Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندوستانی اپوزیشن متحد کیوں نہیں؟

***سید اجمل حسین ۔ دہلی***
نوٹ بندش سے آسام کے نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی)تنازع تک کم و بیش ہر ہندوستانی متاثر رہا ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ نوٹ بندش سے بیک وقت اندرون ملک کے تما م شہری ،غیر اقامتی او ر مستقل رہائش کا درجہ رکھنے والے ہند نژاد غیر ملکی لوگ  فوری طور پر متاثر ہوئے تھے جبکہ این آر سی سے صرف اندرون ملک کے لوگ مرحلہ وار یا باالفاظ دیگر بتدریج متاثر ہوں گے۔
آسام کے بعد اب دیگر ریاستوں حتیٰ کہ  قومی دارلخلافہ میں نیشنل  رجسٹر آف سٹیزنز کی فہرست تیار کرنے کا مطالبہ شروع ہو گیا ہے لیکن وزیر اعظم نریندرمودی کی قیادت میں2014ء میں  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )کی حکومت  کے قیام سے اب تک جتنے بھی معاملات پر حزب اختلاف متحد یا ہم آہنگ نظر آئی ہے  وہ کم و بیش وہ  معاملات ہیں جن سے  ان کے نوٹ بینک یا ووٹ بینک پر ڈاکہ پڑ رہا  ہو۔7نومبر2016 ء کو سکہ رائج الوقت (ایک ہزار اور پانچ سو کے نوٹ) کو غیر مروجہ یا غیر قانونی قرار دینے کے فیصلہ کے خلاف کانگریس نے اس لئے زور شور سے حصہ لیا کیونکہ’’ لاکھوں کا ساون جائے‘‘ کے  مترادف مودی کی ایک جنبش لب سے کانگریس کی  وہ تجوری لرزگئی تھی جس کے حوالے سے کسی  دور میں کانگریس کے خازن سیتا رام کیسری کہا کرتے تھے کہ ’’ کھاتہ نہ بہی، جو چاچا کیسری کہیں  وہی سہی ۔
ترنمول کانگریس نے اس احتجاج میں کانگریس کا کھل کر اور  زور شور سے  اس لئے ساتھ دیا کیونکہ بنگال میں حکمراں جماعت ہونے کے ناطے  اس کے پاس بھی  ہزار کے نوٹوں کی شکل میں خزانے کی کوئی کمی نہیںتھی لیکن جہاں تک اس  مدت میں اٹھائے جانے معاملات خاص طور پر  ایس سی /ایس ٹی ترمیمی  بل،طلاق  ثلاثہ بل   اور  شہریت  ترمیمی بل کا ہے  تو اس میں بھی  حزب اختلاف کی  جماعتوں میں صرف وہ جماعتیں یا جماعت مخالفت یا موافقت میں پیش پیش  نظر آئیں جس کی  مخالفت  یا موافقت سے ان کے  ووٹ بینک میں اضافہ  ہوتا نظر آرہا ہو   اور اس   ووٹ بینک کو   اور بھی  مضبوط کرنے کے لیے کچھ پارٹیوں نے  تو ہاتھ پیر کا  بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کیا جیسا کہ 1998میں  ترنمول کانگر یس کی  سربراہ  ممتا بنرجی نے  خواتین بل کی مخالفت کرنے والے سماج وادی پارٹی کے ایک ممبر پارلیمنٹ کو چاہ ایوان سے گریبان پکڑ کر کھینچتے  ہوئے لاکر  تماشہ کیا تھا۔شہریت کے قانون میں ترمیم کے لیے بل پیش ہوا تو اس کی ہر پارٹی نے خوا ہ صوبائی ہو یا قومی اپنے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے مخالفت کی۔ کانگریس، ترنمول کانگریس اور یہاں تک کہ این ڈی اے کی اتحادی بہارکی نتیش کمارکی پارٹی جے ڈی یو نے بھی اس لیے مخالفت کی اس سے  وہ مسلمانوں کا دل جیت کر  اپنا ووٹ بینک  ڈانواڈول نہیں ہونے دے گی۔ اسی طرح  بی جے پی کی  حلیف  جماعت آسام گن پریشد نے دھمکی  دے دی کہ اگر یہ بل منظور کیا گیا تو  وہ مودی قیادت والی مخلوط حکومت سے ناتہ توڑ کر حکومت سے باہر ہو جائے گی  کیونکہ اس بل کی مخالفت کرنے والی پارٹیوں کانگریس، ترنمول کانگریس اور جے ڈی یو کا مطمح نظر یہ ہے کہ اگر یہ بل منظور ہو گیا تو آسام سے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ملک بدر کر دی جائے گی اور عام اور صوبائی انتخابات میں اس کے مضر اثرات قومی سطح پر کانگریس پر اور صوبائی سطح پر بالترتیب بنگال اور بہار میں ترنمول کانگریس اور جے ڈی یو پر مرتب ہوں گے۔
آسام گن پریشد اس لئے دھمکی دے رہی تھی کیونکہ اس کے قانون بن جانے سے آسام میں ہندو بنگلہ دیشیوں ،افغان سکھوں ، بودھوں ،جینیوں،پارسیوںاور  عیسائیوں کی  تعداد بڑھ جائے گی اور مقامی آسامی آبادی سکڑ جائے گی جس سے  یقینا اس کے امکانات متاثر ہوں گے۔جب این آر سی کے  خلاف حزب اختلاف کی ان پارٹیوں  قصر صدارت(راشٹر پتی بھون) کا  دروازہ کھٹکھٹانے کا  فیصلہ کیا  تو ابتدا میں کانگریس اس میں شامل ہونے کو تیار نہیں تھی کیونکہ  وہ خود کو  چور محسوس کر رہی تھی۔ اس کا خود کو  چور محسوس کرنا  درست بھی تھا کیونکہ آسام میں غیر ملکیوں کی  شناخت کے لیے 1971کو   بنیادی سال بنانے کا آل آسام اسٹوڈنٹس یونین کے  ساتھ 1985میں معاہدہ  وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ہی کیا تھا لیکن مخالفت برائے مخالفت کانگریس کو ان پارٹیوں کے ساتھ صدر جمہوریہ سے ملنے  جانا ہی پڑا جو این آر سی معاملہ میں صد ر کی مداخلت چاہتی تھیںلیکن کوئی نہیں جانتا کہ  صدر سے  ان پارٹیوں نے  کیا  فریاد کی لیکن اتنا  ضرور ہے کہ ان میں سے کسی پارٹی نے لفظ’’مسلمان‘‘ کو  نشانہ بنائے جانے کی بات نہیں کی۔ صرف یہی کہا کہ صدراپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے  یہ بات یقینی بنائیں کہ ایک بھی ہندوستانی شہری کانام حذف نہیں کیا جائے گا۔ سب پارٹیاں بادل نخواستہ  صدر سے ملنے گئی تھیں ۔ حزب اختلاف کی  ان پارٹیوں پر اگر یہ دباؤ ڈالا جاتا کہ  وہ لفظ ’’مسلمان‘‘ خاص  طور پر استعال کریں تو یہ پارٹیاں کسی طور بھی ہم آہنگ نہیں ہو سکتی تھیں کیونکہ انہیں ووٹروں میں یہ پیغام بھی دینا ہے کہ وہ مسلم نوازی  یا مسلمانوں  کو خوش کرنے کی پالیسی کو خیرباد کہہ چکی ہیں اور اب  وہ ہندوؤں کے  مفاد داؤ پر لگا کر مسلمانوں کو ترجیح نہیں دیں گی۔  ویسے بھی مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو حز ب اختلاف تحریک عدم اعتماد میں اور نہ ہی  راجیہ سبھا کے نائب چیئرمین کے عہدے کے الیکشن میں ’’ مودی کی بی جے پی‘‘ کے  خلاف متحد ہو سکی اور  نہ ہی 2019کے عام انتخابات میں یہ ممکن نظر آرہا ہے۔
 

شیئر: