Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں دھماکے ، ملوث کون

***سید شکیل احمد***
جمعہ کو پاکستان میں بنوں، مستونگ اور اس سے 2دن قبل پشاور میں ہونے والے دھماکوں نے پورے ملک کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔ کس نے دھماکے کئے اور کون ان میں ملوث تھا کسی کو علم نہیں۔
انتخابات سے چنددن قبل ان دھماکوں سے ہر کوئی حیران اور پریشان ہے۔ سراغرساں اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان  بن چکی ہے۔ اکرم درانی پر حملہ ہوا جس کے بعد مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سراج رئیسانی سمیت 129افراد کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ پشاور میں اے این پی کے امیدوار اور سابق وزیر بشیر بلور کے صاحبزادے ہارون بلور اور کئی دوسرے کارکنوں کو دھماکے میں ہلاک کیا گیا۔ یہ سارے واقعات المناک ترین ہیں۔ بات شروع کرتے ہیں ۔ ہارون بلور کے سانحہ سے۔
  پشاور جو پھولو ںکا شہر تھا اب وہ ایک اجاڑ ڈیر ہ سا بن کر رہ گیا ہے۔ آج تو پشاور نے اتنے ہا تھ پا ؤں پھیلا رکھے ہیںکہ ایک شہر بے ترتیب بن کر رہ گیا ہے مگر وہ شہر جو پھولو ں کا شہر تھا مہکتے مو تیوںکی بہار کا شہر تھا اب سوگ اور ظلمات میں ڈوب کر رہ گیا ہے۔ کیا زمانہ تھا کہ پشاور کی شناخت کن کن شخصیا ت کاحوالہ تھا۔گل محمد مر حوم آج بھی پشاوریوں کے لیے باعث فخر تھے یہ چند خاند ان ہی تو تھے جو پشاور کی تاریخ کے راقم بھی تھے اور تا ریخ بھی تھے گل محمد کا سیاست میںایک ممتا زحوالہ تھا۔ سید یو سف علی شاہ سابق ڈپٹی اسپیکر کالعدم مغربی پا کستان اسمبلی تھے نستعلیق انسان تھے ، ان کے بھائی سید علی شاہ مرحوم سابق صوبائی وزیر رہے ، پشاور کی تاریخ میں سادات خاندان کا اہم کر دار رہا ہے اور تحریک پاکستان میں اس خاندان نے بہت مثالی کر دار بھی ادا کیا ، ان سادات خاندانو ں میں ممتا ز ترین خاندان سید ظفر علی شاہ مرحوم کابھی ہے مو صوف کے خاندان کی سیاست ، تجا رت اور صنعت میںکا وشیںاپنی مثالیں آپ ہیں اسی خاند ان کے ایک سپو ت تاج میر شاہ مرحوم مشرق اخبار کے عہدجدید کے بانی ہیں آپ نے سیا ست سے ہٹ پشاورکے لیے لاجو اب خدما ت انجا م دیں ۔ یہی وجہ تھی کہ انکی وجہ سے پشاور عالمی سطح پر روشنا س ہوا ،ترکی ، ایران اور پاکستان پر مشتمل ایک علاقائی ترقی تنظیم ایو ب خان کے دور میں قائم ہوئی تھی تاج میر شاہ نے اس تنظیم میں اہم کر دار  ادا کیا ان کی خدما ت کے اعتراف میںانھیں اس تنظیم جو اختصار میںآر سی ڈی کہلا تی تھی صعنت وتجارت کے چمبرز کا صدر منتخب کیا گیا اور انھو ں نے تینو ں ممالک کے لیے بیش بہا  خدما ت انجام دیں ۔
                پشاور کے ان اعلیٰ درجے کے معزز خاندانوں میں ایک خاندان بلو ر فیملی کے نا م سے ممتا ز ہوا ، بلو ر خاندان کے سربراہ بلو ر دین مر حوم تھے سرخ وسفید چہر ہ ، ستوان ناک نشیلی آنکھ۔ کیا قد کاٹھ تھا ، بلو ر دیں کے یو ں تو شہر میںکافی سارے دوست احباب تھے کیو ں کہ وہ مہما ن نو از تھے لیکن ان کے خصوصی دوستو ں میںسابق صدر پاکستان سکند ر مر زا ، سابق وزیر اعلیٰ کالعدم مغربی پاکستان ڈاکٹرخان صاحب جو باچا خان کے برادر اکبر تھے جگر ی تھے ۔جب سکندر مر زا پشاور میںڈپٹی کمشنر تعینا ت تھے تب بھی بلا نا غہ ان دوست احباب کی بیٹھک ہر روز ہوا کرتی تھی یہاں یہ کہنا مقصود ہے کہ اپنے دور کے ارباب اختیا ر افراد سے نا تا ہو نے کے باوجود بلو ر دین نے کسی قسم کا مالی یا دیگر فائدہ ان شخصیا ت سے نہیں اٹھایا ۔ یہ خاندان تب سے اب تک ہر قسم کی کرپشن سے اپنا دامن صاف رکھتا ہے اور پشاور کو یہ فخر ہے کہ سیا ست میں سادات خاندانو ں سمیت کسی خاندان نے سیا ست میں کوئی آلو دگی نہیں پھیلائی ۔
      سابق صدر ایو ب خان کے دو ر میںجشن آزادی بڑے جو ش سے منا یا جا تا تھا اور اس روز مقامی حکومت کی جانب سے بہترین دکان سجانے پر انعاما ت دیئے جا تے تھے چنا نچہ ڈھکی دالگر ں بازارمیں بلو ر دین کا تجا رتی مستقر ہو ا کر تا تھا ۔وہ اس شان سے سجایا جاتا کہ ہر سال انعام کا مستحق قرا ر پا یا جا تا لوگ دور دور سے اس کی سجا وٹ دیکھنے کیلئے  آیا کر تے تھے۔ بلور دین غیر سیا سی شخصیت تھے مگر لیکن ان کا بیورکریسی اور سیا ست دانو ں وغیر ہ میںکا فی اثررسوخ تھا ۔جنرل یحیٰی کے دور میں ان کے صاحبزادے اکبر حاجی غلا م احمد بلور سیا ست میں قدم رکھا ، جس کے بعد یہ خاند ان سیا سی ہو گیا ۔ سیا ست میں پشاور کے دیگر خاندانوں کی طر ح اس خاندان کی خدما ت نا قابل فرامو ش ہیں۔ حا جی غلا م احمد بلورنے سیا ست کو بھی عبادت ہی سمجھا ۔
          اس خاندان نے سیا ست میں کئی عمدہ روایا ت کو جنم دیا ۔ اس خاند ان نے سیا ست میں کئی مرتبہ صوبتیں بھی بر داشت کیں مگر کسی بھی آزمائش میں نہ توکسی صلہ کا طمع کیا اور نہ کبھی فکر ی ، نظریا تی سیا ست سے کنا رہ کشی کی ۔ سب سے زیا دہ اس خاند ان کو بھٹو کے دور میں تکالیف برداشت کرنا پڑیں اگر ولی خان  اور ان کے صاحبزادے اسفند یار ولی دونو ں بھٹو کے دور میں پا بند سلا سل کر دئیے گئے تھے تو ادھر حاجی غلا م احمد بھی اوران کے بھائی بشیر احمد بلور کو بھی ساتھ ہی زندان میں ڈال دیا گیا تھا ۔بھٹو مر حوم کے دور میں سیا ست دانو ں پر جھوٹے اور بڑے مضحکہ خیز مقدما ت کھڑے کر دیئے جا تے تھے جیسے اے این پی کے لیڈروں پر پاکستان دشمن ہو نے  کا مقدمہ قائم کیا گیا ، یا پھر مسلم لیگ ن کے رہنما ء   خواجہ سعد رفیق کی والدہ ما جد ہ مر حومہ ریحانہ خواجہ رفیق پر بھینس چور ی کا مقدمہ کھڑاکر دیا گیا تھا اسی طرح بلو ر خاندان کو زیر کر نے کے لیے کئی طرح کے حربے استعمال کیے گئے ، بینکو ں کو کھنگال ڈالا گیا ایک پیسہ کا قرضہ ان کے نا م نہ نکلا ۔ 
              حقیقت ہے کہ بلو ر خاندان کی سیاست اور اہل پشاور کیلئے خدما ت انمول رہی ہیںبلکہ انھو ں نے پارٹی کے لیے بھی بیش بہا  قربانیاں دیںجنرل ضیا الحق کے دور میں پارٹی کے مر کزی لیڈ روں کے سیا سی خراجات کے یہ سب سے بڑے فنا نسرتھے پارٹی کی جدوجہد میںضیا الحق کے دور میںجیلیں بھی کا ٹیں ، اس کے باوجود پا رٹی میں ان کو وہ قدر ومنزلت نہ مل سکی جس کے وہ حق دار تھے بلکہ آزمائشو ںمیںمبتلا کیے جا تے رہے ہیں ۔  اے این پی جو خود کو ترقی پسند ، جمہوری ، سیکو لر جما عت کا دعویٰ کرتی ہے۔ اس نے باچا خان کے خاندان سے باہر کبھی بھی پارٹی کی قیادت قبول نہیںکی حتٰی کہ جب اسفند یا ر ولی ایک مرتبہ پارٹی کی قیا دت کر نے سے پارٹی آئین کے مطابق معذور ہو گئے تھے تو پارٹی آئین میں ترمیم کر ڈالی گئی اور قیا دت باچا خان خاند ان کے سپر د ہی رہی اسی طرح وزارت عظمیٰ کا عہد ہ بھی باچا خان کے خاندان سے باہر جانے نہیں دیا گیا۔اس وقت دیکھاجا ئے تو اس خاندان کی پارٹی کے لیے قربانیا ں سب سے زیا دہ ہیں اس خاند ان کے تین افراد کی جانیں  بھی پا رٹی سیا ست کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ان میں سے جو ان جٹی  دوجا نیں تو انتخابات کی نذر ہوگئیں ، ایک حاجی غلا م احمد بلو ر کے جواں سال بیٹے شبیر احمد بلور ، اور دوسرے بشیر احمد بلور مر حوم کے صاحبزادے ہا رون بلو ر ، بشیراحمد بلور اور ہا رون بلور مر حوم دونوں تو پا رٹی کی نظریا تی سیا ست پر قربان کر دیئے گئے جو سفاکی کی بدترین مثال ہے ۔
          ہا رون بلور  کے سانحہ المنا ک نے تو کئی سوالا ت کو جنم دیا ہے۔ حکومت نے منہ پونچھنے کی غرض سے واقعہ کی تحقیقات کے لیے رسمی طورپر ایک جے ٹی آئی بنا نے کا اعلا ن تو کر دیا مگر اپنی نا کا می کا اعتراف نہیں کیا ۔ اس سے بڑی نا کامی اور کیا ہو سکتی ہے کہ جن لوگوں کے لیے حفاظتی اقدام کئے گئے ہیں ان کی جانو ں کی حفاظت بھی نہ ہو سکی ۔کسی بھی فر د کو حکومت کرنے کاحق تب ہو تا ہے جب وہ عوام کے جان ومال کی حفاظت کے لائق ہو۔ نگران وزیر اعلیٰ خود بھی منصف رہ چکے ہیں ان سے بہتر طور پر کوئی کیا جان سکتا ہے کہ حکمر ان پر عوام کے جان ومال کی حفاظت کی کیا ذمہ داری ہے اور جب اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں نا کا م ہو جا ئے تو اس کو فوری طورپر اربا ب حل وعقد کی مسند سے ازخود اتر جا نا چاہیے۔ جی ٹی آئی سانحہ  کے ذمہ دارو ںکا کیا تعین کرے گی۔ یہ تعین تو ہو چکا ہے کہ ارباب حل وعقد ہی اس کے ذمہ دار ہیں جو اپنی اولین ذمہ داری نبھا نہ سکے ۔
 

شیئر: