Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلام دین رحمت ہے

 اگر آپ کی اہلیہ بیمار ہیں، ولادت متوقع ہے یا کسی دعوت کا اہتمام ہو رہا ہے تو آپ آگے بڑھ کر اس کے ساتھ تعاون کر دیتے ہیں تو یہ اللہ کے نبی کی سنت ہے
 
* * * عبدالمالک مجاہد۔ ریاض* * *
 جولائی 2018 کے دوسرے ہفتے میں ایک مرتبہ پھر مکہ مکرمہ جانے اور عمرہ کی سعادت حاصل ہو گئی۔حرم شریف میں طواف ’ نمازیں اور قرآن پاک کی تلاوت کا اپنا ہی لطف ہے۔ میں ایک دن تلاوت کر رہا تھا کہ اس آیت پر نگاہیں ٹک گئیں:
    { إِذَا جَائَ کَ الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِآیَاتِنَا فَقُلْ سَلاَمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلَی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ}
    ’’میرے حبیب !جب آ پکے پاس ہماری آیات پر ایمان رکھنے والے آئیں تو ان سے کہیں تم پر سلامتی ہو۔ تمہارے رب نے اپنے اوپر رحمت لازم کر لی ہے۔‘‘
    میں کتنی ہی دیر تک اس آیت پر غور و فکر کرتا رہا۔ کہ اللہ رب العزت نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے:
    { أَنَّہُ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوئً ا بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِہِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّہُ غَفُورٌ رَحِیمٌ }(الأنعام:54)
    ’’ تم میں سے کوئی شخص لا علمی میں کوئی برا کام کر بیٹھے، پھر اس کے بعد وہ توبہ کر لے اور اپنی اصلاح کر لے تو یقینا وہ معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
    حرم مکی میں ہر طرف مسکراتے چمکتے چہرے، مختلف زبانوں، رنگوں اور نسلوں کے لوگ اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے، اپنے گناہوں کو بخشوانے کے لئے اس کے دروازے پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ کوئی نوافل ادا کر رہا ہے، کوئی قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہے۔ قرآن پاک کی آیات پر غور و فکر کر رہا ہے۔ جب انسان امید و رجاء کی کیفیت میں ہو تو ایسے عالم میں اگر کسی کو خوشخبری ملے اور وہ بھی قرآن پاک سے، بڑی خوبصورت نوید کہ خوش ہو جاؤ تم جس کے گھر آئے ہو وہ سب سے زیادہ سخی اور مہربان ہے۔ اس کی شان یہ ہے کہ اس نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔ ایسی خوشخبریاں تازہ ہوا کے جھونکوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہیں۔ میں کتنی ہی دیر تک اس آیت کو پڑھتا رہا، دہراتا رہا اس کے معانی ومطالب پر غور و فکر کرتا رہا۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتا رہا کہ وہ امت اسلامیہ پر اپنی رحمتوں اور کرم نوازیوں کی برکھا برساتا رہے اور ہمیں بھی انہی خوش نصیبوں میں سے کر دے جن کو وہ اپنی رحمتوں سے ڈھانپ لیتا ہے۔
    قارئین کرام! ہم کتنے خوش نصیب ہیں کہ ہم اس ذات کو اپنا رب، اپنا الٰہ ، اپنا مشکل کشا مانتے ہیں جس کی صفت ارحم الراحمین ہے۔ جو رحمان الدنیا والآخرۃ ہے۔ میں کبھی کبھار نماز کے لیے اللہ کے حضور کھڑا ہوتا ہوں تو دل میں تصور کرتا ہوں ، اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوتا ہوں، اپنے آپ سے کہتا ہوں : عبدالمالک! تم کتنے خوش قسمت ہو کہ تم اس رب کی عبادت کے لیے کھڑے ہو جو رب السماوات والارض ہے جو غفور رحیم ہے۔ پھر میں سوچنے لگ جاتا ہوں کہ میرے پاس کئی لوگ ہفتہ، 15 دن یا مہینہ بعد دفتر آتے ہیں۔ ہاتھ ملاتے ہیں، تھوڑی دیر بیٹھتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں ،گپ شپ لگانے کے بعد چل دیتے ہیں ۔ کبھی کبھار کوئی کتاب یا چیز مانگتے ہیں تو میں فورًا کہتا ہوں اسے دے دیں۔ یہ ہمارا دوست ہے ،ارے یہ تو ہمارے پاس آتارہتا ہے۔ سال میں کتنی مرتبہ محض سلام کرنے یا ملاقات کے لیے آتا ہے۔ اگر ہمیں کوئی ہدیہ ملے تو ایسے شخص کا حصہ رکھتے ہیں اسے بھولتے نہیں بلکہ اس کی عدم موجودگی میں کہتے ہیں : یار! فلاں شخص کتنے دنوں سے نہیں آیا۔ اس کا حال کیا ہے؟ اسے فون کرنا چاہیے، اس کی خیریت دریافت کرنی چاہیے۔
    قارئین کرام! ذرا تصور کریں کہ ایک ایسی ذات جس کی بارگاہ میں الحمدللہ! ہم دن میں 5 مرتبہ جاتے ہیں۔ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ ذات پاک جو اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، ان سے شفقت کرتا ہے۔ معاف کرتا اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ۔ جو معافی دے کر خوش ہوتا ہے جس کی صفت رحمان اور رحیم ہے تو پھر ہم کیوں نہ اس سے عمدہ گمان رکھیں اور اس بات کا یقین رکھیں کہ وہ ہمیں جہنم میں نہیں پھینکے گا۔
    قرآن کریم کے 5ویں پارے کی آخری آیت بھی قابل غور ہے:    {مَا یَفْعَلُ اللَّہُ بِعَذَابِکُمْ إِنْ شَکَرْتُمْ وَآمَنْتُمْ وَکَانَ اللَّہُ شَاکِرًا عَلِیمًا}  (النساء:148)
    ’’اگر تم لوگ شکرگزاری کرو اور خلوص نیت سے ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا، اللہ تعالیٰ بڑا قدر دان اور سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
    قارئین کرام! ہماری خوش قسمتی ہے کہ اگر ہمارا رب رحیم و کریم ہے تو ہمارے پیارے نبی کریمبھی اپنی امت پر نہایت مہربان اور شفقت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں ہمیں خوشخبری دی:{ وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِلْعَالَمِینَ} ’’ ہم تو آ پ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘ وہ اپنی امت کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں ، عزیز و اقارب، اپنی اولاد کے ساتھ نہایت محبت کرنے والے تھے۔ وہ پیارے نبی جنہوں نے پوری زندگی نہ عورت پر ہاتھ اٹھایا نہ کبھی غلام یا بچے کو مارا ۔ اپنے پیارے رسولکی اقتداء میں ، ان کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی اولاد کے ساتھ محبت کرتا ہے تو وہ باپ اپنی اولاد میں نہایت محبوب ہوتا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بعض باپ اپنی اولاد کے ساتھ غیر معمولی محبت کرتے ہیں۔ یاد رکھئے ایسا باپ اس دنیا کا سب سے زیادہ سعادت مند والد ہے۔ اس کی اولاد اس سے بے حد محبت کرتی ہے۔ ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اس کی خدمت کرتے ہیں۔
    اللہ کے رسولاپنے گھر والوں سے اپنے اہل و عیال سے بے حد محبت کرتے تھے۔ ان کا ہر معاملے میں خوب خیال رکھتے تھے۔ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ آپ کے بیٹے ابراہیم مدینہ کے اطراف میں ایک لوہار کی بیوی کے پاس تھے۔ وہ انہیں دودھ پلانے کا فریضہ سر انجام دیتی تھی۔ یہ جگہ مسجد نبوی سے جنوب میں مسجد قباء کے گرد و نواح میں بنتی ہے۔ اب دیکھئے کہ اللہ کے رسولجو کائنات کی سب سے مصروف ترین شخصیت تھے، سارے کام چھوڑ کر اپنے بیٹے سے ملنے کے اس لوہار کے گھر تشریف لے جاتے۔ بچے کو گود میں لیتے، اس کو چومتے، پیار کرتے اور پھر واپس اپنی مسجد تشریف لے آتے ۔ اب آپ اس طرز عمل کو کیا نام دیں گے؟ کیا یہ اپنے اہل و عیال اپنے گھر والوں کے ساتھ محبت ، پیار اور اعلیٰ سلوک نہیں کہ آپ سارے کام چھوڑ کر اپنے بیٹے سے پیار کرنے کے لیے ایک لمبا سفر طے فرماتے۔
    ام المؤمنین سیدہ عائشہؓسے پوچھا گیا کہ اللہ کے رسول اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ کیسے ہوتے تھے؟ مراد یہ تھی کہ آپ گھر میں کیا کرتے تھے؟ گھر والوں کے ساتھ کیسا سلوک کرتے تھے؟ جواب میں سیدہ نے فرمایا: آپ اپنے اہل خانہ کی خدمت میں لگے رہتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو تے۔
    ہمارے معاشرے میں اگر کوئی شخص گھر کے کام کاج کرتا ہے۔ اپنی بیوی کے ساتھ گھر کی صفائی یا کھانا بنانے میں تعاون کرتا ہے تو اس کے دوست یار اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ اسے زن مرید جیسے القابات دیے جاتے ہیں۔ اس بات کو نہ بھولیے کہ اگر آپ کی اہلیہ بیمار ہیں۔ بچے کی ولادت متوقع ہے یا کسی بڑی دعوت کا اہتمام ہو رہا ہے تو آپ آگے بڑھ کر اس کے ساتھ تعاون کر دیتے ہیں، اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں تو یہ تعاون اللہ کے نبی کی سنت ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی گھر والوں کے ساتھ رحمت کا مظہر ہے۔
    اللہ کے رسول سخت مزاج یا گھر والوں کو تنگ کرنے والے، انہیں طعنہ دینے والے نہیں تھے بلکہ کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ آپ اپنے ذاتی کام خود کرلیتے تھے۔
    بعض لوگ گھر کے باہر تو بڑے مقبول ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی تعریفیں بیان کرتے تھکتے نہیں، مگر جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے چہرے پر غصے کے آثارہیں، برتن پھینک رہے ہیں۔ بیوی بچوں، نوکروں کو گالیاں دے رہے ہیں،برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ گھر والے ڈر کر بیٹھ جاتے ہیں۔ گھر کے افراد ایسے باپوں کے لیے یہی دعا کرتے ہیں کہ بہتر ہے وہ گھر میں داخل نہ ہی ہوں۔ اللہ کے رسولبعض اوقات اپنے گھر رات کو تاخیر سے تشریف لاتے۔ اگر اہل خانہ سو چکے ہوتے تو انہیں جگانا مناسب نہ سمجھتے۔ گھر میں جو تھوڑا بہت کھاناہوتا اسے خود ہی تناول فرما لیتے۔ آپ چند لقمے ہی کھایا کرتے تھے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ آپ گھر والوں پر ناراض ہو رہے ہوںکہ تم نے میرا انتظار کیوں نہیں کیا، کیوں سو گئے ہو۔ ہم نے ایسے مرد حضرات کو بھی دیکھا ہے جو اپنی بیوی کی کھڑے کھڑے اس لیے بے عزتی کر دیتے ہیں کہ اس نے دروازے کی کنڈی کھولنے میں ذرا سی تاخیر کیوں کر دی ؟ یا سالن میں نمک یا مرچ کیوں زیادہ ہے؟ سبحان اللہ! اسے میں رحمت کا نام کیوں نہ دوں کہ اللہ کے رسولنے کبھی کھانے میں نقص نہیں نکالا۔ اگر کھانا آپ کی مرضی کا نہیں تو بھی اس پر نکتہ چینی نہیں کی۔
    ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ اگر کپڑے استری نہیں ہوئے ہیں تو گھر میں عذاب آ جاتا ہے۔ بیچاری بیوی سہمی پھرتی ہے۔ اگر بٹن ٹوٹ گیا ہے اور بیوی اسے تبدیل نہیں کر سکی، اگر کپڑے کو پیوند لگنے والا اور بیوی سے تاخیر ہو گئی ہے یا بھول گئی تو اسے سو سو باتیں سننے کو ملتی ہیں ۔
    آئیے اپنے پیارے رسولکے اسوہ کو دیکھتے ہیں کہ آپ کا طرز عمل کیسا تھا، مسند احمد میں ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ ؓسے کسی نے سوال کیا کہ آپجب گھر میں تشریف فرما ہوتے تو آپ کیا کرتے تھے۔ جواب میں ہماری اماں جان سیدہ عائشہؓ بتاتی ہیں:آپ اپنے کپڑوں کو خود ہی سی لیا کرتے، اپنے جوتے کو سی لیتے اور اپنے گھر میں وہ سارے کام کر لیاکرتے جو دوسرے مرد اپنے گھروں میں کرتے ہیں ۔قارئین کرام! کیا یہ اپنے گھر والوں، اہل خانہ کے ساتھ رحمت کا برتاؤ نہیں۔
    جہاں تک بچوں کے ساتھ رحمت کا تعلق ہے تو اس بارے میں آئیے سیدنا انس بن مالک ؓسے روایت کردہ حدیث کو پڑھتے ہیں۔ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: میں نماز پڑھ رہا ہوتا ہوں، میری خواہش ہوتی ہے کہ میں نماز کو لمبا کروں۔ اس دوران کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو میں اپنی نماز کو مختصر کر دیتا ہوں۔ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ بچے کے رونے سے اس کی ماں پر کیا گزرتی ہے۔
     امت کے علماء کرام اورائمہ مساجد کے لیے آپ کے اس عمل میں کتنا درس ہے۔ ائمہ حرمین کی نماز کو ملاحظہ کیجیے، بڑی مختصر ہوتی ہے۔ خصوصاً جیسے جیسے رش بڑھتا جاتا ہے، تھوڑی سی آیات کی تلاوت، اور رکوع وسجود مختصر کر دیے جاتے ہیں۔ لوگوں پر شفقت کرتے ہوئے… نجانے کون کس حالت میں نماز پڑھ رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ دھوپ میں کھڑاہو، یا بیمار ہو کسی کا بچہ رو رہا ہو۔ کوئی تھکا ہوا ہو۔
اللہ کے رسولکی بچوں کے ساتھ رحمت کو ملاحظہ کیجیے کہ آپ بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے، بعض اوقات انہیں چومتے بھی تھے۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا اللہ کے رسولنے سیدنا حسن بن علیؓ  کو ایک ران پر اور دوسری ران پر سیدنا اسامہ بن زیدؓ  کو بٹھایا ہوا تھا۔ آپ کبھی سیدنا حسنؓ  کو چومتے اور کبھی اسامہ ؓ  کو چومتے تھے۔
    سیدنا انس بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولگلی میں سے گزرتے۔ جو بچے کھیل رہے ہوتے آپان کو سلام کرتے۔ قارئین کرام! ذرا اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ کبھی کبھار آپ گلی سے گزر رہے ہوں دیکھا بچے کھیل رہے ہیں تو اپنے نبیکی سنت کی اقتداء میں آپ بھی ان کو سلام کہا کریں۔
    اللہ کے رسولنے اپنی امت کو عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا ہے حتی کہ اگر آپ ایک بچے کو پیارکرتے ہیں، اسے بوسہ دیتے ہیں تو اس کے بھائی کو بھی ضرور بوسہ دیجیے یا پیار کیجیے۔ ایک بچے کو پیار کیا ،دوسرے کو نہیں کیا تو وہ محسوس کرتا ہے کہ میرے ساتھ ابو اتنا پیار کیوں نہیں کرتے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک بچہ بڑا ذہین و فطین ہے۔ کلاس میں ہمیشہ پوزیشن لیتا ہے مگر اس کا بھائی اتنا ذہین نہیں۔ ایک بچہ خوبصورت ہے، دوسرا بد صورت ہے۔ ایک صاف ستھرا رہتا ہے دوسرا گندہ رہتا ہے۔ فطری بات ہے کہ آپ ذہین ، پوزیشن ہولڈر ، خوبصورت اور صاف ستھرے بچے کو اہمیت دیں گے مگر اس بات کو نہ بھولیں کہ اگر آپ نالائق بچے کو مسلسل نظر انداز کریں گے تو وہ مزید بگڑ جائے گا، وہ ضدی ہو جائے گا۔ آپ اسے بھی پیار کریں اسے گلے سے لگائیں۔ اسے بھی احساس دلائیں کہ تم بھی کم ذہین نہیں ہو ۔ تم بھی آگے نکل سکتے ہو۔ ماہرین نفسیات نے اس موضوع پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایک اچھا باپ بیٹوں یا بیٹیوں میں فرق نہیں کرتا۔ جہاں تک کپڑوں ، جیب خرچ کا تعلق ہے تو یہ چیزیں اولاد کے مابین ہر حال میں مساوی ہوں گی۔ اگر کوئی بچوں میں فرق کرتا ہے تو یقینا وہ گناہ گار ہے۔ ایک آپ ایک بچے کو چومتے ہیں تو دوسرے کو بھی ضرور چومیں تاہم نسبتًا بڑے بچوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ جب تم چھوٹے تھے تو تمہارے ساتھ بھی اتنا ہی پیار ہوتا تھا۔
     اللہ کے رسولایک دن سیدنا حسن بن علی اور سیدنا اسامہ بن زید کو چوم رہے تھے۔ آپکے پاس بنو تمیم کا بڑا سردار اقرع بن حابس بیٹھا ہوا تھا۔ کہنے لگا: میرے 10 بیٹے ہیں، میں نے توانہیں آج تک نہیں چوما۔ اللہ کے رسولنے اس کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا:جو دوسروں پر رحم نہیں کرتا ،اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا۔
    آج کے بچے ہمارا کل کامستقبل ہیں، ہمیں ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ چھوٹے بچوں کی اگر تربیت عمدہ اور اچھی ہو تو کل کو ہماری توقعات پر پورا اتریں گے ۔ ان کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کی جائے، انہیں دینی معلومات دی جائیں۔ بچپن سے ہی ان کو شرکیات وبدعات سے روکا جائے۔ انہیں وضو ، نماز کا طریقہ سکھایا جائے۔
    مجھے یاد پڑتا ہے میرے والد محترم اچانک کسی دن فرمایا کرتے تھے: چلو بیٹا!نماز سناؤ۔ التحیات میں کیا پڑھا جاتا ہے۔ دعائے قنوت سناؤ۔ اگر کبھی غلطی ہوتی تو اصلاح کرتے۔ کہتے: اچھا کل کو اچھی طرح یاد کر لینا میں دوبارہ سنوں گا۔ یہ بھی بچے کی تربیت اور اس کے ساتھ رحمت وشفقت ہے۔ مجھے اچھی طرح یادہے کہ والد صاحب کی تمامتر محبت کے باوجود ہمیں نماز سے کبھی چھٹی نہ ملی۔ والد صاحب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے والدہ محترمہ سے پوچھتے کہ بچوں نے نماز پڑھی ہے یا نہیں؟ اگر کبھی سستی ہو گئی ہوتی، ہم سو رہے ہوتے تو اٹھا کر پہلے اپنی نگرانی میں وضو کرواتے، پھر نماز پڑھواتے، پھر سونے کی اجازت ملتی۔ میرے نزدیک یہ بچوں پر والد کی رحمت ہے ۔ یہی اسوۂ رسول ہے۔    بچوں کو قرآن پڑھانے کا اہتمام کیجیے ۔ جس طرح ہم دنیاوی تعلیم کے لیے خرچ کرتے ہیں اعلیٰ اسکولوں میں ان کے داخلے کا بندوبست کرتے ہیں۔ بچوں کی دینی، اخلاقی اور قرآنی تعلیم کا بھی بندوبست کیجیے ۔ بچوں کے لیے گھر پہ قاری صاحب کا بندوبست کیجیے۔ جو ہفتہ میں کم از کم 3دن انہیں قرآن مجید پڑھائیں۔ کبھی کبھار گھر کے افراد کو لے کر بیٹھ جائیں، چلو بھئی! آج ہم سب مل کر قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں۔ بعض گھرانوں میں بیٹیوں اور بیٹوں میں فرق کیا جاتا ہے۔ اسلام نے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں رکھا بلکہ بیٹیوں کی فضیلت احادیث میں زیادہ بیان کی گئی ہے۔ اگر بیٹوں کو قرآن پاک کی تعلیم کا بندوبست کیا ہے تو بیٹیوں کو بھی محروم نہ کیجیے۔ اب تو اللہ کے فضل سے گھر گھر قرآن پاک کی تعلیم کا بندوبست ہو گیا ہے اور کوئی نہیں تو انٹر نیٹ پر پڑھانے والے اساتذہ تو مل ہی جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں:- - - - -تقبیل و استلام ، گناہوں کا کفارہ

شیئر: