Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

امید کا دامن

زبیر پٹیل۔ جدہ
الیکشن 2018ءکی تیاریاں اب اپنے اختتامی مراحل میں داخل ہوچکی ہیں۔ ہر طرف ”لیڈروں“ نے اپنے گرد عوام کو جمع کرنے کیلئے مختلف” ڈرامے“ شروع کردیئے ہیں۔ کوئی تنور سے روٹی بناکر دے رہا ہے تو کوئی موٹر سائیکل تو کوئی رکشہ چلاکر الغرض جتنے ”سرکس “دکھاسکتے ہیں دکھا رہے ہیں ۔ میڈیا میں اس بار جو اچھی بات دیکھنے میں آرہی ہے وہ یہ ہے کہ عوام کو ووٹ کی اہمیت اور اس کے ذریعے بننے والی حکومت کے حوالے سے آگہی فراہم کررہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کا الیکشن کس کروٹ بیٹھتا ہے۔
ویسے ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اس الیکشن کے نتائج سے صرف شہروں میں فرق آئیگا ورنہ گاﺅں دیہات میں وہی پرانے لیڈرز جو عرصے سے اپنی نشستوں پر کامیابیاں حاصل کرتے آرہے ہیں جیتیں گے اوروہاں تبدیلی کا امکان نہیں کیونکہ دیہات میں آج تک ان لیڈروں نے عوام کو قرض تلے جکڑ رکھا ہے اور وہ الیکشن میں ووٹ کے ذریعے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں تعلیم کا نہ ہونا اس کی بڑی وجہ ہے۔ گاﺅ ں میں اسکول تو کھلے مگر ان میں گائے اور بھینسیں ” تعلیم“ حاصل کرنے کیلئے باندھی جانے لگیں ۔
ان بعض نام نہاد لیڈروں اور خاندانی سیاستدانوں کا اب ” دی اینڈ“ ہونا چاہئے کیونکہ ان خاندانی سیاستدانوں نے سوائے ملک اور اس کے عوام کا خون چوسنے کے کچھ نہیں کیا۔ یہ وہ دیمک ہیں جو آہستگی سے ملک کی جڑوں کوکھوکھلا کر رہے ہیں۔اب بھی کچھ نہیں بگڑا ،اگر عوام وقت پر جاگ جائیں اور 25جولائی کو ہونےوالے انتخابات میں ہوشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحیح امیدوار کو ووٹ دیںجو ملک کی ترقی اور کامیابی اور عوام کی خوشحالی کا ضامن بنے ۔ امید پر دنیا قائم ہے اور ہر رات کے بعد سویرا ہوتا ہے۔ شاید اب سویرا پاکستان کی قسمت میں ہونے کو ہے۔ اک نئی صبح جس میں عوام خوشحال اور حکمران عوام کے خادم ہونگے، جہاں اسلامی قوانین نافذ ہونگے ۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں