Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

استقبال!

***محمد مبشر انوار***
جمہوریت کا حسن و ثمرات کلیتاً جمہور کے روئیے سے مشروط ہوتا ہے کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت کبھی بھی درست سمت نہیں چل سکتی۔ اگر جمہور ٹھیک نہ ہو اور جمہور کبھی بھی درست نہیں ہو سکتی جب تک اسے تعلیم برائے تعلیم نہ دی جائے ۔ایسی تعلیم جو جمہور کو شخصیت پرستی سے اٹھ کر سچ کو سچ ،جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ نہ دے،حقائق کی بنیاد پر ان کی سوچ کو جلا نہ بخشے،تہذیب کے آداب سے روشناس نہ کرائے،اختلاف رائے کو تسلیم کرنے کا شعور نہ دے،گالی یا سماجی دباؤ کی بجائے دلیل کی طرف راغب نہ کرے،کسی بھی قومی ایشو پر اختلاف رائے پر مہذب انداز اختیار کرنے کا سلیقہ نہ دے۔ایسی تعلیم کے بغیر وہی حال ہوتا ہے جو آج پاکستان میں ہو رہا ہے۔ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کرنے والے مختلف اوقات میں ایک ہی ادارے کے فیصلوں پر کبھی خوشیاں مناتے ہیں تو دوسرے لمحے اسی ادارے کے فیصلے کا تمسخر اڑاتے نظر آتے ہیں۔ بطور حزب اختلاف ایک ہی معاملے پر ان کا مؤقف مختلف جبکہ حزب اقتدار میں اسی معاملے پر ان کا مؤقف صد فیصد برعکس نظر آتا ہے۔ کل تک ذوالفقار علی بھٹو مشق ستم تھے اور انکی پھانسی کو جائز قرار دینے والے جب خود مشکل میں آئے تو آج اسی بھٹو کا حوالہ دے کر غریب عوام کو جذباتی مار،مارنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح مقتدرہ پر عوامی دباؤ ڈال کر کوئی رعایت حاصل کی جائے۔ 
کیسی خوش گمانی ہے، کہاں ذوالفقار علی بھٹواور شریف خاندان۔بھٹو کیخلاف سخت ترین ضیائی مارشل لاء کرپشن کا کوئی ثبوت حاصل کرنے میں ناکام رہا مگر بھر پور عوامی و عالمی دباؤ کے باوجود اسے تاریخ کی غلط ترین پھانسی دیدی گئی۔ یہ شریف خاندان ہی تو تھا جو کل تک مقتدرہ کے اشاروں پر بی بی اور زرداری کیخلاف جھوٹے مقدمات قائم کرتا رہا اور بعد ازاں ان پر معافیاں طلب کرتا رہا۔زرداری کے گزشتہ دور حکومت میں ’’مذاق جمہوریت‘‘ کے بر عکس قومی سلامتی و قومی سالمیت کے نام پر جرنیلوں کے اشاروں پر سپریم کورٹ میں پیش ہو کر ’’مذاق جمہوریت‘‘ کی دھجیاں بکھیرتا رہا۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اُسوقت جمہوریت کا تحفظ کہاں تھا یا جمہوری جدوجہد کہاں تھی ؟ شریف خاندان کی سیاست پر نظر رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ دائیں دکھا کر بائیں مارنا شریف خاندان کا شیوہ ہے جو بالخصوص چانکیائی سیاست کا طرہ امتیاز ہے۔ آج وہی مقتدرہ،جس کو کل تک زرداری کیخلاف آپکی خدمات حاصل تھی،آج دوسروں کے علاوہ آپکی پارٹی لیڈرو ں کی خدمات آپ کیخلاف حاصل ہیں۔ میاں صاحب! اگر اس کھیل کے یہی مروجہ اصول رہے ہیں تو آج آپ اس کیخلاف کیوں اٹھے ہیں؟ ذرا ٹھہرئیے ! کیا و اقعی آپ اس کیخلاف ہی اٹھے ہیں؟یقینانہیں میاں صاحب!آپ اس مرتبہ بھی اپنے چاہنے والوں کو ہمیشہ کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں۔آپکی ہمدردی قطعاً جمہوریت کے ساتھ نہیں ۔آپ تو کیاآپ کے ساتھی بھی جمہوریت کی روح سے نا آشنا ہیں،جو سوشل میڈیا پر تو آپکو اب اپنی ’’ضد ‘‘ گردانتے نہیں تھکتے مگر اختلاف رائے کرنیوالوں کا ناطقہ بند کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ 
میاں صاحب! آپ ، آپ کی لیگل ٹیم اور آپ کے ورکرز و سپورٹرز ،فیصلے کیخلاف ،مسلسل گمراہ کن پرو پیگنڈے میں مصروف ہیں کہ جج صاحب نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ آپ پر کرپشن ثابت نہیں ہوئی مگر چونکہ فیصلہ کہیں اور سے آیا ہے،اس لئے آپ کو سزا دی گئی ہے۔ یہ ہے وہ بیانیہ جس پر آپ نے عوام کو متحرک کرنے کا فیصلہ کیا ،یہ الگ بات کہ معزولی کے بعد اسلام آباد تا لاہور آپکی ریلی متاثر کن نہ رہی اور یکم جون کے بعد سے تو آپ کے جلسوں میں بالکل بھی رونق نہ رہی کیونکہ آپ کے ووٹرز خون دینے والوں میں سے نہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ آپ کے ووٹرز نہیں ہیں۔ میری ذاتی رائے میں نیب کے جج صاحب کا فیصلہ آپ کیلئے انتہائی منصفانہ ہے کہ شق9 (الف ) 4کرپشن کے حوالے سے واضح ثبوت (کسی شک و شبہ کے بغیر) طلب کرتی ہے ،جو یقینی طور پر کوئی رسید دیکر وصول نہیں کرتا اور ایسی کرپشن کے ثبوت مہیا کرنا کاروارد ہے ،جبکہ شق9(الف)5کے مطابق آپ کو اپنے اثاثوں کے متعلق ثبوت مہیا کرنے تھے کہ آپ نے کن ذرائع آمدن سے وہ اثاثے خریدے۔ آپ اور آپکی اولاد فخریہ اعتراف کرتے رہے کہ یہ اثاثے الحمد للہ آپ کے ہیں اور مجاز عدالت کے سامنے آپ سارے ثبوت مہیا کر دیں گے مگر افسوس کہ مجاز عدلیہ کے سامنے آپ صرف ایک قطری خط پیش کر سکے جو کسی بھی طور اس کو ثابت کرنے کیلئے کافی نہ تھا لہذا آپ کو سمیت اپنی اولاد کے قصوروار ٹھہرایا گیا۔ یہاں ایک بات کا ذکر آپ اور آپ کے سپورٹرز کیلئے انتہائی بر محل ہوگا جو اکثر اٹھتے بیٹھتے ۔آپ کی مدح سرائی میں یا آپ کی صفت کے طور پر بیان کرتے رہتے ہیںاور یہی فقرہ میڈیا کے انتہائی ممتاز اور نامور حضرات (حامی و مخالف)تواتر کے ساتھ دہراتے نظر آتے ہیں کہ کیا ہوا’’اگر کھاتا ہے تو لگاتابھی تو ہے‘‘۔ کیا یہ فقرہ اس امر کا اظہار نہیں کہ آپ کرپشن میں ملوث رہے ہیںبصورت دیگر آپ نے کیا کھایا اور کہاں سے کھایا ہے؟اس کی وضاحت کوئی دے سکتا ہے ؟ حقیقتاً یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے جو ٹیکس کی صورت قومی خزانے میں جاتی ہے اور آپ اپنی ’’تجربہ کار‘‘ ٹیم سمیت اسے اللوں تللوں میں اڑاتے رہے ہیں،اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں۔
اپنی کرپشن کو چھپانے کی خاطر آج آپ اس کو جمہوری جدوجہد کا نام دے رہے ہیں،جسے میں تسلیم کرنے سے قاصر ہوں،بخدا میں پہلا شخص ہوں گا جو جمہوریت کی بقا کیلئے نکلے گا لیکن اس وقت جب مجھے یہ یقین واثق ہو کہ حقیقتاً و واقعتا کوئی رہنما جمہوریت کی بقا کے لئے نکلا ہے۔ میاں صاحب! میں کرپشن کو ایک لحظہ کیلئے بھول بھی جاؤں تو ہندوستانی وزراء کے آن ریکارڈ ان بیانات کو کیسے بھول جاؤں کہ ہندوستان نے آپ پر سرمایہ کاری کر رکھی ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس کیسے بھول جاؤں کہ غیر ملکی ایجنسیاں پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور اس صورتحال میں کیا پاکستانی ایجنسیاں ہاتھ پرہاتھ دھرے انہیںاپنے مقاصد کیلئے کھل کھیلنے دیں؟دہشتگردی کی حالیہ کارروائیوں کو کس کھاتے میں ڈالوں جس کا براہ راست فائدہ ملک دشمن عناصر کو پہنچے گا؟ان تمام حقائق کو جانتے بوجھتے بھی میں علی الاعلان کہتاہوں کہ ایجنسیوں کو کسی صورت ملکی سیاست میں اثر انداز ہونے کی ضرورت نہیں اگر سیاسی اشرافیہ اپنی ساکھ بہتر کرے،بصورت دیگر ایجنسیوں کی مداخلت کو کمزور بلکہ بد ترین ساکھ کی بنیاد پر نہیں روکا جا سکتا۔ جمہوریت اسی صورت میں درست ہو سکتی ہے جب جمہور ٹھیک ہوں گے اور جمہور اسی وقت ٹھیک ہوں گے جب انہیں ایسی تعلیم میسر ہو جو ان کی سوچ کو جلا بخشے،انہیں سچ کو سچ کہنے کی قوت دے،شخصیت پرستی سے اٹھ کر قومی مفادات کا ادراک دے اس کے بغیر سب باتیں بیکار اور جمہور کی حالت شاہ دولے والوں سے قطعاً زیادہ نہیں۔ اگر آپ واقعتا جمہوریت بچانے کیلئے وطن واپس آئے ہوتے تو یقینا میں بھی اس قافلے کا حصہ ہوتا جو آپ کے استقبال کیلئے نکلتا مگر میرا شعور،میری سوچ ایک سزا یافتہ ،چانکیائی سیاست کے علمبردار ،جمہوریت کے نام پر ذاتی رعایت حاصل کرنے والے کے استقبال کی اجازت نہیں دیتا۔
 

شیئر: