Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جو قوم کاہلی سے دور رہے، بیماریاں اس سے دور رہتی ہیں، ڈاکٹر ادیبہ حامد

 زینت شکیل ۔جدہ
قادر مطلق نے کائنات کو حیات کے لئے مسخر فرمادیا۔ خوش نصیب ہے ہر کلمہ گو کہ اس کے لئے ہر خالص عمل پر بے شمار ثواب ہے ۔ دین کے ہر کام میں اخلاص کا اہتمام کرنا چاہئے کیونکہ اخلاص سے کیا گیاتھوڑا ساعمل بھی بہت اجر و ثواب کا حامل ہوتا ہے ۔اخلاص والوں 
 کے لئے خوش حالی ہو کہ وہ ہدایت کے چراغ ہیں ۔ان کی وجہ سے سخت سے سخت فتنے دور ہو جاتے ہیں۔
ہمارے اسلاف کے عبادت کے واقعات جو کتابوں میں مذکور ہیں، انکے عمل نے بتلادیا کہ کرنے والے کے لئے کو ئی عمل کچھ مشکل نہیں ۔اس درجہ کا مجاہدہ نہ سہی مگر اپنے زمانے کے مطابق اپنی طاقت و قدرت کے موافق نمونہ سلف اب بھی موجود ہیں۔ 
ہوا کے دوش پر اس ہفتے ہماری گفتگومحترم حامد علی اور انکی اہلیہ اختر صاحبہ کی صاحب زادی ادیبہ حامد سے ہوئی۔ ادیبہ حامد علی نے ابتدائی تعلیم ٹنڈوجام میں حاصل کی۔ میٹرک کے بعد حیدر آباد میں تعلیم جاری رکھی اور جام شورو ،لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے بی ڈی ایس کیا۔ادیبہ صاحبہ ڈینٹسٹ ہیں، ملائیشیا میں 3 سال رہی ہیں۔ کمیشن کا امتحان پاس کیا۔ وہاں رہ کر انہوں نے ملائیشیا کی ترقی کا راز جانا کہ وہاں لوگ مجموعی طور پر محنتی ہیں اور سادگی کو اپنائے ہوئے ہیں۔ یہی انکی ترقی کا راز ہے ۔ سچ یہ ہے کہ جو قوم سستی و کاہلی سے دور رہتی ہے، وہ خود صحت مندرہتی ہے اور بیماریاں اسے سے دور رہتی ہیں ۔
  محترمہ ادیبہ نے بتایا کہ وہ اپنی آبائی جگہ سے جاب پر جاتی تھیں تو 50 کلو میٹر کافاصلہ طے کرنے میں کئی لٹر پٹرول خرچ ہوتا تھا۔ انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ اسکوٹر کا لائسنس حاصل کر لیا ۔ انہوں نے بتایا کہ اس سواری سے ان کے اندر اعتماد بھی پیدا ہوا اور ان کا آنے جانے کا مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ یہ تجربہ میں نے اس لئے کیا کہ ملائیشیا کی خواتین سے جہاں میں نے بہت ساری چیزیں سیکھیں وہاں یہ بھی سیکھا کہ اپنا کام خود کیاجائے ، منزل کا راستہ تلاش کیاجائے اور اعتمادکے ساتھ خود مختاری اختیار کی جائے ۔ اپنا کام خود کرو اس لئے وہاں خواتین اپنے آفس یا کام کی جگہ کا شٹر بھی خود اٹھاتی ہیں۔ یہی میں نے بھی سیکھا کہ میں اپنی کلینک کا شٹر خود اٹھاتی ہوں، کلینک کھولتی ہوں ۔ میں نے کسی ملازم کی کو اپنے کام کا لازمی ذمہ نہیں سونپا لیکن ہمارے معاشرے میں یہ عام بات ہے کہ کوئی جاب کرنے جائے تو اس کے لئے ڈرائیور رکھا جائے گا، کلینک یا کوئی بھی جاب کی جگہ ہو، وہاں آپ کے پہنچنے سے پہلے صفائی ستھرائی ہو جائے گی۔ فائل جگہ پر ایسے رکھا ہو گا کہ آپ صرف آجائیں اور چند ایک مریضوں کا معائنہ کرلیں اور چند دواﺅں کا نام لکھ کر مریض کو احتیاط بتادیں اور کام ختم۔باقی کام اسٹاف خود مینج کرلے گا۔
اسے بھی پڑھئے:خرم کی محبت نے سسرال کا احساس نہیں ہونے دیا، عمارہ
ڈاکٹر ادیبہ نے بتایا کہ دانتوں کی بیماریوں میں آج کل کے بے وقت کے کھانے اور جنک فوڈ کا بڑا کردار ہے۔ ان کے ریشے دانتوں میں رہ جاتے ہیں جو جلدی جلدی برش کرنے سے نہیں نکلتے۔ اس لئے ضروری ہے کہ سادہ کھانا کھائیں اور کبھی ویک اینڈ میں باہر فاسٹ فوڈ کھائیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ سونے سے پہلے برش کر کے سوئیں کیونکہ جب تک ایک بہترین ڈنر سے لطف اندوز ہوتے ہیں، گھر پر آکر بھی کسی نہ کسی چیز کے کھانے پینے کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور پھر نیند کے غلبے میں دانتوں کی صفائی نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ وہ دانت جن کی مدد سے تمام دن مزے مزے کی چیزیں کھاتے ہیں ، ان کی صفائی سے غفلت بالکل نہیں برتنی چاہئے۔
مسواک کے فوائد بے شمار ہیں۔ پانچوں وقت نماز سے پہلے مسواک کرنا ،عبادت کے ثواب میں اضافے کا سبب بنتا ہے ۔ اس کا استعمال ضرور کرنا چاہئے ۔
پہلے زمانے کے لو گ خیموں میں رہتے تھے ،اونٹ کی سواری کرتے تھے اور کپڑے بھی اسی زمانے کی ضرورت کے حساب سے استعمال کئے جاتے تھے لیکن آج سب جگہ اتنی آسانیوں کے باوجود دشواریوںمیں اضافہ ہوا ہے۔ یہی دیکھ لیں کہ کھانا بھی اب مقررہ وقت پر نہیں کھایا جاتا اور خیال یہی کیا جاتا ہے کہ جب اور جس وقت کام سے فرصت ملے گی تو کچھ بھی کھالیں گے ،یہ کون سی بڑی بات ہے لیکن یہ کہتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بے وقت ،بے حساب اور کچھ بھی کھانے کا رجحان ہی آج بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ بن کر سامنے آیا ہے۔ وقت بے وقت منہ میں کچھ نہ کچھ چباتے رہنے کے مشغلے نے تاجروں اور کاروباری حضرات کو ایسی ایسی چیزیں بنانے اور مارکیٹ میں سپلائی کرنے کی طرف متوجہ کیاکہ ان کو استعمال کرنے والا خود کو ان کا عادی بنا لے۔ گٹکا بھی اسی تجارت کی قسم میں شامل ہے ۔ سونف اور میٹھی سپاری تو لوگ کھانے کے بعد شوق سے کھاتے ہیں تو اس کو ہی ایسا بنادیاجائے کہ لوگ عادی ہوجائیںچنانچہ ایسا ہی کیا گیا ۔ پھر یوں ہوا کہ دانتوں کے امراض میں اضافہ ہو گیا۔
دانتوں کی بیماریاں جب عام ہونے لگیں تو ماہرین نے اس حوالے سے تحقیق کی جس سے یہ بات سامنے آئی کہ مفاد پرست اور لالچی تاجروں اور کاروباری شخصیات نے دونوں ہاتھوں سے منافع کمانے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ نوجوانوں کی صحت کو برباد کرنے کی مہم بھی شروع کر دی گئی ۔صد شکر کہ بروقت اس موذی شے سے بچنے کی ترکیب کر لی گئی۔ 
ڈاکٹر ادیبہ نے بتایا کہ پان چھالیہ کی جگہ گٹکا متعارف کرایا گیا اور اس میں ایسی چیز وںکی آمیزش کی گئی جن کے باعث یہ گٹکا انسانی جسم کے سب سے اعلیٰ حصے یعنی دماغ کو متاثر کرتا ہے اور دماغی صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ کسی بھی قوم کے لئے اس کے نوجوان ہی قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں۔ انکی ذہنی صلاحیت کو گزند پہنچائی جائے تو اس سے پوری قوم متاثر ہو سکتی ہے ۔ اسی لئے گھر کے کھانے کی طرف واپسی ہونی چاہئے کہ ماں جب اپنے بچوں کے لئے کھانے تیار کرتی ہے تو اس میں اسکی محبت بھی شامل ہوتی ہے ۔کھانے کی تیاری میں اذکار کا بہت اثر ہوتاہے جو لوگ اس بات کا اہتمام کرتے ہیں، انکے بچوں میں بہترین خوبیاں پیدا ہوتی ہیں۔
دانتوں کے مسائل تو سنگین صورت اختیا ر کر ہی چکے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر جو مسئلہ ہے وہ سستی و کاہلی کا ہے کہ جس کی وجہ سے 
 ہیپاٹائٹس میں اضافہ ہو رہا ہے ۔آپ کسی بھی جگہ اسپتال میں چلے جائیں ،آپ خود دیکھ لیں گے کہ آپریشن میں استعمال کے بعد صرف کاہلی 
کے باعث دھوئے نہیں جاتے ۔کسی دوسرے مریض کو ضرورت پڑتی ہے تو وہی ایک مریض کا استعمال شدہ اوزار دوسرے مریض کے لئے بھی بغیر دھوئے استعمال کر لیا جاتا ہے ۔ اس معمولی سستی و کاہلی نے یہ کام دکھایا کہ ایک بڑی بیماری میں مبتلا کردیا۔ ہمیں تو سستی و کاہلی سے بچنے کی دعا بھی ارشاد فرما دی گئی ہے۔ بلا شبہ سستی و کاہلی بہت سی بیماریوں اور خامیوں کی جڑ ہے۔ 
محترمہ ادیبہ نے بتایا کہ انہیں ایک این جی او نے32اسپتالوں کا سپر وائزربنایا جس میں یہاں سے تھرپارکر تک کے اسپتال شامل تھے ۔ انہوں نے میرے کام کی افادیت کے پیش نظر یہ بتایا کہ آپ سرپرائز وزٹ کریں گی اور وہاں جو دیکھتں گی، وہی رپورٹ کردیا کریں گی لیکن جب میںنے یہ کام شروع کیا تو سرپرائز وزٹ پر عملے کی نااہلی کھل کر سامنے آئی اور جب سوال پوچھا گیا کہ یہ سارے کام بروقت کیوں نہ ہوسکے تو میرے سوال کا جواب دینے کی بجائے اسپتال والوں نے مجھ پر یہ پابندی لگادی کہ آپ سرپرائز وزٹ نہیں کریں گی بلکہ کال وزٹ کریں گی۔ آپ کو کال کرکے اپنی آمد کے بارے میں اطلاع دینی ہوگی اور دوسری بات یہ کہ آپ ہم سے کسی قسم کا سوال پوچھنے کی اہل نہیں۔ ا س لئے آپ ہمارے کام کے بارے میں ہم سے کوئی استفسار نہیں کریں گی ۔اس کے بعد میں نے این جی او سے معذرت کر لی کہ میں ایسی صورتحال میں یہ ذمہ داری پوری نہیں کرسکتی۔
ڈینٹسٹ ہونے کے علاوہ ادیبہ صاحبہ خاصی سوشل بھی ہیں اور ریسرچ ورک میں بھی مشغول رہتی ہیں ۔ انہیں اپنی کی ہوئی تحقیق کے نتائج کا انتظار ہے، تحقیق کا سلسلہ بھی جاری ہے ۔وہ اپنی سائنسی تحقیق کے لئے ایسے ادارے کی تلاش میں ہیں جو ان کے ریسرچ ورک کو عوام کی بہتری کے لئے منظر عام پر لائے۔
ڈاکٹرادیبہ کومطالعے کا بے حد شوق ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے والد صاحب کی طرف سے مطالعے کا شوق ملا ہے کیونکہ والد صاحب بہت زیادہ کتابیں پڑھا کرتے تھے تاہم یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ کسی ایک شعبے سے متعلق کتابیں پڑھتے تھے بلکہ ہر شعبے سے متعلق ان کے پاس کتابیں موجودہوتی تھیں اور روز ایک نئی کتاب انکے زیر مطالعہ ہوتی تھی ۔ہم لوگوں کو بھی شوق ہوتااور والد صاحب کے آفس جانے کے بعد اس کتاب کو پڑھتے۔ اس میں سائنسی مضامین بھی ہوتے تھے اورادبی اور دینی بھی۔
کتابوں کے علاوہ مختلف مصنفین کے مضامین بھی ہوتے تھے۔ ان میں اے حمید، بانو قدسیہ،اشفاق احمد، رفعت سراج، پروین شاکر، نینی تال والا،ابن انشا و دیگرمصنفین شامل تھے اور یہ ایک طویل فہرست ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ والد صاحب نے اتنی کتابیں تو ضرور پڑھی ہوں گی کہ جن سے ایک کمرہ بھر جائے ۔ انہوں نے کہا کہ میرے والد صاحب کے پاس عربی،فارسی،اردو اور انگریزی زبانوں میں دینی، سائنسی ،دنیاوی اور اقتصادی ہر عنوان پر مبنی کتابیں موجود تھیں اور ہمیں بھی ان سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا ۔ ڈاکٹر ادیبہ نے کہا کہ ہم آج کپڑے خریدتے وقت کوالٹی اور ڈیزائن نہیں بلکہ محض برانڈ دیکھتے ہیں یعنی کپڑے کی بجائے برانڈ کی خریداری کی جاتی ہے۔ ہمیں اس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اسی طرح اپنے اوپر قرضوں کا بوجھ لاد کر اپنے تمام شوق پورے کرتے رہیں گے؟ ہمیں خواتین ہونے کے ناتے سادگی اور کفایت شعاری اپنانی چاہئے۔ اسی میں ملک کی ترقی کا راز پنہاںہے۔
انسان علم سے ہر وقت کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے۔اسی حوالے سے ہمارے اجداد نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ انسان زندگی کے کسی بھی مرحلے پرعلم حاصل کرسکتا ہے ۔ اس کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہمیں ماں کی گود سے قبر کی گود تک علم حاصل کرنے کی نصیحت فرمائی گئی ہے ۔ 
جہاں تک انسانی زندگی کے مختلف ادوار کا تعلق ہے تو بلا شہ ہر دور انسان کے لئے جدا گانہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایک دور بچپن کادور ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بے حد معصوم دور ہوتا ہے ۔اس میں انسان کی باتیں، اس کے خیالات، اس کی حرکتیں سب ہی معصومیت کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کے بعد جیسے جیسے عمر بڑھتی ہے، بچپن انسان کو الوداع کہہ دیتا ہے اور پھر عقل پختگی کی جانب گامزن ہو جاتی ہے ۔ یوں معصومیت سے ناتے توڑ کر انسان عمر میں اضافے کے ساتھ ساتھ عقل و ذہانت اور تجربہ حاصل کرتا ہے ، اس کی سوچ اور سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے ، پختگی آتی ہے اور اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ایک وقت وہ آتا ہے کہ وہی انسان جو کبھی سیکھنے کی جد و جہد میں مشغول رہا کرتا تھا، اب لوگوں کو سکھانے لگتا ہے اور وہ اپنے تجربات سے لوگوں کو آگاہ کرتا ہے۔ یہاں ایک بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ انسان کی زندگی کا کوئی بھی دور ہو، اسے اس دور کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق گزارنا چاہئے ۔ یوں انسان کی شخصیت کا وقار پامال نہیں ہوتا۔ جوانی میں بڈھوں جیسی اور بڑھاپے میں بچوں جیسی حرکات بلا شبہ انسان کو ایسا بنا دیتی ہیں کہ لوگ اس پر ہنسنے لگتے ہیں۔ اس کے بر خلاف اگر بچپن کو معصومیت، جوانی کو عزم و حوصلہ اور بڑھاپے کو تدبر سے معنون کر دیا جائے تو انسان زندگی کے تمام ادوار سے نہ صرف لطف اندوز ہو سکتا ہے بلکہ لوگوں کے لئے ایک مثال بن سکتا ہے ۔
ڈاکٹر ادیبہ حامد نے کہا کہ اگر ہم عالمی ادب کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ وہاں سب کے سب مرکزی خیالات قصص سے ہی حاصل کئے گئے ہیں اور اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لایا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال ولیم بلیک ہے جس نے اپنی شاعری میں جابجا شجر ِممنوعہ کا تذکرہ کیا ہے ۔اس کا تمام تر خیال سیدنا آدم علیہ السلام اورسیدہ حوا علیہا ا لسلام کے واقعے سے حاصل کیا گیا ہے۔ 
 

شیئر: