Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”تیری بُکل دے وچ چور“

حسیب اعجاز عاشر۔لاہور

تلاطم ہائے بحر زندگی سے خوف کیا معنی
جو دیوانے ہیں وہ موجوں کو بھی ساحل سمجھتے ہیں

    کئی ممالک میں حکومتوں کے تختے اُلٹنے،معاشرے کی تشکیل، رویوں میں تبدیلی اور نئے انقلاب پیدا کرنے کے پس پردہ صحافت کا اہم کردار رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں صحافت کی معاونیت کو غیرفعال کرنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے آزمائے جاتے رہے مگر صحافت نے اپنی قوت اور افادیت کو ہر خطے،ہرسطح اور ہردور میں ہمیشہ منوایا ہے۔پاکستان کی صحافتی تاریخ میںبھی ایسے نڈر،بے باک،صحافیوں کے روشن باب موجود ہیں جنہوں نے اپنے اصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیااور کسی طاقت اور دباﺅ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صحافت کو ہمیشہ اپنی ریاضت سے اعلیٰ درجہ دیا ۔سعید آسی کا شمار بھی انہیں صف اول کے صحافیوں میں ہوتا ہے جنہوں نے صحافتی اقدار اور اسکے وقار پر کبھی آنچ نہیں آنے دی۔ دور جمہوریت ہو یا دور آمریت، سعید آسی کبھی ڈگمگائے نہیں بلکہ ہمیشہ اپنے نظریات پر ڈٹے رہے۔ وطن عزیزکیلئے دردِ دل رکھنے والے ایسے صحافیوں کیلئے علامہ اقبال نے کہاتھا کہ :
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
    سعید آسی کے منتخب کالموں کا مجموعہ ”تیری بُکل دے وچ چور“ منظر عام پرآئی اور اس نے آتے ہی صحافتی اور ادبی حلقوں میں ایک ارتعاش پیدا کردیا۔اس کتاب کے حوالے سے سعید آسی ”حرف اول“میں لکھتے ہیں کہ ”خدا لگتی کہئے، آج سیاسی،معاشرتی ودیگرمحاذوں پر ملک کا جو نقشہ بنا ہوا ہے ، کیا اسے ہم آئین کی پاسداری و عملداری والے معاشرے سے تعبیر کر سکتے ہیں ۔بقول شاعر:
کیا اسی زہر کو تریاق سمجھ کر پی لیں
ناصحوں کو تو سجھائی نہیں دیتا کچھ بھی
    میرا یہ المیہ ہے کہ میں زہر ہلال کو کبھی قند نہیں کہہ پایا چنانچہ میر اآئین اور اسکے تحت قائم سسٹم پر یقین ہے تو آئین او اسکے تحت قائم سسٹم کے ساتھ کھڑا ہونا میری مجبوری ہے چنانچہ میرا یہی تجسس آپ کو میرے کالموں میں جابجا بکھرا ہوا نظر آئے گا جو 2014سے 2017تک شائع ہونے والے میرے کالموں میں سے منتخب شدہ ہیں۔
    اس کتاب کی تقریب رونمائی کے حوالے سے قائد اعظم لائبریری اور قلم فاﺅنڈیشن کے اشتراک سے قائداعظم لائبریری جناح باغ لاہور میں ایک شاندار تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔ آغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا جس کی سعادت چوہدری اصغر نے حاصل کی جبکہ صوبیہ خان اور صبیح الحق بخاری نے نعت طیبہ پیش کی۔ عالیہ بشیرنے اسٹیج سیکریٹری کے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دیئے۔
قلم سے کام تیغ کا اگر کبھی لیا نہ ہو
تو مجھ سے سیکھ لے یہ فن اور اس میں بے مثال بن
    تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے مصنف سعید آسی نے کہا کہ حبس کے موسم میں وقت ِ خاص نکال کرآنا احباب کی محبت کا ثبوت ہے جو میرے لئے باعثِ اعزاز ہے۔ موجودہ سیاسی منظرعامے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں آئین کو مقدم رکھنا ہے اور شائستگی و تہذیب کیساتھ آگے چلنا ہے ۔ اگر سسٹم پر اعتراضات ہیں تو اس میں تبدیلی لائی جائے مگربرائے مہربانی گڑبڑ نہ کیجئے ۔
    فاروق چوہان نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعیدآسی نے اپنے کالموں میں بے باک انداز میں کئی تحریکوں کے حوالے دیئے ہیں۔ ہمیشہ اپنے قلم سے سسٹم میں اصلاح کی کوشش کرتے رہے اور وطن عزیز سے اپنے درد اور احساس کو عوام تک پہنچایا جو انکے قلمی جہاد کا حصہ ہے۔ انہوں نے موجودہ بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی بات کو منظر بھوپالی کے ان اشعارمیں سمیٹ دیا:
ان سے پوچھئے جن کی کائنات جلتی ہے
دیکھنے میں آساں ہے بستیاں جلا دینا
    عنازہ احسان نے اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ سعید آسی کی کتاب ”تیری بُکل دے وچ چور“اُردو ادب میں شاندار اضافہ ہے ۔ یہ یقینا ایک تاریخی دستاویز ہے جو نوجوانوں کوگمشدہ باب ڈھونڈنے میں مددگار ثابت ہوگی۔عطاءالحق قاسمی نے سعید آسی کو اے کلاس کا کالم نگار قرار دیا۔
    رﺅف طاہر نے کہا کہ سعید آسی حقیقت پسند ،سچے اور کھرے صحافی ہیں ۔یہ سراپا ایثار شخصیت ہیں۔استقلال پارٹی کے چیئرمین سید منظور احمد گیلانی نے کہا کہ سعید آسی کی سچائی ،جذبہ اور دردِ دل کا میں پہلے سے ہی قائل ہوں۔ پروفیسر عطاءالرحمن نے کہا کہ سعید آسی اچھے صحافی اور کالم نگار کے علاوہ دل آویزشخصیت بھی ہیں ۔مجیب الرحمن شامی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعید آسی سو فیصد دیانتدار صحافی ہیں ۔ان جیسے اخبار نویس بہت کم ملتے ہیں ۔انہوں نے متانت اور وقار کیساتھ زندگی گزاری ہے ،انہوں نے مجید نظامی کی مستند پر بیٹھنے کا حق ادا کردیا ہے ۔
    سابق وزیراعلیٰ پنجاب منظور احمد وٹونے سعید آسی کی صحافتی خدمات کو سراہا ۔سابق وزیراعلیٰ نے نوازشریف کی سیاسی حکمت عملی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر نوازشریف مجید نظامی کی بات پر یقین کر لیتے تو پانامہ سے بچ جاتے۔حکمرانوں کو چاہئے تھا کہ کاروبار کو چھوڑ کر حکومت پر توجہ دیتے۔انہوں نے شکوہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ میرے بنائے گئے تعلیمی ایکٹ پر تسلسل برقرار رہتا تو آج پنجاب میں شرح خواندگی سوفیصد ہوتی۔
    سابق وزیرخارجہ میاں خورشید محمود قصوری نے سعید آسی کی کتاب”تیری بُکل دے وچ چور“میں شامل کالم ”خودکش بمبار مودی اور خورشید قصوری کا دھماکہ“ جو اُن کی لکھی گئی کتاب کے حوالے سے تھا، اس پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام کو یقین رکھنا چاہئے کہ پاکستان اور انڈیا میں جنگ نہیں ہوسکتی کیونکہ دونوں ممالک میں بات روایتی ہتھیاروں سے بہت آگے نکل چکی ہے۔ پاکستان اور ہندوستان میں امن دونوں ممالک کے حق میں ہے۔ پاکستان ،ہندوستان اور بنگلہ دیش میں 60 کروڑ سے زائد عوام غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جبکہ چین میں 60 کروڑ عوام سطح غربت سے اُٹھا لئے گئے ہیں اور چین کا مفاد اسی میں ہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں امن برقرار رہے ۔
    اختتامی کلمات پیش کرتے ہوئے ڈائریکٹر قائداعظم لائبریری ظہیر احمد بدرنے تمام احباب کی شرکت پر اظہار تشکر کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں کتاب بینی کے رحجان میں اضافہ خوش آئندہ ہے۔ 2013میں 18000قائداعظم لائبریری کے ممبرز تھے جبکہ 2018میں بڑھ کر 55000ہوچکے ہیں۔تقریب میں ، محمد اکرم، محسن سیال، اشرف جاوید، الطاف احمد، مرزا یاسین بیگ، شاہد رشید،عبدالستار عاصم، طارق امین،شہباز سعید آسی،سلمان طارق بٹ سمیت مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات نے شرکت کی ۔ تقریب کے اختتام پر سعید آسی کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں لائبریری کی جانب سے یادگاری شیلڈ بھی پیش کی گئی ۔
 

شیئر: