Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قدرت اللہ ہاشمی ، ایم اے ، پی ٹی ایس ڈی

***وسعت اللہ خان ***
مرتا وہ نہیں جو مرجاتا ہے ۔مرتا  وہ ہے جو  مرنے والے کے بعد  بھی زندہ رہتا ہے۔
یہ بات مجھے بھی رفتہ رفتہ سمجھ میں آئی تھی۔بس آپ کو تصور کرنا پڑا گا ایک بم دھماکے کا ، اندھا دھند فائرنگ کے ایک واقعہ کا اور پھر ان کا جو زخمی ہوگئے اور ان زخموں کے ساتھ  ایسے گردونواح میں زندہ ہیں کہ جس میں نفسا نفسی اور لپاڈکی کا خمیر ملا دیا گیا ہو۔جگہ کی قید نہیں۔آرمی پبلک ا سکول پشاور نام رکھ لیں یا چار سدہ یونیورسٹی یا اقبال پارک لاہور یا سول اسپتال کوئٹہ یا مردان کی کچہری کچھ بھی۔نام میں کیا رکھا ہے۔
  ایک برطانوی فلاحی ادارے’’ ایکشن آن آرمڈ وائلنس‘‘ نے دہشت گردی سے  جسمانی طور پر متاثر ہونے والوں کی زندگیوں کا مطالعہ کیا ہے۔ اس مطالعے میں پاکستانی متاثرین کی سمپلنگ کی گئی ہے اور بطور خاص ایسوں کی جو آئی ای ڈی ( امپروائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس ) کا نشانہ بنے۔ آئی ای ڈیز ایسی اشیا کی شکل میں بنائے جاتے ہیں جنہیں دیکھ کے بظاہر شبہہ نہیں ہوتا کہ یہ بھی جان لیوا ہوسکتے ہیں۔
برطانوی فلاحی ادارے نے اپنی تحقیق کا موضوع آئی ای ڈیز کو اس لئے بنایا  کہ اس وقت دنیا میں جتنے بھی لوگ دھماکہ خیز مواد سے زخمی ہوتے ہیں ان میں سے دو تہائی آئی ای ڈیز کا نشانہ بنتے ہیں۔اور نشانہ بننے والوں میں 90 فیصد عام شہری ہوتے ہیں۔اس وقت 4ممالک کے شہری آئی ای ڈیز سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔یعنی شام ،  عراق ،  پاکستان اور افغانستان۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں پچھلے12برس کے دوران  ایک لاکھ سے زائد افراد ان آئی ای ڈیز کی زد میں آکر معمولی سے لے کے شدید زخموں تک کا شکار ہو چکے ہیں۔( ان میں مرنے والے شامل نہیں  )۔زخمیوں کی اس تعداد میں وہ لوگ بھی شامل نہیں جو بارودی سرنگوں کا شکار ہوئے۔
جو لوگ کسی بندوق کی گولی سے زخمی ہوتے ہیں ان کا علاج نسبتاً آسان ہے کیونکہ جسم پر گولیوں کے زخم عموماً  الگ الگ لگتے ہیں  لیکن خودکش بم یا آئی ای ڈیز سے لگنے والے زخم اور ان کے جسمانی و نفسیاتی اثرات خاصے پیچیدہ ہوتے ہیں۔لہذا ان کے علاج کے لئے خصوصی تربیت یافتہ طبی عملہ اور سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔لیکن جن ممالک میں یہ سہولتیں موجود ہیں وہ ایسے حملوں کا بہت کم شکار ہوتے ہیں اور جن ممالک میں بنیادی طبی سہولتوں کے لالے ہیں سب سے زیادہ متاثرین بھی وہیں ہیں۔
چنانچہ اب ہو یہ رہا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک جہاں صحت کی سہولتوں پر ویسے ہی اونٹ کے منہ میں ریزے کے برابر رقم خرچ ہوتی ہے  سرکاری اسپتالوں پر ہر وقت دھشت گردی کے ہاتھوں زخمی ہونے والے کا بے پناہ دباؤ رہتا ہے اور ان علاج گاہوں کو جو تھوڑا بہت بجٹ ملتا ہے وہ ان زخمیوں کی دیکھ بھال میں صرف ہوجاتا ہے۔ان حالات میں باقی بیماروں کو بستر ملنے محال ہوجاتے ہیں۔تنگ آ کے وہ نجی اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں اور اپنی بیماری کے ساتھ ساتھ صحت مند مسیحاؤں کے ہاتھوں بھی لٹ لٹا جاتے ہیں اور گھوم پھر کر دوبارہ گھر کے بستر پر اللہ کے آسرے کی لاٹھی ٹیکتے ٹیکتے واپس پڑ جاتے ہیں۔ 
مرنے والے کے ورثا کو ایک سہولت یہ ہوتی ہے کہ وہ رونے پیٹنے کے بعد خود کو زندہ رکھنے کی معاشی تگ و دو میں لگ جاتے ہیں لیکن جس گھر میں کوئی واحد کفیل کسی بھی دن محنت مزدوری پر جاتے ہوئے اچانک کسی بم یا آئی ای ڈی کا شکار ہو کر ناکارہ ہوجائے اس کے گھر والوں پر دہری مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے۔انہیں لازماً کوئی ایسا کام ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ اپنا پیٹ بھی بھریں اور بستر پر پڑے زخمی کماؤ پوت کا بھی علاج کروائیں۔چنانچہ بچوں کی تعلیم اور دیگر ضروریات فوراً پسِ پشت چلی جاتی ہیں۔کیونکہ پاکستان جیسے ملکوں میں کوئی یونیورسل ہیلتھ انشورنس تو ہے نہیں۔سارا نظام ’’جو جتنا افورڈ کرسکے’’  کی بنیاد پر رواں ہے۔گویا زندہ بھی اپنے خرچے پے رہو اور مرو بھی اپنے خرچے پے۔
یونیورسل ہیلتھ انشورنس نظام نہ ہونے کے سبب زخمیوں کے ورثا اکثر مخیر حضرات کی راہ دیکھتے ہیں۔کسی کو کوئی خدا ترس مل جاتا ہے بہت سوں کو نہیں ملتا اور پھر وہ کوئی قرضہ دینے والا ڈھونڈتے ہیں۔ہاں واقعے کے فوراً بعد زخمیوں اور ان کے اہلِ خانہ کو شہرت البتہ مل جاتی ہے۔ٹی وی رپورٹروں اور کیمروں کا چند گھنٹے کے لئے تانتا بندھ جاتا ہے۔سماجی کارکن اور سیاستداں عیادت کے لئے آتے ہیں۔گلدستہ زخمی کے سینے پے رکھ دیا جاتا ہے تاکہ فوٹو میں تھوڑا رنگ آجائے۔جذباتی حکومتیں فی زخمی ایک سے دس لاکھ روپے تک کی مالی امداد کا اعلان بھی کرتی ہیں۔کوئی جوشیلا مقتتدر سیاستداں مرنے یا زخمی ہونے والے کے بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھانے کا اعلان بھی کر ڈالتا ہے۔لیکن اگلا ہی دن ’’ تو کون میں کون ’’  کی سفاکی کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔حقیقت کا تپتا سورج متاثر اور اس کے اہلِ خانہ کو جھلسانا شروع کردیتا ہے۔
ابھی تو میں نے ان کا تذکرہ نہیں کیا جنہیں بظاہر کوئی جسمانی زخم نہیں ۔بس وہ اندر سے چھلنی ہو کر شدید ڈیپریشن کے آکٹوپس کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں اور یہ آکٹوپس ان روحانی زخمیوں کو  آہستہ آہستہ سینت سینت کے چباتا ہے۔
حکومتوں کو یہ تو یاد رھ جائے گا کہ پاکستان نے دھشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک107 ارب ڈالر کا نقصان اٹھایا ہے۔ 60 ہزار جانیں گئی ہیں۔مگر یہ کون یاد رکھے یا رکھوائے گا  کہ18 کروڑ میں سے 9کروڑ افراد کو ان حالات نے پوسٹ ٹرومیٹک  اسٹریس ڈس آرڈر ( پی ٹی ایس ڈی ) کے کنوئیں میں دھکا دے دیا ہے۔یوں سمجھئے کہ پی ٹی ایس ڈی زہنی عدم توازن کی بھول بھلئیاں میں داخلے کا صدر دروازہ ہے۔پر سننے میں کانوں کو بہت بھلا لگتا ہے جیسے پی ٹی ایس ڈی کوئی اعلی تعلیمی ڈگری ہو۔مثلاً قدرت اللہ ہاشمی ایم اے ، پی ٹی ایس ڈی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شیئر: