Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” پہنچے گا منزلوں پہ کوئی کارواں نہ اب“

ادب ڈیسک 
فی زمانہ گوکہ اردو زبان و ادب انحطاط کا شکار ہے اور خاص طور سے اردو شاعری لیکن باوجود اس ابتر صورت حال کے اب بھی شعراءکے ایسے مجموعہ ہائے کلام دیکھنے کومل ہی جاتے ہیں کہ زبان پر بلاتکلف مشہور مثل آجاتی ہے کہ” کھنڈر بتاتے ہیںکہ عمارت شاندار تھی” مراد میری ڈاکٹرشفیق ندوی کے نئے مجموعہ کلام بنام ”قریہ جان ” سے ہے جوحال ہی میں شائع ہوکر قارئین تک پہنچا ہے ، موقع کی مناسبت سے بتاتا چلوں کہ یہ مجموعہ شفیق ندوی کاتیسرا مجموعہ کلام ہے کیونکہ اس سے پہلے ان کے دو اور مجموعہ ہائے کلام علی الترتیب بنام ” ہونہ گروعدہ وفا” اور ” گل یہ کف ناز میں” شائع ہوکر قارئین سے داد حاصل کرچکے ہیں۔ یہاں اس بات ذکر بے جانہ ہوگاکہ موضوع تحریر مجموعہ خاصا ضخیم ہے اور کوئی 335صفحات پر مشتمل ہے ، دیدہ زیب ٹائٹل کا بنام ”قریہ¿ جاں” مجموعے کے پہلے صفحہ کی زینت بنا ہواہے جبکہ آخری صفحہ پر انکی تصویر چسپاں ہے اور جس کے نیچے ناشر کا مکمل پتہ ہے ۔ ندوی نے مجموعے کا انتساب ’ ’ اردو نیوز ” کے نام کرتے ہوئے یہ جملہ لکھاہے :
” اردو نیوز کے نام جس کی ہمت افزائی نے مجھے ہر قدم خود احتسابی پر مجبور کیا “اور اپنے کلام کے تئےں بطور اظہار نرگسیت نظیری کا یہ شعر نقل کیا ہے : 
تاریخ واقعات شہاناں نوشتہ ماند
 افسانہ گفت نظیری کتاب شد
مجموعہ فہرست سے بالکل خالی ہے جوعام روایت سے بغاوت ہے لیکن یہ بھی ایک رحجان ہے کہ بہت سارے شعراءاب اپنے مجموعہ ہائے کلام کوترجیحی طور پرفہارس سے خالی رکھنا پسند رکرتے ہیں۔ کتاب میں ندوی کی شاعری کے تعلق سے ایک تعارفی مضمون بھی ہے جس کو تنقیدی تو نہیں کہاجاسکتالیکن مضمون میں بین السطور جگہ جگہ تنقیدی اصول بکھرے پڑے ہیں اور خاصے کام کے ہیں۔کتاب کابنیادی مواد غزل اورنظم پرمشتمل ہے لیکن عمومی طور پر موضوع گفتگو مجموعہ غزل پرمشتمل ہے اورکتاب کے آخر میں نظم کے عنوان کے تحت کچھ نظمیں بھی شامل ہیں جن کو انگلیوں پر گنا جاسکتاہے اور جن کے تعلق سے تعارفی مضمون میںکہاگیاہے کہ وہ آزاد نظم کے عروضی اصولوں کے مطابق کہی گئی ہیںاورجو عربی آزاد نظم کی بانی شاعرہ نازک ملائکہ کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق ہیں مذکورہ بالا مجموعہ کی ابتدا درج ذیل غزل سے ہوتی ہے : 
 بشر ہوں! آہوئے صحرا نہیں میں
سفر میںہوں! کہیںٹھہرا نہیںمیں
مجھے آتے ہیں آداب جنوں سب
کوئی ایسا، کوئی ویسانہیں میں
کہانی دل جلوں کی سن چکاہوں
کوئی گونگا، کوئی بہرا نہیں میں
گوکہ غزل کہنابایںطور بہت آسان ہے کہ کوئی پڑھالکھا شخص جوادبی ذوق کاحامل ہو نیز موزوں طبیعت رکھتاہوقافیہ ردیف کے فنکارانہ استعمال سے غزل کے پیرائے میں اپنے دلی جذبات کا اظہار اورغم جاناں کی ”تشہیر“کرسکتاہے لیکن ایسی غزل کہنا جس میںغم جاناںکوغم دوراںبنایاگیا ہو، خاصا مشکل کام ہے اور اسی نقطے کی وضاحت کرتے ہوئے پروفیسر عطاکاکوی نے میخانہ تغزل کے پیش لفظ میںلکھاہے کہ ” ظاہری ساخت کے اعتبارسے غزل گوئی بہت آسان ہے اس لئے ہرکس و ناکس بغیر سمجھے بوجھے اسے ہاتھ لگادیتاہے مگر زندگی کے تجربات، حقائق ومعارف ، دلی جذبات اورواردات قلب کی سچی تصویرالفاظ کے ذریعہ پیش کرنے کی صلاحیت گنتی ہی کے شعراءکے حصہ میں آئی ہے ۔ اس اجمال کو سمجھنے کےلئے یہاں غالب کے درج ذیل دونوں اشعار اگرایک دوسرے کے ساتھ ملاکر پڑھیں تو کاکوی کے مافی الضمیرکو سمجھنے میں کافی سے زیادہ مدملے گی۔ 
گنجینہ معنی کا طلسم اس کو سمجھئے 
جو لفظ کہ غالب میرے اشعار میں آئے 
٭٭
ہیں اوربھی دنیا میںسخنور بہت اچھے
کہتے ہیںکہ غالب کا ہے انداز بیاں اور 
مذکورہ بالا سطور میں کہیںیہ ذکرآچکاہے کہ ندوی کا یہ مجموعہ کلام عمومی طور پرغزلوں پر مشتمل ہے لیکن یہ بڑا حصہ قافیہ پیمائی کی سعی رائگاں نہیں۔بطور علمی شواہد درج ذیل اشعار پڑھنے میں کوئی تکلف بھی نہیں ہوگا : 
آدمی ہوں، مصلحت ہر کام میں پیش نظر 
مجھ کومرناہے مگرسمجھو نہ پروانہ مجھے 
٭٭٭
بھروسہ کیا کریں ہم اب کسی پر
یہاں لفظوں کی ارزانی بہت ہے
٭٭٭
مصلحت پیش نظر ہے سب کے 
جاں نثاری کوئی قربانی کیا 
٭٭٭
حصار ذات سے نکلا نہ کوئی 
وہ بوئے گل ہو، تار پیرہن کیا 
٭٭٭
شکایت ہرکسی کو ہر کسی سے
ادھورے کس قدر ہیں سلسلے بھی
غزل شاعری پرلکھتے وقت ناقدین کو دومتضاد نقطہ ہائے نگاہ کا سامنا ہوتاہے۔ ایک تو سہل انگاری یعنی قافیہ پیمائی اور دوسرے ابہام یعنی معنی آفرینی اور یہ دونوں نقطہ ہائے نگاہ غزل کے تعلق سے منفی رحجان کی نشاندہی کرتے ہیں اورمجموعی طور پرکلیم احمد کی زبان میںاس کے وحشی صنف سخن ہونے کی افتاد کو استحکام فراہم کرتے ہیں اوریہ باتیںوہ ادبی حقیقتیں ہیںجن کو صرف نظر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ غزل کی صنفی وحشیت کوغزل ناقدین نے عموماً منفی انداز میں لیا ہے اور کلیم احمد کی بات کو بطور سند غزل مذمت کےلئے استعمال کیا ہے حالانکہ اگرصحیح تناظرمیں دیکھا جائے تو کلیم احمد کی بات میںغزل کی ستائش کے وہ پہلو نکلتے ہیں جو بہت پہلے سے ناقدین شعر و سخن کی تحریروں میں موجود ہیں اوراس اجمال کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ غزل کی تعریف میں عام طورپر یہ کہاجاتاہے کہ غزل وہ صنف شاعری ہے جس میںایک مطلع ہوتاہے اوراخیر میں ایک قافیہ، غزل کاہرشعرایک اکائی ہوتاہے اور بعد میں آنے والے شعرسے ظاہری مضمون کے حوالے سے پورے طورپرعلیحدہ ہوتاہے اور بغائر نظر دیکھا جائے توایسا لگتاہے بظاہر اس میں کوئی ربط نہیں اورہرشعرایک دوسرے سے گریز پا ہے اورغزل کے اظہار کی فنکارانہ حیثیت اگر یہی ہے تواس پروحشی صنف سخن ہونے کا لیبل بآسانی لگایا جاسکتاہے جس کو کلیم احمد نے ایک نئی اصطلاح یعنی ”وحشی صنف سخن “ کانام دے کر اردو تنقیدی حلقوں میں بھونچال برپا کردیا لیکن کلیم احمد سے یہاں ایک فروگزاشت ہوگئی کہ انہوں نے ایک تو مغربی تنقیدی اصول ” فن پارہ“ میں باہمی ربط کی اہمیت کو جس کا دراصل بنیادی تعلق نظم سے ہے، غزل پرتھوپنے کی کوشش کی نیز انہوں نے قدماءکے مذکورہ بالا اصول کے ایک حصے کو تونقل کیا لیکن دوسرے حصہ سے قصدا ًنظر بچالی اور وہ یہ کہ اس کے مختلف اشعار میں درپردہ ایک ان دیکھا ربط ہوتاہے جوباہم دگر اشعارکوجوڑکر ایک ڈرامائی فضا پیدا کرتاہے اور غزل کی یہ وہ خوبی ہے جو اس کو مقبول خاص و عام بناتی ہے اوراس اندیکھے ربط کو سمجھنے کے لئے غالب کی یہ غزل پڑھی جاسکتی ہے:

اسے بھی پڑھئے:تاریخ اور اردو میں ماسٹرز کی حامل افسانہ نگار ، تسنیم کوثر

 سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہوگئیں 
خاک میںکیاصورتیں ہونگی کہ پنہاں ہوگئیں
تھیںبنات النعش گردوں دن کے پردہ میںنہاں
شب کو ان کے جی میں کیاآئی کہ عریاں ہوگئیں
اس غزل کا ہرشعرایک مستقل اکائی ہے اوراپنے ہم جنس دوسرے شعر سے مختلف ہے لیکن سارے اشعار بنیادی مضمون سے مربط ہیں اور غیر شعوری طور پروہ اس غزل میں اسی بنیادی تھیم کو آگے بڑھاتے ہوئے نظر آتے ہیںیعنی فنا اور زوال کو آگے بڑھاتے ہوئے ۔ شفیق ندوی کے مجموعہ کلام میںبھی ہمیں ایسی بہت ساری غزلیں پڑھنے کو ملتی ہیں جن کے اشعار باوجود ایک دوسرے سے متنافر اور متضاد ہونے کے، غزل کے بنیادی مضمون سے باہم دگر مربوط ہیںجیسا کہ اس غزل میں دیکھا جاسکتاہے: 
وہی صحر، وہی ہیں آبلے بھی 
وہی ہم ہیں،ہمارے مسئلے بھی
شب فرقت ،وہی تنہائیاں بھی
وہی ہیںدرمیاں میں، مسئلے بھی
فضاو¿ں میں دھواں، دیکھو جدھر بھی
بیاباں میں کہیں، کچھ دل جلے بھی
زمانہ کیا سے کیا اب ہوگیا ہے 
سمندر پہ ہیں ہنستے بلبلے بھی 
تکلف ہے تمہیں آنے میں اتنا
بتاو¿ ہم ملیں کیسے گلے بھی
ندوی صاحب کے پہلے دو مجموعوں میں سے کسی ایک کے تعارفی مضمون میں پروفیسر حسین سحر نے ندوی کی شاعری پر تبصرہ کرتے لکھاہے کہ” ان کے اشعار میں کہیںغالب کی باز گشت ہے تو کہیں انکے اسلوب کی بازیافت ۔“عموماً اس طرح کے تنقیدی جملوں پر بعض قارئین کوچیں بہ جبیں ہوتے ہوئے دیکھا اور سنا گیا ہے اور بظاہر اس کی وجہ مبالغہ آرائی پر مبنی وہ دل جوئی ہے جو تنقیدی ستائش میںشامل رہتی ہے حالانکہ چیں بہ جبیں ہونے کی چنداں ضرورت نہیں کیونکہ غالب ان شعراءمیں سے ایک ہیں جو درپردہ بعد میں آنے والے ہراس شاعر کے کلام میں غیر شعوری طورسے خودکو شامل کرالیتے ہیں جو معنی آفرینی کی کوشش کرتاہے اور اس تناظرمیں ندوی اچھوتے نہیں ہیں اور اس تناظر کو کما حقہ سمجھنے میں انکی درج ذیل غزل سے مدد لی جاسکتی ہے : 
شوق بہار ہے مجھے،فکر خزاں نہ اب
صیاد محو خواب غم آشیاں نہ اب
جی چاہتاہے نیند ہو اصحاب کہف کی
بجتے ہیںکان میرے کہو داستاں نہ اب
اب ڈوبنا ہے بیچ سمندر میںدیکھنا 
گرداب سامنے ہے ،کوئی بادباں نہ اب
جتنے بھی ہم سفر ہیںوہ قزاقِ شہر ہیں
پہنچے گا منزلوں پہ کوئی کارواں نہ اب
اس آخری شعر کوپڑھتے ہوئے مجھے معاصر تنقیدی مقولہ ” کلاسیکیت اور عصری حسیت کی آمیزش ” یاد آتاہے اور جس کا مطلب عموماً یہ ہوتا ہے کہ شاعر صرف لفظیاتی جادوگری کا قائل نہیں بلکہ اس کو عصری مسائل کا بھی ادراک ہے اور یہ ایک ایسی خوبی ہے جو ہر بیدار مغز شاعرکے یہاں کسی نہ کسی شکل میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔مثال کے طورپریہ قطعہ بند پڑھئے۔ 
سرو سہی،نہ ساز، نہ سنبل،نہ سبزہ زار
بلبل ، نہ باغباں، نہ بہاراں،نہ برگ و بار
جیحوں ، نہ جام جم ، نہ جوانی ، نہ جوئے بار
گلشن ،نہ گلبدن، نہ گلابی،نہ گلعذار 
اب بوئے گل،نہ باد صبا چاہتے ہیں لوگ 
وہ حبس ہے کہ لُوکی ہوا چاہتے ہیں لوگ
اردو کے دیدہ ور شعراءکے یہاں ہمیشہ ہی کلاسیکیت اور حسیت ساتھ ساتھ سفر کرتی رہی ہے اور یہ تنقیدی مقولہ کوئی بیسویں صدی کی پیداوار نہیں بلکہ یہ ا یک ایسی ادبی ضرورت ہے جوہر عہد میں موجود رہی ہے ۔ہاں اس حقیقت کا اعتراف تو کرنا ہی ہوگا کہ عہد حاضرمیں فنکارہ چیستاں گوئی پر ہمارے معاصر شعراءترسیل کو ترجیح دیتے ہیں اور سماجی مسائل کا اظہار شاعرانہ پیرائے میں زیادہ کھلا اور بیباکانہ انداز سے کر رہے ہیں، راحت کے اشعار ہیں: 
سیاست میںضروری ہے رواداری، سمجھتاہے
وہ روزہ تونہیںرکھتا،پہ افطاری سمجھتا ہے 
٭٭٭
جو لوگ آج ہیں مسندپہ، کل نہیںہونگے 
کرایہ دار ہیں،ذاتی مکان تھوڑی ہے 
٭٭٭
حاشیے پرکھڑے ہوئے ہیں آج 
ہم نے ہی حاشیے بنائے تھے
ندوی کے مجموعے میں شامل مضمون میں کہیں لکھاہے کہ وہ بہت خوبصورتی سے کلاسیکیت سے عصری حسیت کو ہم آمیز کردیتے ہیں، تو کیا واقعی ایسا ہی ہے اور اگر ایسا ہے تو کیوں نہ ان کے کلام میںاس قبیل کے اشعار ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تاکہ ندوی کے اشعار میں کلاسیکیت اور سماجی حسیت کا فنکارانہ تعین ہوسکے : 
کہیں بھنور ، نہ کہیں موج تند دریا میں 
سفینہ ڈوب گیا ، بچ کے نا خدا نکلا
٭٭٭
 سب ایک جیسے ہیں، قاتل ہو یا کہ منصف وہ
کسی کا ذکر کسی سے جدا کہاں سے کروں
٭٭٭
 مصلحت ہے جو میں اب چپ ہوں
آنکھ دیکھو ،نہ اب دکھاو¿ مجھے
٭٭٭
 اٹھا کر سب کتابیں ہم نے رکھ دی طاق نسیاں پر
کہ دل کو اب سکوں بس شور شہنائی سے ہوتاہے
٭٭٭
 ہمارے نام سے منسوب دہشت 
یہ کیسا استعارہ، یہ لقب کیا 
٭٭٭
 اب دیکھنا ہے! جاکے ٹھہرتے ہیں ہم کہاں
گرتے ہی جارہے، جو گرے آسماں سے ہم 
٭٭٭
مصلحت پیش نظر ہے سب کے 
جاں نثاری کوئی قربانی کیا
 تماشا بن گئے ہیں شہر جاں میں
پڑھاتھا فلسفہ ہم نے خودی کا 
اس قبیل کے بے شمار اشعار ہمیں ندوی کے مجموعہ کلام میں جگہ جگہ بکھرے ملتے ہیں لیکن راست اظہار کے بجائے ان کے یہاں فنکارہ تقاضوں کا بھرپورپاس و لحاظ ہے۔مضمون ختم کرنے سے پہلے موقع کی مناسبت سے اس حقیقت کا اعادہ چاہتا ہوں کہ ندوی شاعرہیں غزل کے اور وہ بھی اس کی لغوی توصیف و تشریح کے حوالوں سے: 
تعارف قریہ جاں سے میرا خاصا پرانا ہے
مگر سنتاہوں میرے نام سے وہ آشنا کم ہے
٭٭٭
تمہارے حسن ، میرے عشق کا چرچا زمانے میں
یہی ہوتاہے الفت میں، پشیمانی سے کیا ہوگا
یہ اشعار خارجیت پرمبنی غزل کے حوالہ جات میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس حوالے سے وہ کوئی اچھوتے نہیں بلکہ راحت اندوری جیسے کھردرے اظہار اور مسائلی شاعری کے نمائندہ شاعر بھی ا س عارضے سے محفوظ نہ رہ سکے، کہتے ہیں: 
 اس کی آنکھوں میں سمندر کی سی گہرائی ہے
اس میں جاکر کوئی پایاب ہواہو تو کہو 
٭٭٭
 تیری ہربات محبت میں گوارا کرکے 
دل کے بازار میں بیٹھاہوں خسارہ کرکے
 منتظر ہوں کہ ستاروں کی ذرا آنکھ لگے 
چاند کو چھت پہ بلالوں گا اشارہ کرکے 
٭٭٭
 شہروں میںتو بارودوں کا موسم ہے
گاو¿ں چلیں، امرودوں کا موسم ہے
یہ ایک طائرانہ نظرہے ندوی کے مجموعہ کلام ” قریہ جاں” پر،مزید کچھ اورشاعرانہ پہلوﺅں کو سمجھنے کیلئے ان کاپورا مجموعہ پڑھنا ہوگا۔
 

شیئر: