Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جی ڈی اے پیپلز پارٹی کےلئے خطرہ بنے گا؟

***صلاح الدین حیدر۔ کراچی***
 سیاست وارثت میں ہی نہیں ملی، خون میںرچ بس گئی ہے،جس نے نانا کے اوصاف کا سبق پڑھا ہو، ماںکی گود میں تربیت پائی، اور آکسفورڈ جیسے مایہ ناز ادارے سے تعلیم  حاصل کی ہو ، اس کی دور اندیشی اور ناگہانی منزل کے بارے میں پوچھنا ہی کیا ’’ سجا سجایا ، ہنس مکھ اور خو ش گفتار بلاول بھٹو آج اپنے اسلاف کے کارناموں کو مزید بڑھاوا دینے میں مصروف عمل ہے۔ ایک جہد مسلسل مصروف عمل ہے، ایک جہد مسلسل ، تھکان کا احساس دور دور تک نہیں، بس ایک لگن کہ ملک کے استحصال کے ہاتھوں لوٹے ہوئے ، پسماندگی کے مارے ہوئے ، مگر غریب لوگوں کا سہارا کیسے بنا جائے، کس طرح ان کی مشکلات حل کی جائیں۔کیسے اُنہیں معاشرے میں عزت و احترام کامقام دلایا جائے، یہی ہے منزل راستہ خطرناک ہے۔ ایک آگ کا دریا ہے اور پھر ڈوب کر جانا ہے۔کچھ لوگوں کی نظروں میں یہ نوجوان ابھی سیاست کے داؤ پیچ کو سمجھنے سے قاصر ہے، لیکن صحیح اندازہ اسی وقت لگایا جاسکتاہے۔جب اس کے قدموں کو گنا جائے۔ اس کے ارادوں کی مضبوطی کوصحیح پیمانے میں تولا جائے، تو پھر نظر خود بخود علامہ اقبال کے اُس شعر پر چلی جاتی ہے،جہاںانہوںنے کہا کہ 
نگاہ ِ بلند ، شکنِ دل نواز، جان پرسوز
یہی ہے رخت ِ سفر میر کارواں کے لیے
اقبال کا کہا اس خوبرو نوجوان پر پوری طرح صادق آتاہے، ہمت اور عزم سے بھرپور بلاول نہ راستوں کی رکاوٹوں کو دیکھتاہے نہ منزل کی دوری کو، ایک لگن ہے کہ نانا اور ماں کے مشن کو پورا کرے،اور بس اسی میں محو ، آج کل سیاسی پارٹیوں کی طرف سے سیکڑوں کی تعداد میں اشتہارات، اخبارات پر چھائے ہوئے ہیں،ان میں بھی یہی جملہ نشانِ راہ ہے کہ بے نظیر کے وعدے کو نبھانا ہے۔پاکستان بچانا ہے،ننھیال کا سبق تو اس کی روح جان میں گھل گیا ہے، لیکن ددھیال کا مسئلہ بہت بڑا ہے۔ شکر ہے کہ بلاول نے والد اور پھوپھی کے طرز زندگی کو نہیں اپنایا، بھٹو کرپشن کی اصطلاح ہی سے نا واقف تھا،لوگ بتاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو جو 29سال کی عمر میں ملک کے وزیر پیڑولیم بنے، اور اسی حیثیت میں پاکستان کو صحیح راستے پر ڈالا، سابقہ سوویت یونین جو اب رشیا فیڈریشن کے نام سے جانا پہچانا جاتاہے، سے معاہدہ کر کے آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کارپوریشن بنائی تاکہ ملک کو پیٹرولیم جیسی دولت سے مالا مال کیا جاسکے۔ Odgcنے بہت کام کیا، ملک میں توانائی کی کمی محسوس نہیں ہونے دی، پھر وزیر خارجہ رہے، ہاورڈ اور بارکلے ، جیسی یونیورسٹیوں سے فارغ تحصیل یہ شخص جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا اور جسے دیوانگی کی حد تک، صبح کے 4بجے تک کام کرنے کی لگن تھی، پر کئی الزامات تو لگے، لیکن کرپشن کا الزام کبھی نہیں،ہمیشہ جان چھوٹتی رہی ۔کہتے ہیں کہ بھٹو کو وزیر خارجہ ، صدر مملکت یا وزیر اعظم جیسے بلند و بالا تر منصبوں پر رہتے ہوئے جو دنیا کے قائدین سے تحفے تحائف ملتے تھے وہ بذات خود رکھنے کے وزیر خارجہ کے توش خانے میں جا کر دیا کرتے تھے اور سند کی خاطررسید بھی طلب نہیں کرتے تھے۔بے نظیر بھی آکسفورڈ اور ہارورڈ سے پڑھی ہوئی تھیں۔انہوں نے بھی باپ سے ہی سبق سیکھا تھا۔کام میں لگن ، بے لوث خدمت، ان کی رگوںمیں بھی خون بن کر دوڑ رہاتھا، لیکن اب اس کا کیا کیا جائے کہ شوہر نامدار آصف زرداری جن کے متعلق جوبھی کہا جائے کم ہے،اسے راستے پر لگادیا۔ جو اللہ اور اس کے بندوں کے نزدیک سہی نہیں سمجھا جاتا۔ تمام تر غیر مناسب حالات کے باجود بے نظیر پھر بھی خود کوبڑی حد تک بچانے میں کامیاب رہیں ، لیکن پھر بھی دھبے تو لگ ہی گئے۔
بلاول ان تمام باتوں سے با خبر ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں سے بہت دور رہتے ہیں جن سے انہیں شرمندگی اٹھانی پڑے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا دامن داغدار نہ ہونے پائے، لیکن باپ کا ساتھ اس کی راہ میں اس وقت تک رکاوٹ ہے۔ جب تک وہ اس سے جان نہیں چھڑا لیتا، یہ اتنا آسان نہیں ہے، لیکن بلاول ایک عزم لیے قوم کی خدمت کرنے کو زندگی کا محاصل سمجھتا ہے۔ اس نے سندھ حکومت کو صحیح کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کیا، پھوپھی سے ناراضی بھی کچھ عرصے کے لیے مول لی، مگر اب اللہ کا شکر ہے کہ اس کے دامن پہ ایک بھی دھبہ نہیں،شاید بلاول کو علم ہے کہ پیپلز پارٹی کے5 سالہ دور  حکومت میں باپ کی نالائقی کی وجہ سے پارٹی کے5 سالہ دورِ میں حکومت صوبے میں بھی اتنی زک پہنچائی، اور 2008میں ماں کی شہادت پر اسے ہمدردی کا ووٹ تو پڑ گئے، لیکن5 سال بعد آصف زرداری اور فریال تالپور کی دولت کی ہوس نے اسے منزل سے بہت دور کردیا۔ بہن بھائی کو نیب کی طرف سے نوٹس جاری ہو چکے ہیں، ان کی درخواست پر نیب عدالت نے الیکشن کے بعد انہیں دوبارہ طلب کیا ہے،اب تو یہ روچل پڑی ہے،رکنے کا نام ہی نہیں لے گی، آصف زرداری، اور فریال تالپور کا یوم حساب قریب ہے، لیکن اس کی سزا بلاول کو نہیں دی جاسکتی۔
ہاں اتنا ضرور ہے کہ اُسے یہ احساس ہے کہ 25جولائی کو پی پی پی انتخابات میں حکومت بنانے میں پیچھے رہ جائے گی، اسی لیے اس نے اپنے لیے نئی منزل راہ تلاش کرلی ہے۔ حال ہی کی ایک پریس کانفرنس میں بلاول نے صاف طور پر کہہ دیا کہ اقتدار نہیں قومی خدمت میری منزل ہے۔ ایسا ہی نعرہ پیپلز پارٹی کے پرانے پارلیمانی لیڈر خورشید شاہ کی طرف سے بھی سننے میں آیا کہ اقتدار نا سہی ،لوگوں کی خدمت تو کرڈالیں۔بلاول نے اس بات کو ہنستے ہوئے رد کردیا کہ کٹھ  پتلی پارٹیاں یا ان کے اتحاد سے وہ یا پیپلز پارٹی کبھی نہیںگھبرائے گی۔ آج بھی ان کٹھ پتلی پارٹیاں یا اتحاد  ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ان کا اشارہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی طرف تھا، جس کی سربرا ہی  پیر پگارا کے صاحبزادے کررہے ہیں اور جس میں قوم پرست رہنما، عوامی پارٹی کے ایاز لطیف پلیجو ، اور سندھ ترقی پسند کے رہنماڈاکٹر قادر مگسی، پیپلز پارٹی کے خلاف صف آرا ہیں، لیکن کیا وہ پی پی پی کو گرا پائیں گے، پولنگ ختم ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا۔
بلاول کا یہ کہنا کہ ہم صاف ستھری سیاست  پر یقین رکھتے ہیں، گالم گلوچ کی سیاست ملک کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ پی پی نے قوم کو ایک نشان ِ منزل دیا ہے۔ہوسکتاہے چند سالوں بعد بلاول پیپلز پارٹی میں ایک نئی روح ڈالنے میں کامیاب ہوجائیں۔انہوںنے کراچی سے لے کر خیبر پختون خواتک روڈ کا سفر کرکے ایک نئی مثال قائم کی ہے، دیکھیں کارواں کیا رنگ کھلاتا ہے۔
 

شیئر: