Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اک نیا استعمار

***جاوید اقبال***
کل 18جولائی 2018 ء کونیلسن منڈیلا کی سوویں سالگرہ منائی گئی۔ 18 جولائی 1918ء کو جنم لینے والے ایک سیاہ فام بچے کا جب عمر عزیز کے 27 برس اپنے وطن جنوبی افریقا کے زندانوں کی نذر کرنے کے بعد 5 دسمبر 2013ء کو انتقال ہوا تو ہر وہ حریت پسند افسردہ تھا جس کی جدوجہد ابھی بار آور نہ ہوئی تھی اور ہر وہ مرد حر آنجہانی کو خراج تحسین پیش کررہا تھا جو کبھی زدانی رہا تھا۔ کل نیلسن منڈیلا کو یاد کرتے وقت میری لوح یاد پر ایک اور جنوبی افریقی پروفیسر ایلفرڈ مکوٹا کا بھاری بھر کم باریش چہرہ بھی ابھرا۔ 80  کی دہائی میں ایلفرڈ میرے ہمراہ جامعہ الملک سعود میں انگریڑی کا استاد تھا۔ سیاہ فام تھا۔ انتہائی درجے کا حریت پسند تھا اور ایف ڈبلیو ڈی کلارک کی سفید فام حکومت سے سخت نفرت کرتا تھا۔ ابھی طالب علم ہی تھا کہ حکومت نے  اندیشہ نقص امن کی دفعہ لگاکر گرفتار کرلیا۔ مقدمہ انتہائی مختصر تھا ۔ سفید فام نسل پرست جج نے صفائی کا موقع دیئے بغیر ایلفرڈ کو مجرم قرار دے دیا اور سزا سنادی۔ مجرم مختلف قیدخانوں میں عدالتی فیصلے کی حاجت پوری کرتا رہا یہاں تک کہ رابن آئی لینڈ پہنچ گیا جہاں اسے ایک ایسی کوٹھڑی میں جگہ دی گئی جہاں پہلے سے ایک مکین موجود تھا۔ وہ نیلسن منڈیلا تھا جو عمر قید کاٹ رہا تھا۔ دونوں حریت پسند مل بیٹھے۔ ایلفرڈ شطرنج بہت اچھی کھیلتا تھا۔ اس نے نیلسن منڈیلا کو مہروں کی چالو ں کا ماہر بنادیا۔ نیلسن بہت اچھا مکہ باز تھا۔ اس نے اپنے ساتھی کو مکہ بازی کے رموز سکھا دیئے۔ ہر روز فارغ وقت میں کوٹھڑی کی سہ پہریں انتہائی پرشور ہوجاتیں کہ گھونسے برستے رہتے اور غروب آفتاب کے بعد فضا میں ہوُ کا عالم ہوتا کہ مہروں کو حرکت دینے کے لیے سکوت اور ذہنی عرق ریزی اشد ضروری ہوتے ہیں۔ 
’’ایلفرڈ ! تمہیں نیلسن منڈیلا کی شحصیت کے کس پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا تھا؟میں نے اپنے ہمکار سے سوال کردیا۔ چند لمحوں کے سکوت کے بعد اس نے جواب دیا ’’نیلسن کی شحصیت کا ہر پہلو بے مثال تھا تاہم مجھے سب سے زیادہ اس کی اس خاصیت نے متاثر کیا کہ وہ کبھی ہار نہیں مانتا تھا۔ ہماری شطرنج کی بازیاں کبھی بہت طویل ہوجاتیں۔ اگر میں کوئی بازی جیت کر بساط سمیٹنے کی کوشش کرتا تو وہ کہتا ’’ایلفرڈ ! تم بازی جیتے نہیں ہو!اس بساط کو یہیں ، ایسا ہی رہنے دو ،  ہم کل یہیں سے کھیل کو جاری رکھیں گے۔ یوں پورے 2برس اس نے مہرے نہ اٹھانے دیے۔ ایک ہی بساط بچھی رہی۔‘‘
’’ پھر2 برس کے بعد کیا ہوا تھا؟ ‘‘  میرا سوال تھا۔ ایلفرڈ مسکرایا’’ 2 برس کے بعد چند ساتھیوں کے ہمراہ میں رات کو جیل سے فرار ہوگیا۔ لندن پہنچ کر آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔‘‘
’’ اور نیلسن منڈیلا ؟ وہ تمہارے ساتھ نہیں بھاگا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ نہیں ! رات کی تاریکی میں کوٹھڑی سے نکلتے وقت میں نے ایک بار پھر اسے ساتھ چلنے کو کہا۔ اس نے میرے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے میرا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔ بولا کہ فرار میں اس کی ہار ہوگی۔ وہ لڑ کر جیتنا چاہتا تھا۔‘‘
1992ء میں نشان پاکستان اور 1993ء میں امن کا نوبل انعام اور متعدد دوسرے اعزازات حاصل کرنے والے اور 1994ء سے 1999ء تک اپنے ملک کے صدر رہنے والے نیلسن منڈیلا کو اس کے سیاہ فام ہموطن احترام سے مڈیبا یعنی بابائے قوم کہا کرتے تھے۔ لیکن اپنے شباب کی 3 دہائیاں  زندان کی تاریکیوں اور استخواں شکن جدوجہد کی نذر کرنے کے باوجود نیلسن منڈیلا اپنے وطن پر سے استعمار کا چنگل نہ ہٹا سکا۔ 16ویں صدی کے اواخر اور 18ویں صدی کے ابتدائی برسوں کے دوران مملکت عظمی برطانیہ نے کرہ ارض پر اپنے سفینے رواں کئے۔ برطانوی تجار آہستہ آہستہ پھیلے اور سورج کے طلوع و غروب کے سایوں میں تاج برطانیہ کے زیر نگین ریاستوں کو لاتے رہے۔ 1913ء میں حال یہ تھا کہ کرہ ارض پر برطانیہ عظیم ترین سلطنت تھی۔ اس کے زیر اقتدار 41 کروڑ 20 لاکھ کی آبادی تھی جبکہ 1920ء تک اس کے مفتوجہ علاقوں کا رقبہ 3 کروڑ 35 لاکھ مربع کیلو میٹر تک ہوچکا تھا۔ اس وقت زمین کے 24 فیصد پر برطانوی پرچم لہراتا تھا۔ جنوبی افریقا کی مختلف متحارب ریاستوں کو برطانیہ نے 1909ء میں متحد کیا اور اسے تاج برطانیہ کا محکوم بنادیا۔ سونا ، ہیرے اور دیگر معدنیات بلا توقف اور بلا شرکت غیرے عازم لندن ہوتے رہے۔ سفید فام نسل پرست جنوبی افریقی حاکم اپنی نگرانی میں وسطی افریقی جنگلوں میں آباد سیاہ فام سے ابنائے آدم کو پابند سلاسل کرکے یورپ بھجواتے۔ نیلسن منڈیلا کی جدوجہد صرف اپنے سیاہ فام ہموطنوں کو مقام انسانیت دلانے کے لیے تھی۔ 27 برس کے بعد جب اس پر در زنداں کھلا تو اسے بہت حد تک کامیابی مل چکی تھی لیکن استعمار کے بھی عجب روپ ہیں۔ نیلسن منڈیلاکامیاب بھی ہوا تھا اور نہیں بھی ہوا تھا۔ آج بھی آزاد جنوبی افریقی شہروں میں سفید فام اپنے الگ بسائی بستیوں میں رہتے ہیں۔ سیاہ فاموں کے لیے انتہائی غلیظ آبادیاں ہیں۔ نوکریوں کے لیے سفید فام فوقیت رکھتے ہیں جبکہ سیاہ فام شہری بیروزگاری اور مفلوک الحالی کا شکار ہیں۔ سیاہ فاموں کی اکثریت ایڈز اور دیگر امراض کا شکار رہتی ہے اور انہیں علاج کی سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں۔سفید فام آبادی کے لیے خصوصی مدارس قائم ہیں جن میں حصول تعلیم کے اخراجات سیاہ فام برداشت نہیں کرسکتے۔ استعمار آج بھی غالب ہے۔ اس نے کہاں کہاں کہرام نہیں مچایا؟ جہاںسے نکلا ایسا نظام چھوڑ گیا کہ انسانیت بلکتی رہ گئی۔ برصغیر پر ہی نظر ڈال لیتے ہیں۔ 1612ء  میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنا قدم رکھا اور رفتہ رفتہ اپنا پنجہ کھولنا شروع کیا۔ 1757ء کی جنگ پلاسی میں اس نے اپنے قدم جماکر خطرے کی گھنٹی بجائی ، مغل عہد زوال پذیر تھا۔ سفید فام نو آمدگان نے ایسے قوانین لاگو کرنے کی کوشش کی کہ جن سے مقامی آبادی میں ان کے خلاف نفرت بڑھی اور پھر 10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی چھاؤنی میں لاوا پھوٹ بہا۔ اس موقع پر اپنوں نے جس طرح اس تحریک کو کچلنے میں برطانوی فوج کی مدد کی تاریخ میں خونیں حروف سے لکھ دیا گیا ہے۔ 20 جون 1858ء کو گوالیار میں آخری مجاہدین کی پلاٹون کی شکست کے بعد اس جنگ کا اختتام ہوا۔ 81 سالہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو برطانوی میجر ہڈسن نے ہمایوں کے مقبرے سے گرفتار کیا اور رنگون میں ایک مختصر سی کوٹھری اس کا مقدر بنادی گئی۔ ایک کمبل ، ایک حقہ اور کتنا ہے بدنصیب ظفر ! تاج برطانیہ کی مدد کرنے والے اپنے ہی تھے۔ ٹوانے ، چٹھے ، چیمے ، قریشی  ، قزلباش، جتوئی ، فراری ، مجاہدین کا خون بہانے میں سفید فام آقاؤں کی مدد کرتے رہے اور اس کے عوض نوازے جاتے رہے۔ استعمار کے بھی کئی روپ ہوتے ہیں۔ برصغیر سے گیا تو تحفے کے طور پر اپنا نظام عدل اور اپنا دبیل ٹولہ چھوڑ گیا۔ نظام عدل ایک بہرے اور اندھے بھکاری کی طرح کشکول اٹھائے اپنی بے بسی اور عجز پر نوحے کرتا پھرتا ہے ، مختاراں مائی ، شاہ زیب ، زینب ، ایان علی اپنی بے بسی پر گریاں اس گداگر کو کچھ نظر نہیں آتا۔ اور دبیل ٹولہ جمہوریت کی بوسیدہ داغ دار ردا اوڑھے الیکٹیبل (Electable) بنا اک نیا استعمار بنا بیٹھا ہے۔
 

شیئر: