Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اہل خانہ کے ساتھ جنت میں …

 دنیا میں’’مزے‘‘ سے کھانے پینے کا جو مفہوم ہے، جنت میں ’’مزے‘‘سے کھانے پینے کا مفہوم اس سے بدرجہا زیادہ وسیع اور اعلیٰ و ارفع ہے
 **  *سعادت محمود* *

 

 ہمارے رب نے اپنے کلام پاک میں بہت سے مناظر کا نقشہ کھینچا ہے۔اْن میں سے ایک دلکش اور خوب صورت منظر، اہل خانہ کے ساتھ جنت میں داخلے کا ہے۔کیا میں نے اور آپ نے کبھی   اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ، جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لطف اندوز ہو نے کے اس خوب صورت منظر کا تصور کر نے کی کوشش کی ہے!
    اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتا ہے:
     ’’(عقل رکھنے والے لوگ) اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اْسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے، اْن کی روش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ان سے بْری طرح حساب نہ لیا جائے،  اْن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کیلئے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے علانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور بْرائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں، آخرت کا گھر انہی لوگوں کیلئے ہے ، (اْن کیلئے) دائمی (ہمیشہ ہمیشہ کیلئے) رہائش کے باغات ہوں گے، وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور اْن کے آباؤ اجداد اور اْن کی بیویوں اور اْن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہوں گے وہ بھی اْن کے ساتھ وہاں جائیں گے،  ملائکہ ہر طرف سے اْن کے استقبال کیلئے آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ: تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر (دین پر استقامت)سے کام لیا اس کی بدولت آج تم اس (جنت)کے مستحق ہوئے ہو،پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! ‘‘ (الرعد24-20)۔
    درجِ بالا آیت کی روشنی میں تصور کریں کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں ہمارے نیک اعمال کی وجہ سے یہ اعزاز بخشے کہ ہمیں اور ہمارے تمام اہلِ خانہ کو جنت کے اعلیٰ درجات تک پہنچا دے۔
    ہم سوچیں کہ کیاہم نے کبھی   اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرتوں سے ہمیشہ کیلئے لْطف اندوز ہو نے کے اس مقام کو پانے کی تمناکی ہے!
    یہ وہ مقام ہے جس کیلئے فرشتے بھی ہمارے لئے دْعا کرتے ہیں۔
      ارشاد باری تعالیٰ ہے:
     ’’عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور وہ جو عرش کے گرد و پیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں،  وہ اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دْعاے مغفرت کرتے ہیں،  وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب! تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے، پس معاف کر دے اور عذابِ دوزخ سے بچا لے اْن لوگوں کو جنھوں نے توبہ کی ہے اور تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے،  اے ہمارے رب! اور داخل کر  اْن کو ہمیشہ رہنے والی اْن جنتوں میں جن کا تو نے اْن سے وعدہ کیا ہے ، اور اْن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں (اْن کو بھی وہاں اْن کے ساتھ پہنچا دے)  تُو بلاشبہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے،  بچا دے اْن کو بْرائیوں سے جس کو تو نے قیامت کے دن بْرائیوں سے بچا دیا، اْس پر تُونے بڑا رحم کیا،یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘(ا لمؤمن9-7 )۔
    اس آیت کی تشریح میں صاحبِ تفہیم القرآن سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے لکھتے ہیں: ’’یہ بات نبی کے ساتھیوں (اور قیامت تک حضو ر  اور ان کے صحابہ کرامؓ کے نقشِ قدم پر چلنے والوں)کی تسلی کیلئے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اس وقت کفارِ مکہ کی زبان درازیوں اور چیرہ دستیوں اور ان کے مقابلے میں اپنی بے بسی دیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو، تمہارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور عرش کے گردوپیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمہارے حامی ہیں اور تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجاے عرشِ الٰہی کے حامل اور اس کے گردو پیش حاضر رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کیلئے کیا گیا ہے کہ سلطنتِ ربانی کے عام اہلکار تو درکنار، وہ ملائکہ مقربین بھی جو اس سلطنت کے ستون ہیں اور جنھیں فرماں رواے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے ،تمہارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔‘‘ (تفہیم القرآن )۔
    درجِ بالا دونوں آیات میں اہلِ ایما ن کے والدین، بیویوں اور اولاد میں سے اْن کیلئے جنت کا وعدہ اور  فرشتوں کی دْعا کا ذکر ہے  جو ان میں سے صالح ہوں،  لیکن سورہ الطور میں مزید رعایت دی گئی ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اگر اْن کی اولاد کسی نہ کسی درجۂ ایمان میں بھی اپنے آباء کے نقشِ قدم کی پیروی کرتی رہی ہو، تو اپنے عمل کے لحاظ سے خواہ وہ اْس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو ان کے آبا ء کو ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آبا ء کے ساتھ ملا دی جائیگی۔یقینایہ اہلِ ایمان کیلئے ایک بہت بڑا اعزا زہے۔
    ارشادِ رب کریم ہے:
    ’’ متقی لوگ وہاں باغوں اور نعمتوں میں ہوں گے، لْطف لے رہے ہوں گے جو اْن کا رب اْنھیں دے گا، اور اْن کا رب اْنھیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا ، (اْن سے کہا جائے گا)کھاؤ اور پیو مزے سے اپنے اْن اعمال کے صلے میں جو تم کرتے رہے ہو، وہ آمنے سامنے بچھے ہوئے تختوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے اور ہم خوب صورت آنکھوں والی حوریں اْن سے بیاہ دیں گے،جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اْن کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں اْن کے نقشِ قدم پر چلی ہے اْن کی اْس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اْن کے ساتھ ملا دیں گے اور اْن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے، ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے، ہم اْن کو ہر طرح کے پھل اور گوشت، جس چیز کو بھی ان کا جی چاہے گا، خوب دیے چلے جائیں گے،وہ ایک دوسرے سے جامِ شراب لپک لپک کر لے رہے ہوں گے جس میں نہ یاوہ گوئی ہوگی نہ بد کرداری اور اْن کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو اْنھی (کی خدمت) کیلئے مخصوص ہوں گے، ایسے خوب صورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی،یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے (دنیا میں گزرے ہوئے) حالات پوچھیں گے، یہ کہیں گے کہ ہم پہلے اپنے گھر والوں میں (اللہ سے)ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے تھے، آخر کار اللہ نے ہم پر فضل فرمایا اور ہمیں جْھلسا دینے والی ہوا کے عذاب سے بچا لیا،ہم پچھلی زندگی میں اْسی سے دعائیں مانگتے تھے، وہ واقعی بڑا ہی مْحسن اور رحیم ہے‘‘۔(الطور 28-17)۔
    کیاہم نے کبھی ،اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ جنت میں، وہاں کی حقیقی مسرتوں سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے لْطف اندوز ہو نے کایہ مقام حاصل کرنے کی کوشش اور اس کیلئے کوئی منصوبہ بندی کی ہے؟
    سورہ مذکور کی آیت17  میں جنت میں داخلے کے ساتھ دوزخ کے عذاب سے بچائے جانے کا ذکر ہے۔ اس کی تشریح میں صاحب تفہیم القرآن سیّد ابوالاعلیٰ مودودی نے لکھا ہے:
    ’’کسی شخص کے داخلِ جنت ہونے کا ذکر کر دینے کے بعد پھر دوزخ سے اس کے بچائے جانے کا ذکر کرنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی مگر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ دونوں باتیں الگ الگ اس لئے بیان کی گئی ہیں کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا بجاے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے  اور یہ ارشاد کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ان کو عذابِ دوزخ سے بچا لیا‘‘در اصل اشارہ ہے اِس حقیقت کی طرف کہ آدمی کا دوزخ سے بچ جانا اللہ تعالیٰ  کے فضل و کرم ہی سے ممکن ہے، ورنہ بشری کمزوریاں ہر شخص کے عمل میں ایسی ایسی خامیاں پیدا کر دیتی ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ  اپنی فیاضی سے اْن کو نظر انداز نہ فرمائے  اور سخت محاسبے پر اْتر آئے تو کوئی بھی گرفت سے نہیں چھوٹ سکتا  اسی لئے جنت میں داخل ہونا اللہ تعالیٰ  کی جتنی بڑی نعمت ہے اْس سے کچھ کم نعمت یہ نہیں   کہ آدمی دوزخ سے بچا لیا جائے۔‘‘ (تفہیم القرآن )۔
    آیت19میں فرمایا’’کھاؤ اور پیو مزے سے‘‘ اس ’’مزے‘‘کی تشریح بھی صاحبِ تفہیم القرآن نے   یوں کی ہے:
    ’’یہاں’’مزے سے‘‘کا لفظ اپنے اندر بڑا وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ جنت میں انسان کو جو کچھ ملے گا کسی مشقت اور محنت کے بغیر ملے گا۔ اْس کے ختم ہوجانے یا اْس کے اندر کمی واقع ہو جانے کا کوئی اندیشہ نہ ہو گا۔ اْس کیلئے انسان کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ عین اْس کی خواہش اور اس کے دل کی پسند کے مطابق ہو گا۔ جتنا چاہے گا اور جب چاہے گا حاضر کر دیا جائے گا۔ مہمان کے طور پر وہ وہاں مقیم نہ ہو گا کہ کچھ طلب کرتے ہوئے شرمائے بلکہ سب کچھ اْس کے اپنے گزشتہ اعمال کا صلہ اور اْس کی اپنی پچھلی کمائی کا ثمر ہو گا۔ اْس کے کھانے اور پینے سے کسی مرض کا خطرہ بھی نہ ہو گا۔ وہ بھوک مٹانے اور زندہ رہنے کیلئے نہیں بلکہ صرف لذّت حاصل کرنے کیلئے ہوگا  اور آدمی جتنی لذّت بھی اْس سے اْٹھانا چاہے، اْٹھا سکے گا بغیر اس کے کہ اس سے کوئی سوئے ہضم لاحق ہو اور وہ غذا کسی قسم کی غلاظت پیدا کرنے والی بھی نہ ہوگی  اس لئے دنیا میں’’مزے‘‘ سے کھانے پینے کا جو مفہوم ہے، جنت میں ’’مزے‘‘سے کھانے پینے کا مفہوم اس سے بدرجہا زیادہ وسیع اور اعلیٰ و ارفع ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن )۔
    آئیے !ہم اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ خانہ کو دوزخ کے عذاب سے بچا کر انھیں جنت کے اعلیٰ مقام تک لے جانے کیلئے کمر بستہ ہوجائیں  اور اْس کیلئے کوشش اور جدو جہد شروع کر دیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -عبادات میں افراط و تفریط ، انتہا پسند ی

شیئر: