Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سسرال میں صرف گرہستی درکار تھی،اسکی تعلیم ، جہیز سب پس منظر میں چلا گیا

فرخندہ شاہد۔ریاض
مریم جاﺅ، جا کر دھلے ہوئے کپڑے سمیٹ لو ۔بارش آنے والی ہے۔ ثمینہ نے کٹی ہوئی پالک سمیٹتے ہوئے بیٹی کو آواز دی۔”اوہو! کیا مصیبت ہے، امی کل میرا ٹیسٹ ہے۔ مجھ سے نہیں سمیٹے جاتے یہ کپڑے وپڑے ،کبھی یہ کردو کبھی وہ کر دو۔ آپ کہیں تو اینٹیں بھی بنا دوں، مریم نے جھلاتے ہوئے کہا "ثمینہ نے گردن موڑ کر اسے گھورا بھی لیکن مجال ہے جو یہ لڑکی ٹس سے مس ہو جائے ۔کوئی پتھر کوٹنے کو نہیں کہاجو اتنے نخرے کر رہی ہو۔ ثمینہ کوغصہ آگیا ، لیکن وہ بھی ڈھیٹ تھی۔ بے نیازی سے کندھے اُچکائے اور پھر سے اپنی کتاب پر جھک گئی ۔
کمال ہے آج کل کی پڑھائیاں بھی انوکھی ہیں، بس کتابوں میں سر دیئے بیٹھے رہو۔ہم نے بھی تو پڑھی ہیں بارہ جماعتیں ،ساتھ ہی گھر بھی سنبھالا ۔امی کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے اور ساتھ بہن بھائی کو بھی سنبھالتے تھے۔ہمارے زمانے میں تو لڑکیاں پڑھائی کے ساتھ ساتھ ہر ہنر میں بھی طاق ہوا کرتی تھیں، سلائی کرنا، سویٹر بننا، سلمیٰ ستارے ٹانکنا غرض ہر ہنر آتا تھا اور آج کل دیکھو پڑھائی کو سر پر سوار کیاہوا ہے۔ امی نے لیکچر دینا شروع کردیا۔ مریم نے کانوں میں انگلیاں ٹھونستے ہوئے چیخ کر کہا کہ امی پلیز !اتار لاتی ہوں کپڑے، مزید لیکچر سننے سے تو اچھا تھا کہ کپڑے ہی اتار لاتی۔ 
لو جی ، اسی وقت تائی اماں بھی آگئیں۔ انہوں نے امی کے ساتھ کسی کے ہاں عیادت کے لئے جانا تھا۔ بھابی اگر کسی اور وقت چلیں تو اچھا ہو گا۔ ابھی تو میرے کئی کام باقی ہیں۔ امی نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا تو تائی جان نے ایک دم منہ میں انگلی دباتے ہوئے کہاکہ لو جی ،جوان جہان بیٹی کے ہوتے ہوئے ابھی تک تمہیں گھر کے کام کاج کی فکر ہے۔ اسے کب سکھاﺅ گی۔اب میری ملیحہ کو ہی دیکھ لو، اس عمر میں سارا گھر سنبھالا ہوا ہے ۔مجال ہے جو مجھے کسی کام کو بھی ہاتھ لگانے دیتی ہو۔ بڑی سگھڑ ہے ۔دعا ہے کہ اس کے نصیب بھی اچھے ہوں۔
چلو جی تائی جان اور امی کا ملیحہ نامہ شروع ہو گیا ۔مریم بڑبڑائی”جی ملیحہ اب جھاڑو پوچا نہیں کرے گی تو اور کیا کرے گی۔ اسے پڑھائی لکھائی سے تو خاص دلچسپی ہے نہیں۔ امی کی جرح پر اس نے ناگواری سے کہا۔ تم نے اپنی تائی جان کا سوٹ دیکھا ہے، وہ ملیحہ نے ہی سیا ہے اور کل جو اس نے کوفتے بھیجے تھے، کتنے لذیز تھے اور تمہیں ابھی تک چائے بنانی تو دور کی بات،، سوئی میں دھاگہ ڈالنا نہیں آتا، ثمینہ نے طعنے دیتے ہوئے کہا ۔مریم دانت پیستی اورپاﺅں پٹختی وہاں سے چلی گئی۔ ملیحہ کی سلیقہ مندی نے تو اس کی زندگی اجیرن کر دی تھی حالانکہ ملیحہ سے اس کی بہت اچھی دوستی تھی۔ وہ اس کی بہت پیاری کزن تھی لیکن اس وقت اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اس کا سر پھاڑ ڈالے۔ امی ہر وقت اسے ملیحہ کی سلیقہ مندی کے طعنے دیتی تھیں ۔
”امی میڑک تو اس نے جھینکتے ہوئے کیا ہے اور اب بھی تایا جان کے ڈر سے زبردستی آگے پڑھ رہی ہے کیونکہ تایا جان کو علم سے محبت ہے۔ بڑی مشکلوں سے تو وہ پاس ہوتی ہے ۔ ایسی لڑکیاں تو جھاڑو برتن اور سلائی کڑھائی جیسے امور خانہ داری ہی انجام دیں گی۔ امی میں بی ایس سی کر رہی ہوں ۔اپنے اسکول اور کالج کی ٹاپر ہوں۔ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں نمبر ون۔ آپ کو میری ان خوبیوں پر فخر نہیں ہوتا ؟اب اتنی پڑھی لکھی لڑکی ماسیوں کی طرح کام کرتے ہوئے اچھی لگے گی بھلا؟ ثمینہ نے ماتھے پر ہاتھ ماراکہ کاش اس لڑکی کو عقل آجائے۔ وہ بڑ بڑاتے ہوئے کچن کی طرف چل دی ۔
مریم کے امتحان ختم ہوئے تو ثمینہ اس کے پیچھے ہی لگ گئیں کہ اب تو پڑھائی کا بہانہ نہیں رہا۔ آج سے تم کچن میں میرے ساتھ کام کرواﺅ گی۔ اوہو! امی امتحانوں کی تھکن تو ختم ہونے دیں۔ اس نے برا سا منہ بنایا۔کچھ دن بعد ہی امی نے ملیحہ کی بات پکی ہونے کی خبر سنائی تو وہ بہت خوش ہوئی کہ واہ مزا آگیا ۔اس نے کہا کہ امی فنکشن کب ہے بڑا مزا آئے گا۔جواب ملا کہ ”دیکھو ملیحہ کا کتنی اچھی جگہ فوراً رشتہ پکا ہوگیا۔ بڑے گنوں والی بچی ہے۔ تم میں بھی کوئی ہنر ہوگا تو اچھے رشتے آئیں گے۔“ماں نے بڑی حسرت سے کہا ۔چھوڑیں امی، اچھا ہے ناں اسے ویسے بھی گھرداری کا بہت شوق ہے۔ جلدی گھرسنبھالنے لگ جائے گی اور مجھے کوئی شوق نہیں گھر ور سنبھالنے کا۔ اس نے امی کی باتوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کہا اور ملیحہ کی منگنی کی تیاریاں شروع کر دیں۔
منگنی کے کچھ دن بعد ملیحہ ،مریم سے ملنے آئی۔ وہ کافی ناراض لگ رہی تھی۔ کہاں ہوتی ہو آج کل ،ذرا جو تمہیں فرصت ہو کہ کم از کم مجھے منگنی کی مبارکباد ہی دے دو۔ اس کا منہ پھولا ہوا تھا۔ محترمہ میںمنگنی میں بذات خود شریک تھی پھر مبارکباد کیسی۔ وہ مزے سے ٹی وی پر اپنا پسندیدہ پروگرام دیکھ رہی تھی۔ تم نے میری چیزیں بھی نہیں دیکھیں ۔ملیحہ کو اس پر غصہ آرہا تھا ۔مریم نے سر اٹھا کر دیکھا اور کہا ،ہاں سویٹر پیارا ہے تمہارا، سسرال کی طرف سے ہے ناں؟ جی نہیں جناب، یہ تو میں نے خود بنایا ہے ۔اچھا! اوہو ،پلیز اب ناراض نہ ہونا مجھے یاد نہیں رہتا۔ دراصل ان چیزوں میں مجھے ذرا بھی دلچسپی نہیں ۔وہ ملیحہ کی گردن دبوچ کر کہنے لگی کہ خبردار، اب یہ انکشاف امی کے سامنے نہ کرنا ورنہ میری شامت آجائے گی۔ فوراً اون اور سلائیاں میرے ہاتھوں میں تھمادیں گی۔ ملیحہ کے منہ سے فوراً قہقہہ بلند ہوا۔ ویسے چچی جان کچھ غلط بھی نہیں کرتیں۔ تم ہو ہی بہت نکمی۔ بکو مت، اس نے آنکھیں دکھائیں۔امی کو ٹالنے کا ایک ہی راستی ہے ۔ بس مجھے کہیں اچھی سی نوکری مل جائے۔ میں نے نہیںسیکھنی کوئی گھرداری ورداری۔اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔
ماں کی لاکھ مخالفت کے باوجود مریم کو ایک اچھی جگہ نوکری مل گئی اور اس نے اپنا آفس سنبھال لیا جبکہ اسی دوران ملیحہ کی شادی کی تیاریاں بھی شروع ہو گئیں۔ ملیحہ اپنے پیا کے گھر چلی گئی ۔ زندگی کے دن اتنی تیزی سے گزرے کہ وقت کا پتہ بھی نہ چلا اور ملیحہ کی شادی کو4 مہینے ہو گئے۔ انہی دنوں ملیحہ کے سسرال سے اس کے لئے رشتہ آگیا۔ اس نے تو جی بھر کے شور شرابا کیا لیکن ملیحہ بہت خوش تھی۔اسے خوب تنگ کر رہی تھی اور کہہ رہی تھی کہ جانتی ہو میری ساس نے تو جب تمہیں میری منگنی میں دیکھا تھا، اس وقت ہی اپنے چھوٹے بیٹے کے لئے پسند کر لیا تھا لیکن اب میری شادیکی تقریب میں تو ہمارے دیور صاحب نے خود آپ کو پسند کر لیا ہے۔ ملیحہ اسے تنگ کئے جارہی تھی اور اسے اس پر شدید غصہ آرہا تھا ۔ تم سسرال میں بھی میرے ساتھ ہی ہو گی۔ توبہ ہے۔ میری جان نہیں چھوڑ نی اس نے ۔ اس نے مصنوعی غصے سے ملیحہ کو تکیہ دے مارا۔
رشتہ بہت اچھا تھا اور دیکھے بھالے لوگ تھے ۔ملیحہ بھی وہاں بے حد خوش تھی۔ اس لئے مریم کے والدین نے فورا ًہاں کر دی۔ مریم، ملیحہ سے زیادہ پڑھی لکھی تھی اور پھر ان کی مالی حیثیت بھی زیادہ مضبوط تھی۔ سو میری ہر چیز ملیحہ سے زیادہ قیمتی اور خوبصورت ہوگی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔ادھر ملیحہ یہ سوچ کر خوش ہو رہی تھی کہ اس کی پیاری سہیلی اور کزن ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی ۔
دونوں گھروں میں شادی کا ہنگامہ جاگ اٹھا۔ امی اور ابو بہت خوش تھے کہ چلو اچھا ہے، پہلے ملیحہ اس خاندان کی بہو بن گئی ۔اس سے مریم کو بہت سہارا ہو گا۔مریم اور ملیحہ نے شادی کی شاپنگ تقریبا ًساتھ مل کر کی۔ ملیحہ نے سسرال کے کاموں کے ساتھ ساتھ اس کا ہاتھ بھی بٹایا ۔امی بے چاری اسے سمجھا تی جاتیں کہ بیٹا ملیحہ سے سیکھو لیکن وہ امی کی باتوں کو نظر انداز کر دیتی۔ اس کے اکثر خیالات امی کے خیالات سے مختلف ہوتے تھے۔سسرال میں اس کا والہانہ استقبال ہوا ۔ ابتدائی چند روز تو دعوتوں کی نذر ہو گئے۔ روز صبح سویرے حاشر کے ساتھ مختلف جگہوں پر وقت گزارنا اچھا لگ رہا تھا۔ وہ بہت خوش تھی۔ حاشر ایک محبت کرنے والا سلجھا ہوا شوہر ثابت ہوا تھا لیکن آج صبح سے وہ پریشان تھی۔ آج اسے رسم کے مطابق میٹھا بنانا تھا وہ اندر ہی اندر خوف زدہ تھی کہ اب کیا ہو گا مگر بھلا ہو اس کی ساس کا ،میٹھے میں محض اس کا ہاتھ ہی لگوایا۔چلو یہ ٹینشن بھی ختم ،امی ایسے ہی مجھے ڈرایا کرتی تھیں ۔یہاں ہر کام کے لئے نوکر تو موجود ہیں اور کھانا پکانے کے لئے ملیحہ جو ہے تو مجھے ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے اور اگر حاشر نے مجھے کھانا پکانے کو کہا تو حاشر سے کہوں گی کہ ایک کھانا پکانے والی بھی رکھ لے ۔اس نے بڑی بے پروائی سے سوچالیکن اس کی نوبت ہی نہ آسکی۔ رات کے کھانے کی میز پر اس کی ساس نے اسے اگلے روز نا شتہ بنانے کے لئے کہا۔ اس کی بڑی نند بھی اپنے شوہر کے ہمراہ موجود تھی ۔بھابی پراٹھے بالکل ملیحہ بھابی کے پراٹھوں جیسے ہونے چاہئیں، خستہ اور بل دار ۔ واقعی کیا مزے کے پراٹھے بناتی ہیں ہماری ملیحہ بھابی، بندہ دو کی جگہ چار کھا جائے۔
ہاں بھئی! ہماری یہ بہو تو ہر ہنر میں طاق ہے۔ بہت سلیقہ مند بچی ہے۔ آتے ہی اس نے سارا گھر سنبھال لیا ۔جی ہاںاور آپ تو بس تخت پر بیٹھ کر حکم چلاتی ہیں ،سسر نے اپنی بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تو سب مسکرانے لگے ۔ انہوں نے بھی جھٹ جواب دیا کہ بھئی اسی لئے تو مریم کو بیاہ کر لائی ہوں کہ ملیحہ کی چچا زاد ہے۔ اس کی ساس نے اصل وجہ بتائی اور سب نے قہقہہ لگادیا۔ ہاں تو بھابی بھی توان سے کم نہیں ہوں گی۔ چھوٹی نند نے اپنے انداز میں حوصلہ افزائی کی۔ ملیحہ ملیحہ ملیحہ وہ آج پھر اس کے مدمقابل کھڑی ہو گئی تھی۔ اس کے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ وہ خاموش بیٹھی سب کی شکلیں دیکھ رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جادو کی چھڑی گھما کر اس منظر سے غائب ہو جائے۔ اس کی اعلیٰ تعلیم اس کا جہیز سب جیسے پس منظر میں چلا گیا۔ وہاں اگر کچھ تھا تو وہ ملیحہ کی سلیقہ شعا ری، ہنر مندی ،اس کا سگھڑاپا اور ان سب کاموں میں وہ”صفر“ تھی اور اسے لگ رہا تھا کہ سسرال میں اس کی حیثیت بھی صفر ہونے والی ہے آج اسے رہ رہ کر امی کی ایک ایک بات یاد آرہی تھی کہ پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کو گھرگرہستی بھی ضرور سیکھنی چاہئے۔ سسرال میں تو یہی درکار ہوتی ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ امور خانی داری میں بھی ماہر ہونا چاہئے لیکن امی نے اسے جب بھی یہ بات سمجھائی اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ جب سر پر آئے گی تو خود ہی سیکھ جاﺅں گی۔ وہ انہی پچھتاووں میں گم سم بیٹھی ہوئی تھی۔ اسے پتہ بھی نہ چلا کہ کب سب کھانے کی میز سے اٹھ کر چلے گئے۔ وہ تو اپنی سوچوں کے سمندر میں ایسی غرق تھی کہ اچانک اسے اپنے کندھے پر نرم ہاتھ محسوس ہوا اور وہ چونک گئی ۔دیکھا تو ملیحہ چہرے پرخوبصورت مسکراہٹ سجائے کھڑی تھی اور کہہ رہی تھی کہ ” گھبراﺅ نہیں مریم، میں ہوں ناں۔ میں تمہاری مدد کروں گی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور آہستہ آہستہ میں تمہیں سب سکھا دوں گی۔
اسے زندگی میں پہلی بار اسے ایسا محسوس ہوا جیسے ملیحہ نے اسے گہری کھائی میں گرتے گرتے بچالیا۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے۔ وہ ملیحہ کے گلے لگ کر سسک سسک کر رونے لگی ۔

شیئر: