Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شکر گزار بندہ

زبیر پٹیل ۔ جدہ
بچپن میں جب بھی تاجر حضرات سے پوچھا کہ کام کاج یا کاروبار کیسا چل رہا ہے تو جواب میں ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے جواب ملتا تھاکہ دھندہ کہاں ہے سب مندا ہے۔ بڑے ہوئے تو بھی یہی جواب سننے کو ملا اور اب بھی جس تاجر سے پوچھو تو اسکا پہلا جواب یہی ہوتا ہے”کاروباراب کہاں رہا، بس اخراجات نکال رہے ہیں“۔ حالانکہ یہی ریکارڈڈ جملہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں ۔ ان تاجروں نے جو کل تک مندے کی باتیں کرتے تھے آج اربوں کی پراپرٹی کے مالک بن چکے ہیں۔ ان کے بچے امریکہ اور یورپ میں پڑھتے ہیں اور انکے بیرون ملک بھی کاروبار ہیں مگر پھر بھی ان کے منہ سے یہ بات کہ: کاروبار مندا ہے بڑی مشکل سے اخراجات نکال رہے ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے۔
مملکت میں جب بھی ٹیکسی ڈرائیوروں سے بات کرو تو وہ بھی ہر وقت کاروبار نہ ہونے کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کبھی انہیں شکر گزار ہوتے ہوئے یا خوش یا الحمد للہ کہتے نہیں سنا ۔بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اپنے کام سے خوش نظر آتے ہیں۔اگر کاروبار کی مندی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا کاروبار میں خوشحالی پر اس رب کا آپ نے شکر ادا کیا؟
یہاں پر میرا سوال ان تاجروں سے یہ ہے کہ آخروہ کب اللہ کا شکر ادا کرنے والے بنیں گے۔کیا وہ ہمیشہ اسی طرح ناشکرہ پن کی انتہا تک جائیں گے؟اگر آپ کا کام اچھا چل رہا ہے تو اس پر شکر ادا کریں اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں کیونکہ وہی جملہ جو کل تک ہم کسی تاجر کے منہ سے سنتے تھے آج اسکا بیٹا دہرا رہا ہے۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم کس طرف جارہے ہیں؟ کیا ہم کبھی شکر گزار بنیں گے؟ ہمیں تو اللہ تعالیٰ کا دن رات شکر گزاری اور تعریف کے کلمات ادا کرتے ہوئے گزارنا چاہئے کیونکہ اسکے ہم پر اتنے احسانات ہیں کہ اسے گننے کیلئے برسوں کی زندگی بھی کم پڑ جائے ۔ ہم ناشکری کی باتیں کرکے کیا جتانا چاہتے ہیں۔ کہیںناشکری ہماری تباہی کی ایک وجہ تو نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر:

متعلقہ خبریں