعریض کی۔
    مگر اس دلیل کو مان لیا جائے تو پھر تمام حرام کاموں کو جائز ہو جانا چاہیے کیونکہ آج شراب بھی عام ہے ،موسیقی و گانا بجانا بھی عام ہے ، موبائل فون سے گانے بجانے کی ٹیون ہم نے علماء کو بھی رکھتے دیکھا ہے اور بے پردگی بھی عام ہے ، سود اور  جوّا بھی عام ہے اور رشوت خوری کا بھی خوب چلن ہے بلکہ غور کرنا چاہیے کہ کونسا گناہ ایسا ہے جو آج کے معاشرے میں رواج نہیں پا رہا ،لہٰذا یہ سب کے سب حرام کام اس لیے جائز ہو جانا چاہیے کہ ان کا رواج عام ہو گیا ہے  لہٰذا کب تک اس کو حرام کہتے رہیں؟ لا حول ولا قوۃ الاباللہ ،اگر یہ مفتیانہ منطق چل جائے تو اسلام کا خدا ہی حافظ !
    یہاں اُن مفتی صاحب کی دلیل کے جواب میں صرف یہ بات کافی ہے کہ ہم حضرت اقدس مفتی محمد شفیع صاحب علیہ الرحمۃ کے رسالہ ’’  گناہ بے لذت‘‘ سے ایک عبارت نقل کیے دیتے ہیں ،بغور ملاحظہ کیجیے: حضرت لکھتے ہیں :
    ’’آج کل یہ گناہ اس قدر وباء کی طرح تمام دنیا پر چھا گیا ہے کہ اس سے پرہیز کرنے والے کو زندگی کے ہر شعبے میں مشکلات ہیں ،ٹوپی سے لے کر جوتے تک کوئی چیز بازارمیں تصویر سے خالی ملنا مشکل ہوگیا ہے ـ۔گھریلو استعمال کی چیزیں ،برتن ،چھتری ،دیا سلائی،
 دواؤں کے ڈبے اور بوتلیں، اخبارات ورسائل یہاں تک کہ مذہبی اور اصلاحی کتابیں بھی اس گناہِ عظیم سے خالی نہ رہیں۔ فالی اللہ المشتکی!
     اور غور کیا جائے تو ان میں سے اکثر حصہ تصاویر کا محض بے کار وبے فائدہ، گناہِ بے لذت ہے ۔ مسلمان کو چاہیے کہ گناہ کے عام ہوجانے سے اس کو ہلکا نہ سمجھے بلکہ زیادہ اہمیت کے ساتھ اس سے بچنے اور دوسرے مسلمانوں کو بچانے کی فکر کریں۔‘‘(گناہ بے لذت)
    حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ جیسے اپنے زمانے کے مفتیٔ بے مثال تو تصویر کے عام ہو جانے کے باوجود یہ کہتے ہیں کہ: عام ہو جانے سے دھوکہ نہ کھائیں اور اس کو ہلکا نہ سمجھیں بلکہ اس سے مسلمانوں کو بچانے کی فکر کریں اور یہ جدید الخیال و روشن خیال مفتی صاحب یہ کہتے ہیں کہ جب یہ عام ہو گئی تو اب حرام کو حرام نہیں بلکہ حلال کہو۔ فیا للعجب!
مزید پڑھیں:- - - - -قرآن کی بنیادی تعلیم

شیئر: