Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ابا جی کا آخری وقت قریب تھا،ہر چہرے پر تشکر آمیزاداسی تھی

عنبرین فیض احمد ۔ ینبع
اباجی کو بھی ابھی ہی بیمار پڑنا تھا اور وہ بھی فالج جیسا مرض۔ اباجی نے تو تفریح کا مزا ہی کرکرا کرکے رکھ دیا۔ بھئی ہم تو امریکہ سے پاکستان آئے تھے بچوں کو سیرو تفریح کروانے ، گھمانے پھرانے ، لیکن سارے پلان کا ستیانا ہوگیا۔ اب سارا سارا دن لگا¶ اسپتالوں کے چکر ، شاید نصیب میں خوار ہونا ہی لکھا ہے۔ 
اباجی پانچ وقت کے نمازی، تہجد گزار، متقی پرہیزگار ، نیکو کار ہمہ وقت عبادت میں مشغول رہنے والے ، اٹھتے بیٹھتے ،رات دن دعائیں کرتے تھے ۔ وہ بے چارے دوسروں کے محتاج ہوکر رہ گئے۔ ایسا کیوں ہوا، یہ تو اللہ کریم ہی جانتا ہے ۔اماں جی میںتو صاف صاف کہہ رہا ہوں کہ اسپتالوں کے چکر لگانامیرے بس میں نہیں۔ میں نے تو فالج کے مریضوں کو کبھی صحت یاب ہوتے نہیں دیکھا۔ 
جیسے ہی بڑے بیٹے نے بات ختم کی، منجھلے میاں شروع ہوگئے اور دو ہاتھ آگے کے مصداق کہنے لگے کہ امریکہ میں تو بڑے اچھے اچھے اولڈ ہا¶سز ہیں۔ وہاں پر ایسے مریضوں کی بڑی اچھی دیکھ بھال ہوجاتی ہے۔ نہ کروٹ دلانے کی فکر نہ گندگی صاف کرنے کی پروا۔ نہانے دھونے، کپڑے بدلوانے کا بھی کوئی چکر نہیں۔ واقعی بڑا زبردست انتظام ہوتا ہے وہاں۔ یہاں پرتو کوئی ایسا اولڈ ہا¶س نہیں ۔ کیا کوئی ہے ؟ بھئی ہماری حالت تو پتلی ہوجائے گی ابا کی خدمت کرتے کرتے۔ بہتر یہی ہے کہ انہیں کسی اولڈ ہا¶ س میں داخل کرا دیاجائے۔ اسپتال سے گھر آگئے تو کون دیکھ بھال کرے گا ، مٹی پلید ہوکر رہ جائے گی۔ اماں جی الگ جینا حرام کردیں گی۔ ویسے اماں جی آپ پیسوں کی فکر نہ کریں ، جتنی بھی ضرورت ہوگی ہم دیں گے لیکن پتہ تو چلے کہ کوئی ایسا اولڈ ہا¶س ہے بھی یا نہیں؟ 
اتنے میں تیسرے صاحبزادے جو امریکہ سے تازہ تازہ وارد ہوئے تھے، منہ ٹیڑھا کرکے ، کندھے اچکا کر بولے ، میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ، مجھے جب بھی دنیا سے اٹھائے، موبائل حالت میں ہی اٹھائے لیکن بڑی بیٹی جوا باجی کی عیادت کیلئے آئی ہوئی تھی ، اس نے کہا کہ آپ لوگ ایسا کریں کہ فی انہیں کسی اچھے اسپتال میں داخل کرا دیں۔ ان پر تو فالج کا معمولی سا حملہ ہوا ہے۔ اباجی بہتر علاج اور تیمارداری سے ان شاءاللہ، جلد صحت یاب ہو سکتے ہیں لیکن سب بیٹے ہی ابا کو اسپتال لے جانے سے کترا رہے تھے ۔ انہیں ڈر تھا کہ ایسا نہ ہو کہ اسپتال کے بھاری اخراجات ان کے گلے پڑ جائیں۔ 
اما ں جی نے جب بچوں کی یہ حالت دیکھی تو غصے سے کہنے لگیں، تم سب کا خون سفید ہوگیا ہے ۔آج تم لوگوں کیلئے پیسہ ہی سب کچھ ہے۔ رشتے ناتے سب بھلا بیٹھے ہو۔ تم لوگوں نے جو آج تک عیش و عشرت کی زندگی گزاری ہے وہ اپنے باپ کی خون پسینے کی کمائی کے باعث ہی گزاری لیکن آج جب باپ پر وقت پڑا تو تمہاری جان نکل رہی ہے۔ کس نے کہا کہ تم پیسہ خرچ کرو، اللہ کریم کا عطا فرمایا ہوا سب کچھ ہے ہمارے پاس۔وہ یہ سب کہتے ہوئے روہانسی ہوگئیں۔ تم اپنے اباجی کو اسپتال لے جاکر داخل تو کرا¶، علاج کے اخراجات میں ادا کرونگی۔ 
جب بیٹوں نے دیکھا کہ اماں کے پاس تو اچھی خاصی رقم موجود ہے، ہماری جیب سے کچھ نہیں جائے گا تو سب ہی نے پلٹا کھایا اور خیر خواہ بن گئے۔ فوری ایمبولینس منگوائی، مفلوج باپ کو ایک نامی گرامی پرائیویٹ اسپتال میں داخل کرا دیا۔ بیٹوں کو امید یہی تھی کہ اباجی چند دن کے مہمان ہیں، وراثت میں اچھی خاصی رقم ہاتھ لگے گی۔ 
اسپتا ل میں مسلسل 3ماہ رکھاگیا۔ دوا¶ں کا خرچہ الگ۔ نتیجہ یہ ہواکہ لمبا چوڑا بل بن گیا، جسے دیکھ کر سب کے ہی ہوش ا ڑ گئے۔ طے پایا کہ اب اباجی کوگھر پر رکھا جائے، علاج وہیں ہوگا۔ ابا کی اسپتال سے چھٹی کراکر گھر لے آئے۔ خدمت کیلئے ایک ملازم رکھ لیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر کی جمع پونجی ختم ہونے لگی۔ بچوں کی جیبوں سے بھی کچھ رقم نکلنے لگی۔ پہلے اماں کا ارادہ تھا کہ مکان بیچ دیں گے لیکن بچوں کا رویہ دیکھ کر مکان بیچنے کا ارادہ انہوں نے ترک کردیا۔ 
دن ، مہینے اور پھر سال گزر گیا۔ ابا جی کی حالت نہ سنبھلی۔ اب تو اٹھتے بیٹھتے سب کی زبان پریہی جملہ ہوتا کہ اللہ کریم ہمارے اباجی کی مشکل آسان فرما دے ۔پھر کچھ ایسے آثار نظر آنے لگے کہ شاید ابا جی کا آخری وقت قریب آچکا ہے۔ ہر چہرے پر تشکر آمیزاداسی تھی، کوئی رو رہا تھا، کوئی قرآن کریم پڑھ رہاتھا۔ساتھ ہی سوچ رہا تھا کہ اب اباجی کی موت کا وقت قریب آ رہا ہے، یہ مشکل آسان ہو جائے تو جائداد کا بٹوارہ ہو گا اور ہمیں ہمارا حصہ ملے گا ۔اباجی سے ہمیں ہمدردی ہے ، کیا کر سکتے ہیں مگر دلی خواہش ہے کہ جائداد کا بٹوارہ جلد ہو۔ اتنے میں بڑی بیٹی نے روتے ہوئے دعا کی کہ اے اللہ کریم !ہمارے ابا کی سایہ ہمارے سروں پر قائم و دائم رکھ۔ انہیں سلامت رکھنا، خواہ بستر پر ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ سن کر بڑی بہو کو غصہ آگیا۔ بولی دیکھو !برا نہ ماننا ، ایسی دعا نہ کرو جو سب کو پریشانی میں ڈال دے۔ بڑی بیٹی نے چڑ کر کہا تو کیا میں اپنے باپ کی موت کی دعا کروں؟ یوں ذرا سی بات بڑھتے بڑھتے اس حد تک جا پہنچی کہ گھر والوں کو نند بھاوج کا جھگڑا ختم کرانے کے لئے مداخلت کرنی پڑی ۔ انہوں نے دونوں کو علیحدہ کیا اور کافی کوششوں کے بعد صلح صفائی میں کامیابی پائی ۔
اباجی کی حالت بدستور ایک جیسی ہی تھی۔ اماں جی انہیں دیکھ کر روتی رہتیں۔ جتنی خدمت ہوسکتی تھی وہ کرتیں اور صحت کیلئے دعائیں مانگتی رہتیں۔ تینوں بیٹے یکے بعد دیگرے امریکہ واپس لوٹ گئے۔ اماں جی نے بیٹوں کی کیفیات دیکھ کر کہا کہ کوئی بات نہیں ،تم لوگ جا¶ ، میں ابھی زندہ ہوں ، شوہر کی خدمت کرسکتی ہوں اور کرونگی۔ یہ میرے جینے کا سہارا ہیں۔ تم لوگ باپ کا ساتھ نہیں دے سکتے تونہ سہی، کوئی بات نہیں لیکن میں اپنے شوہر کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی۔
پھر ایسا ہوا کہ اماں جی صبح فجر کی نماز پڑھ کر اباجی کو دوا دینے کیلئے اٹھانے لگیں تو انہوں نے آواز دیئے جانے کے باوجود آنکھیں نہیں کھولیں۔ وہ آنکھیں کیسے کھولتے، وہ تو دنیا سے رخصت ہوچکے تھے۔ 
اماں جی کو بہت رونا آیا کہ جس باپ نے ساری زندگی اپنے بچوں کیلئے محنت مشقت کی، انہیں ہر آسائش فراہم کی ، پال پوس کر اس قابل بنایا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں لیکن جب باپ پر وقت پڑا تو سگی اولاد نے ہی منہ پھیر لیا۔ بیٹوں کی کتنی بدنصیبی کہ آخری وقت میں باپ سے اتنے دور ہوگئے۔ اماں بی کو بیٹی اورداماد اپنے ساتھ گھر لے آئے کہ آج سے آپ ہمارے ساتھ رہیں گی، اپنا ہی گھر سمجھ کر۔ 
 

شیئر: