Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بچھڑنا بھی ضروری تھا

’’مرد کو ہمیشہ کس کر رکھنا چاہیے‘‘خورشید بیگم ،منزہ کے کان بھرتی رہتیں اور پھر۔۔۔
ارے اپنا حق لڑ کر لے ، ضرور اپنی ماں کوپیسے دیتا ہو گا؟ تو بہت سیدھی ہے ، میری طرح بھولی، تُجھے کیا پتہ؟؟اس کی ماں دیکھنے میں معصوم اور نیک لگتی ہے اندر سے بڑی گُھنی ہے
مسز زاہدہ  قمر۔ جدہ
(نئے پڑھنے والے یہاں سے شروع کریں!!!)
یوسف صاحب ایک خوشحال بزنس مین ہیں ۔ اچانک وہ بیمار ہو جاتے ہیں جس کا فائدہ ان کا چھوٹا بھائی آصف اُٹھانا چاہتا ہے  جو کے ان کے ساتھ کاروبار میں شریک ہے۔ 
مشرف سرکش اور ابن الوقت دوستوں کے حال میں پھنسا ہوا نادان ڈاکٹر ہے جو چھوٹے سے سرکاری اسپتال میں  ملازمت کرتا ہے وہ والد کی رضا مندی کے خلاف ایک بدنام زمانہ کچی آبادی میں کلینک کھول لیتا ہے جہاں اس کی ملاقات تتلی سے ہوتی ہے جو کہ مختلف تقریبات میں اپنے خاندان کے ساتھ فن کا مظاہرہ کرکے گُزر اوقات کرتی ہے۔ وہ ایک لالچی اور بدکردار خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔
منزہ اور دلشاد کی لو میرج سے دلشاد کا پورا خاندان منزہ سے متنفر  ہے سوائے فرجاد کے جو دلشاد کا بڑا بھائی ہے۔ منزہ نے فرجاد کو پوری طرح اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے اس کی چالبازیوں اور بدفطرتی کے باعث سب اس سے تنگ ہیں۔
مشرف تتلی کی ماں کے اصرار پر تتلی کا علاج کرنے اس کے گھر جاتا ہے تو تتلی بہت لگاوٹ اور اپنائیت کا مظاہرہ کرتی ہے وہیں مشرف کی ماں اسے کال کر کے اسپتال آنے کو کہتی ہیں مشرف گھبرا کر اسپتال روانہ ہو تا ہے۔ وہاں پہنچ کر  جب وہ گھر والو ں  کے پریشان چہرے دیکھتا ہے اس کا دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ اسپتال پُہنچ کر مشرف پر یہ روح فرسا  انکشاف ہوتا ہے کہ یوسف صاحب کو کینسر ہے۔
ادھر منزہ سے جھگڑے کے بعد خورشید بیگم  کے گھر کا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب آگے پڑھئے!!!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   
(قسط   13)
صبح بہت بوجھل اور تنائو کا ما حول اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھی ۔ منزہ کا منہ پھولا ہوا تھا جبکہ دلشاد بھی بگڑے تیوروں  کے ساتھ بیٹھا تھا۔ نویرہ جو کہ اکثر میکے سے اپنے گھر چلی جاتی تھی  رات کو پھر سے ماں کے گھر ٹھہر گئی تھی۔ اصل میں طلاق کے بعد وہ میکے آ تو گئی تھی مگر اپنا گھر چھوڑنے کے لئے تیار نہیںتھی۔ یہ گھر اس کے شوہر وسیم نے بڑے چائو سے بنوایا تھا۔ مگر بے چارے کو خود رہنا نصیب نہیں ہوا دِن رات کے جھگڑوں اور نویرہ کے نفسیاتی پن اور شکی فطرت نے پہلے تو اسے اپنے والدین سے علیحدگی  پر مجبور کیا ۔اس کا خیال تھا کہ سُسرال والوں سے الگ ہو کر شاید نویرہ کے رویئے میںتبدیلی آجائے۔ اُسے سُسرال والوں سے شکایتیں ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ الگ گھر میں وہ اپنی بچیوں کے ساتھ خوش رہ سکیں مگر یہ خام خیالی تھی نویرہ الگ ہو کر اور زیادہ سخت مزاج اور جھگڑالو ہو گئی تھی۔ اسے اپنا گھر چھوٹا لگتا ، ہر روز نت نئی فرمائش کرنا اور پھر مسلسل زوردیکر لڑنا اس کا معمول بن گیا۔ وسیم اسے بہت سمجھاتا ’’کہ آہستہ آہستہ سب کچھ آ جائے گا ۔ تھوڑا صبر کرو‘‘ مگر وہ کچھ سُننے پر تیار نہ تھی۔ پھر خورشید بیگم مسلسل اس کے کان بھر تی رہتیں ’’مرد کو ہمیشہ کس کر رکھنا چاہیئے‘‘ وہ ہمیشہ کہتیں’’اگر ڈھیل چھوڑ دی تو وہ تمھارے قابو سے نکل جائے گا ۔ اسے ہر وقت گھر کی ذمہ داریوں میں اُلجھائے رکھنا ضروری ہے‘‘۔
کبھی اس طرح ورغلاتیں’’بیٹی! تمھارے گھر میں ساس نہیں ہے گھر کے کام کاج کے لئے فوراً ماسی رکھ لو ۔ کیا نوکر انیوں والے کام کرتی رہتی ہو‘‘ یا پھر یوں زہر افشانی کرتیں۔ ’’ائے ہئے ! صرف ایک کمرے میں  اے سی ہے باقی کمرے کیسی آگ اُگل رہے رہیں۔تمھارے گھر تو آنے کو دل نہیں کرتا میری بچی! تو کس حال میں ہے ؟ مجھ سے تیری بے کسی دیکھی نہیں جاتی۔ میں بے عقل اور بُدھو عورت ، اپنی پھول سی بیٹی کیسے ناقدرے کے حوالے کر دی‘‘ ، ان کی بات سُن کر نویرہ کی آنکھیں بھر آتیں۔
’’دیکھ لیجئے امی! میں کیسے گُزارہ کر رہی ہوں ایسے بے حس انسان کے ساتھ، ہر وقت جھوٹ بولتے ہیں کہ سب کچھ ہو جائے گا۔ ابھی گھر لیا پھر چیزیں بھی آ جائیں گی‘‘  اس نے شوہر کی نقل اُتاری۔’’مگر آج ایک سال ہونے کو آیا، سب کچھ ویسا ہی ہے نہ تو نئی گاڑی لی، نہ نیا فرنیچر آیا، مجھے تو لگتا ہے میں ابھی تک سُسرال میں رہ رہی ہوں ، گھر خرید کر سمجھتے ہیں کہ بہت بڑا تیر مار لیا ‘‘۔اس نے طوطا چشمی کی انتہا کر دی ۔’’تو بھی تو ناں !! ارے اپنا حق لڑ کر لے ، ضرور اپنی ماں کوپیسے دیتا ہو گا؟ تو بہت سیدھی ہے ، میری طرح بھولی، تُجھے کیا پتہ؟؟اس کی ماں دیکھنے میں معصوم اور نیک لگتی ہے اندر سے بڑی گُھنی ہے وہ سب پیسے لے لیتی ہو گی۔ تو لڑ، ذرا سختی پکڑ، یہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکلنے ولانہیں‘‘۔
انہوں نے بڑی سفاکی سے وسیم کی شریف النفس ماں پر الزام لگایا۔ 
’’امی ! میں لڑتی ہوں ، ذرا غُصہ کرتی ہوں تو چُپ ہو جاتے ہیں، زیادہ غُصہ دکھائوں توگھر سے باہر چلے جاتے ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کیا کروں؟‘‘ وہ اپنی نافرمانی اور جھگڑالو فطرت کو بڑی چالاکی سے مظلومیت اور ذہنی انتشار بنا کر پیش کرتی اور خورشید بیگم رہ رہ کر ٹھنڈی آہیں بھرا کر تیں۔
آخر ایک دِن وہ ہوا جس کا کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ نویرہ نے اپنے گھر والو ں کی حسبِ معمول دعوت کی تھی۔ وہ ہر دوسرے تیسرے روز اپنے گھر  والوں کو دعوت پر بُلاتی اور رات گئے وہ لوگ ہلڑ بازی کر کے رُخصت ہوتے۔ اس کے تینوں بھائی وسیم کا خوب خوب مذاق اُڑاتے، خوب کھاتے اور باقی کھانا پیک کرواکر گھر لے آتے ۔ اس دِن بھی ایسا ہی ہوا ۔ وسیم آفس گیا مگر رات تک نہیں لوٹا، نویرہ کے گھر والو ں نے اس کا انتظار کئے بغیر کھانا کھایا اور گھر میں چائے کافی اور ڈرائی فروٹ کے دور چلنے لگے۔ سب خوش تھے بس وسیم کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ ہوتا تو اس کا مذاق اُڑانے اور اس پر طنز کرنے کا مزا ہی اور ہوتا۔ اس کی برداشت کو اس کا احمقانہ پن اور دبوہونے کا لیبل لگا دیا جاتا۔
کافی رات  گُزر گئی مگر وسیم نہیں آیا۔ نویرہ نے غُصے میں آفس فون کر دیا۔ معلوم ہوا کہ وہ کافی دیر پہلے ہی آفس سے نکل گیا۔ نویرہ کا غُصے سے پارہ آسمان تک پُہنچا ہوا تھا۔ اس پر گھر والو ں کے ریمارکس۔۔۔۔’’دیکھا!! ہمیں دیکھ کر خوش نہیں ہوتا اس لئے تو سیر و تفریح کو نکل گیا‘‘۔
’’ہاں بھئی!!ہم کونسا اس کے سگے ہیں جبھی تو اپنی ماں کے گھر چلا گیا ہو گا وغیرہ وغیرہ‘‘۔ نویرہ نے تپ کر ساس کو فون ملایا ارادہ تھا کہ بے نقط سُنائے گی، مگر جب ان سے بات ہوئی تو وہ بُری طرح ہول گئیں۔ ’’اب تک گھر نہیں آیا وسیم! بہو! زرا اس کے دوستوں کو فون کرو، کہاں رہ گیا؟َ؟ اللہ رحم کرے، انشاء اللہ ٹریفک میں پھنس گیا ہو گا ، بس آرہا ہو گا؟ ‘‘،وہ بے چاری پریشانی میں بے ربط بول رہی تھیں۔ 
نویرہ کو پتہ تھا وہ  جھوٹ نہیںبولتیں۔  وسیم واقعی ان کی طرف نہیں گیا  تھا تو پھر کہاں تھا ؟  اس کو پریشانی نے آگھیرا، اور پھر یہ سوال دِنوں اور ہفتوں پر محیط ہو گیا کہ اچانک وسیم کی طرف سے طلاق نامے کی رجسٹری موصول ہوئی، گویا زندگی کے ٹھہرے ہوئے پانی میں تلاطم سا برپا ہو گیا۔ نویرہ کے گھر والوں نے وسیم کے پورے خاندان کا جینا حرام کر دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ وسیم کو اس کے گھر والو ںنے چُھپایا ہوا ہے مگر باوجود ہر حربہ آزمانے اور تلاش و بسیار کے وسیم کا پتہ نہیں چل سکا۔ وقت گُزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تلاش اور غُصہ میں بھی کمی آتی گئی۔ نویرہ تھوڑے دِن میکے میں رہ کر کبھی میکے اور کبھی اپنے گھر کا سفر کرتی رہی او ربیٹیوں کو بھی باپ کے بغیر رہنے کی عادت ہو گئی ، انجان لوگوں  کو یہی بتایا جاتا کہ وسیم کا انتقال ہو گیا ہے اور نویرہ بیوہ ہے۔ نویرہ اور اس کے گھر والے وسیم کی خودساختہ علالت اور موت کا احوال اتنی روانی سے اور بلا جھجک سُناتے کہ کسی کو شک بھی نہ گُزرتا۔
(باقی آئندہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭
 
 

شیئر: