Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوام فوج کی مدد چاہتی ہے؟

کراچی (صلاح الدین حیدر)صرف چند روز میں ملک میں دہشت گردی کے ایسے خوفناک واقعات پیش آئے کہ لوگ اب فوج کی مددکے انتظارمیں بے چین نظر آتےہیں۔ خیبر پختون خوا ، بلوچستان میں خون کی ہولی اور پھر بلوچستان کے شہر چمن میں اے این پی کے امیدوار زخمی ہوئے۔ جس سے ملک میں خوف وہراس کی فضا قائم ہوگئی ۔ انتخابات پُر امن ہوں گے نہیں اس پر بھی بحث شروع ہوگئی ۔پشاور میں ہارون بلور کی شہادت، کے پی کے کے علاقے بنو ںمیں سابق وزیر اعلیٰ اکرم درانی پر حملے کے بعدکئی ایک مقتدر حلقوں سے آوازیں بلند ہوئیں کہ نگران حکومت ناکام ہوگئی۔ اب عوام الناس اور اُمید واروں کی حفاظت فوج کے سپرد کردی جائے۔یہاں تک کافی نہیں بلکہ شہباز شریف ، بلاول بھٹو، اسفند ےار ولی ، اور ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے انتخاب کے صاف ، شفاف ہونے پر کھلے الفاظ میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئر مین اور ایم کیو ایم کے کنوینر نے تو خیر راستے روکنے اور بینر ز پھاڑے جانے کی شکایت پر ہی اکتفا کیا مگر پنجاب ہی سابق وزیر اعلیٰ جو اب ن لیگ کے سربراہ بھی ہیں نے تو کھلے الفاظ میں کہہ دیا کہ ا نہیں شک ہے کہ انتخابات صاف شفاف ہوں۔ اگرالیکشن کمیشن نے روش نہیں بدلی تو ہمیں نتائج قبول نہیں ہوںگے۔ اس قسم کی شکایت تو پہلے بھی سننے میں آتی رہی ہیں لیکن اب اُن میں شدت آگئی ۔کچھ لوگوں کا تو کہنا ہے کہ ن لیگ کو چونکہ اپنی شکست نظر آرہی ہے، اس لئے یہ آہ وبکا ہورہی ہے تاکہ پہلے سے احتجاج کےلئے زمین ہموار کی جاسکے۔ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے یاددہانی کرائی کہ ان کے پےش رو بابر یعقوب نے آج سے ایک مہینہ پہلے ہی حکومت پر واضح کردیا تھا کہ ملک دشمن عناصر الیکشن کو سبوتاژ کرنے اور ملک میں انتشار پھیلانے کے منصوبے تیار کئے بیٹھے ہیں۔ بہت جلد بم دھماکے ہوں گے تاکہ لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوسکے، کنور دلشاد نے کفِ افسوس ملتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیر داخلہ نے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ۔ آج وہی کچھ دیکھ رہے ہیں جس کی نشاندہی بہت پہلے کردی گئی تھی۔تجزیہ نگار اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ خیبر پختون خوا اور بلوچستان دونوں ہی صوبہ افغانستان کی سرحدوں سے ملتے ہیں ۔اندیشہ یہی ہے کہ افغانستان کا بہت بڑا علاقہ طالبان، القاعدہ اور داعش کے کنٹرول میں ہے۔11 ہزار امریکی فوجی جس میں مزید اضافہ ہونے والا ہے اور برطانیہ سے بھی ایک ہزار فوجی افغانستان بھی جانے والے ہیں تب بھی افغانستان میںدہشت گرد گروپ کی سازشوں میں کمی نہیں آئے گی۔ پاکستانی ان کے لیے آسان نشانہہیں۔ حفاظتی اقدامات اور خاردار تاروں کے ذریعے سرحد سیل کرنے کے باوجود ، افغانستان سے لوگ پہاڑوں کے پیچیدہ راستوں سے پاکستان میں باآسانی داخل ہوکر یہاں قتل غارت گری میں ملوث ہوکر اپنی اہمیت جتانے میں کامیاب ہوجائے ۔اسلحہ یا پیسے کے کمی اُن کے پاس نہیں ۔ہند اور کئی دوسرے ممالک ان کی مدد کے لئے ہر وقت بے چین رہتے ہیں تاکہ پاکستان کو امن نصیب نہ ہو۔ ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن اورحفاظتی اداروں پر جس میںفوج، پولیس اور رینجرز سب ہی شامل ہیں بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔الیکشن کمیشن تو اپنا کام بہترین طریقے سے کررہا ہے لیکن بد امنی کو زنجیر ڈالنی پڑے گی تاکہ 25جولائی کا دن پر امن طور سے گزرجائے اور ملک نئے راستے پر پھر سے چل پڑے ۔ 
 

شیئر: