Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابقہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ، حج بیت اللہ

حج میں خرچ کرنا جہاد میں خرچ کرنے کی طرح ہے، حج میں خرچ کرنے کاثواب700 گنا تک بڑھایا جاتا ہے
 
 **  *ڈاکٹرمحمد نجیب قاسمی سنبھلی۔ ریاض* * *
  ’’اشہر حج ‘یعنی حج کے ایام شروع ہوچکے ہیں۔دنیا کے کونے کونے سے ہزاروں عازمین حج ‘ حج کا ترانہ یعنی لبیک پڑھتے ہوئے مکہ مکرمہ پہنچ چکے ہیں، کچھ راستے میں ہیں اور کچھ  پہنچنے کیلئے تیار ہیں۔ جلدہی لاکھوں کا مجمع اسلام کے پانچویں اہم رکن کی ادائیگی کیلئے دنیاوی ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکر اللہ جل شانہ کے ساتھ والہانہ محبت میں مشاعر مقدسہ یعنی منیٰ، عرفات اور مزدلفہ پہنچ جائے گا، اور وہاں حضور اکرم  کے بتائے ہوئے طریقہ پر حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑے گا۔ حج کو اسی لئے عاشقانہ عبادت کہتے ہیں کیونکہ حاجی کے ہر عمل سے وارفتگی اور دیوانگی ٹپکتی ہے۔ حج اس لحاظ سے بڑی نمایاں عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، مالی اور بدنی تینوں پہلوؤں پر مشتمل ہے۔یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ۔ اس اہم عبادت کے بے شمار فضائل احادیثِ نبویہؐ  میں مذکور ہیں۔ چند  نبوی احادیث حسب ذیل ہیں:
    حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم  سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ آپ  نے فرمایا: 
    ’’اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا۔  ‘‘
    پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کونسا عمل؟ آپ  نے فرمایا: 
    ’’اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔  ‘‘
    پھر عرض کیا گیا کہ اس کے بعد کونسا عمل؟  آپ  نے فرمایا: 
    ’’حجِ مقبول۔‘‘  (بخاری ومسلم)۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:
    ’’فریضۂ حج ادا کرنے میں جلدی کرو کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ اسے کیا عذر پیش آجائے۔  ‘‘(مسند احمد)۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: 
    جو شخص حج کا ارادہ رکھتا ہے (یعنی جس پر حج فرض ہوگیا ہے)  اس کو جلدی کرنی چاہئے۔  ‘‘(ابوداؤد)۔
    حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:    ’’جس شخص کو کسی ضروری حاجت یا ظالم بادشاہ یا مرضِ شدید نے حج سے نہیں روکا  اور اس نے حج نہیں کیا اور مرگیا تو وہ چاہے یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر مرے۔‘‘   (یعنی یہ شخص یہود ونصاریٰ کے مشابہ ہے) (الدارمی)۔
    حضرت عمر فاروقؓ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ کچھ آدمیوں کو شہر بھیج کر تحقیق کراؤں کہ جن لوگوں کو حج کی طاقت ہے اور انھوں نے حج نہیں کیا ،تاکہ ان پر جزیہ مقرر کردیا جائے، ایسے لوگ مسلمان نہیں  ، ایسے لوگ مسلمان نہیں  (سعید نے اپنی سنن میں روایت کیا)۔
    حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے قدرت کے باوجود حج نہیں کیا، اس کے لئے برابر ہے کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر   (سعید نے اپنی سنن میں روایت کیا )  ۔غور فرمائیں کہ کس قدر سخت وعیدیں ہیں اُن لوگوں کیلئے جن پر حج فرض ہوگیا ہے لیکن دنیاوی اغراض یا سستی کی وجـہ سے بلاشرعی مجبوری کے حج ادا نہیں کرتے۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
    ’’جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کیلئے حج کیا اور اس دوران کوئی بیہودہ بات یا گناہ نہیں کیا تو وہ (پاک ہوکر)  ایسا لوٹتا ہے جیسا ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز (پاک تھا)۔‘‘  (بخاری ومسلم)۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا:
    ’’ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دونوں عمروں کے درمیان سرزد ہوں  اور حج مبرور کا  بدلہ تو جنت ہی ہے۔‘‘    (بخاری ومسلم)۔
    حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم  سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  نے فرمایا:
    ’’پے درپے حج اور عمرے کیا کرو،بے شک یہ دونوں (حج اور عمرہ)  فقر( یعنی غریبی )اور گناہوں کو اس طرح دور کردیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔  ‘‘(ابن ماجـہ)۔
    ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںکہ میں نے رسول اللہ سے  عرض کیا: ہمیں معلوم ہے کہ جہاد سب سے افضل عمل ہے، کیا ہم جہاد نہ کریں؟ آپ  نے ارشاد فرمایا: 
    ’’نہیں (عورتوں کیلئے) عمدہ ترین جہاد حج مبرور ہے۔  ‘‘(بخاری)۔
    ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ سے پوچھا :کیا عورتوں پر بھی جہاد (فرض) ہے؟ آپ  نے فرمایا:
    ’’  ان پر ایسا جہاد فرض ہے جس میں خوںریزی نہیں  اور وہ  حج مبرور ہے۔  ‘‘(ابن ماجـہ)۔
    حضرت عمرو بن عاص ؓکہتے ہیں کہ میں نبی اکرم  کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اپنا دایاں ہاتھ آگے کیجئے تاکہ میں آپ  سے بیعت کروں۔ نبی اکرم  نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا، تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ نبی اکرم  نے دریافت کیا:
    ’’ عمرو کیا ہوا۔‘‘
     میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شرط رکھنا چاہتا ہوں۔ آپ  نے ارشاد فرمایا:
    ’’ تم کیا شرط رکھنا چاہتے ہو؟ ۔‘‘
    میں نے عرض کیا ( گزشتہ) گناہوں کی مغفرت کی۔ تب آپ  نے فرمایا:
    ’’ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام (میں داخل ہونا) گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے،ہجرت گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتی ہے  اور حج گزشتہ تمام گناہوں کو مٹادیتا ہے۔  ‘‘(مسلم)۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: 
    ’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں،اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں تو وہ قبول فرمائے، اگر وہ اس  سے مغفرت طلب کریں تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔  ‘‘(ابن ماجـہ)۔
    حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: 
    ’’جب کسی حج کرنے والے سے تمہاری ملاقات ہو تو اُس کے اپنے گھر میں پہنچنے سے پہلے اس کو سلام کرو اور مصافحہ کرو اور اس سے اپنی مغفرت کی دعا کیلئے کہو‘ کیونکہ وہ اس حال میں ہے کہ اس کے گناہوں کی مغفرت ہوچکی ہے۔‘‘(مسند احمد)۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ  کو فرماتے ہوئے سنا: 
    ’’جو حاجی سوار ہوکر حج کرتا ہے اس کی سواری کے ہر قدم پر70نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو حج پیدل کرتا ہے اس کے ہر قدم پر 700 نیکیاں حرم کی نیکیوں میں سے لکھی جاتی ہیں۔‘‘
     آپ  سے دریافت کیا گیا کہ حرم کی نیکیاں کتنی ہوتی ہیں، تو آپ  نے فرمایا:
    ’’ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہوتی ہے۔  ‘‘(بزاز، کبیر، اوسط)۔
    حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:
    ’’حج میں خرچ کرنا جہاد میں خرچ کرنے کی طرح ہے( یعنی حج میں خرچ کرنے کاثواب700 گنا تک بڑھایا جاتا ہے)۔  ‘‘(مسند احمد)۔
    حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: 
    ’’تیرے عمرے کا ثواب تیرے خرچ کے بقدر ہے (یعنی جتنا زیادہ اس پر خرچ کیا جائے گا اتنا ہی ثواب ہوگا)۔‘‘(الحاکم)۔
    حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:
    ’’حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
     آپ  سے پوچھا گیا کہ حج کی نیکی کیا ہے تو آپ  نے فرمایا:    ’’حج کی نیکی لوگوں کو کھانا کھلانا اور نرم گفتگو کرنا ہے۔ ‘‘(احمد والطبرانی وابن خزیمۃ )۔  
    مسند احمد اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ حضورِ اکرم  نے فرمایا: 
    ’’حج کی نیکی‘ کھانا کھلانا اور لوگوں کو کثرت سے سلام کرنا ہے ۔ ‘‘
    حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: 
    جب حاجی لبیک کہتا ہے تو اس کے ساتھ اس کے دائیں اور بائیں جانب جو پتھر، درخت اور ڈھیلے وغیرہ ہوتے ہیں وہ بھی لبیک کہتے ہیں اور اسی طرح زمین کی انتہا تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے (یعنی ہر چیز ساتھ میں لبیک کہتی ہے)۔‘‘  (ترمذی وابن ماجـہ)۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا: 
    ’’اللہ جل شانہ کی120رحمتیں روزانہ اِس گھر (خانہ کعبہ) پر نازل ہوتی ہیں جن میں سے60 طواف کرنے والوں پر، 40 وہاں نماز پڑھنے والوں پر اور 20 خانہ کعبہ کو دیکھنے  والوں پر ۔‘‘  (طبرانی)۔
    حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
    ’’جس نے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور2رکعت اداکیں گویا اس نے ایک  غلام آزاد کیا ۔‘‘  (ابن ماجـہ)۔
    حضورِ اکرم  نے ارشاد فرمایا: 
    ’’حجر اسود اور مقام ابراہیم قیمتی پتھروں میں سے2پتھر ہیں، اللہ تعالیٰ نے دونوں پتھروں کی روشنی ختم کردی ہے، اگر اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرتا تو یہ دونوں پتھر مشرق اور مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردیتے۔‘‘  (ابن خزیمہ)۔
    حضورِ اکرم  نے ارشاد فرمایا: 
    ’’حجر اسود جنت سے اترا ہوا پتھر ہے جو کہ دودھ سے زیادہ سفید تھا لیکن لوگوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ۔  ‘‘(ترمذی)۔
    حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم  نے ارشاد فرمایا: 
    ’’حجر اسود کو اللہ جل شانہ قیامت کے دن ایسی حالت میں اٹھائیں گے کہ اس کی 2آنکھیں ہوںگی جن سے وہ دیکھے گا اور زبان ہوگی جن سے وہ بولے گا اور گواہی دے گا اُس شخص کے حق میں جس نے اُس کا حق کے ساتھ بوسہ لیا ہو۔ ‘‘ (ترمذی ،  ابن ماجـہ)۔
    حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا: 
    ’’ان دونوں پتھروں (حجر اسود اور رکن یمانی) کو چھونا گناہوں کو مٹاتا ہے۔  ‘‘(ترمذی)۔
مزید پڑھیں:- - - - -سفرِ حج کو با مقصد بنائیں

شیئر: