Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تجدید عہد ِوفا

***صلاح الدین حیدر***
قیام پاکستان کو اس کے اصل تناظر میں دیکھا جائے تو آج جو کچھ ہورہا ہے۔ وہ کسی حد تک تو بہت ہی خوش آئند ہے، لیکن ابھی بھی ان مقاصد کی تکمیل نہیں ہوسکی، جن کے حصول کیلئے قائداعظمؒ جیسی معتبر ہستی نے برسوں جدوجہد کی اور ایک ایسے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرکے دکھایا، جس کا نام لینے پر ہی لوگ ہنسا کرتے تھے۔ وطن عزیز بڑی قربانیوں کے بعد دنیا کے نقشے پر ابھرا لیکن وعدے وعید سب بھلادئیے گئے۔ اللہ وحدہ لاشریک کا کرم اور احسان ہے کہ ہماری نئی نسل اسے دوبارہ اصل مقام تک پہنچانے کیلئے پُرعزم دکھائی دیتی ہے۔یہ بات محض لفاظی نہیں۔ بلکہ اس کا اظہار بلاشک و شبہ اس بار یوم آزادی پر بھرپورطور پر نظر آیا، ننھے منے  بچے، نوجوان، ادھیڑ عمر کے مرد و خواتین، سبز ہلالی پرچم لئے سڑکوں پر مارچ کرتے دکھائی دئیے۔ معصوم بچوں نے قومی پرچم کے سبز و سفید، چاند ستارے والے کپڑوں کی ٹوپیاں اور کُرتے زیب تن کیے ہوئے تھے۔ ہاتھوں میں ان کے پرچم تھے، سڑکوں پر لوگوں اور گاڑیوں کا ازدحام تھا۔ہزاروں کی تعدادمیں مرد، خواتین، بچے، نوجوان بسوں اور ویگنوں میں جو کچھ ہاتھ آیا، اس پر بڑھ چڑھ کر کراچی میں سمندر کے کنارے، لاہو رمیں مینار پاکستان اور تمام چار بڑ ے شہروں، قریہ قریہ میں آزادی مناتے پھر رہے تھے۔شاید ان کے خوابوں کی تعبیر انہیں مل گئی تھی، جوش و خروش سے محبت کا ولولہ، وطن کی شان کا جلوہ قابل دید تھا، ہر چیز عیاں تھی، کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں تھا، ایک نئے پاکستان کی بنیاد پڑتی صاف دکھائی دے رہی تھی، لڑکپن سے جو ترنگ، جو ملی نغمے، عرصہ دراز سے کانوں میں رس گھولتے رہے تھے لیکن پھر یکسر یہ سب چیزیں کہیں غائب ہوگئی تھیں۔ اب دوبارہ سے کانوں میں رس گھولنے شروع ہوگئے۔کیا سماں تھا بیان سے باہر، کس کس کا ذکر کروں، کن الفاظ میں ذکر کروں۔ہر پاکستانی کی طرح میرا دل بھی آج باغ باغ ہے۔ پھول کی طرح کھلا ہوا۔
ان تمام باتوں سے خوش ہوکر رقص کرنے کا دل کرتا ہے، لیکن اس کا کیا کروں کہ نئی اسمبلی جس میں عمران خان اور ان کی تحریک انصاف پارٹی اسپیکر کا انتخاب 30ووٹوںکی اکثریت سے جیت کر سرخرو ہوگئی ہے، ان کے کاغذات نامزدگی داخل کردئیے گئے ہیں، لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے، حزب اختلاف تقسیم ہوچکی تھی، حمزہ شہباز شریف کو پنجاب کے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لئے نامزد کرنے پر آصف زرداری، بلاول بھٹو اور دوسرے خاموش تماشائی بنے رہے۔ انہوں نے (ن) لیگ کے امیدوار کو ووٹ نہیں دئیے، پھر جب سابق ڈپٹی اسپیکر جاوید عباسی نے جعلی ووٹ کا نعرہ لگایا تو (ن) لیگ کے ارکان نے ایوان کو مچھلی بازار بنادیا۔ نواز شریف کی تصویریں اٹھارکھی تھیں جو اس مقصد کے اصولوں کے خلاف تھا، جب (ن) لیگ کے ارکان نعرے لگا رہے تھے، تو سیّد خورشید شاہ، آصف زرداری، بلاول بھٹو، راجا پرویز، نوید قمر، سب خاموش بیٹھے تھے، انہوں نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا، ذمے داری کا ثبوت تو دیا۔ 
پہلا مرحلہ ختم ہوا، وزیراعظم کا انتخاب محض رسمی کارروائی ہوگی۔ جو 17اگست کو ہوجائے گی اور ملک ایک نئے دور میں داخل ہوجائے گا۔ عمران سے عوام الناس کو بڑی امیدیں ہیں۔جو بات کھٹکتی ہے وہ ہے پروٹوکول کا اعلان کہ تین 6000 سی سی اعلیٰ ترین مرسیڈیز بینز بلٹ پروف گاڑیاں جس کی قیمت کروڑوں میں ہوگی، پرائم منسٹر ہائوس پہنچادی گئی ہیں تو کیا عمران نے وزیراعظم ہائو س میں نہ رہنے کا وعدہ توڑ دیا ہے، اگر ایسا ہے تو قوم انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی، انہیں اپنے وعدے کا پاس ہونا چاہیے۔ منسٹر کالونی میں ایک گھر لے کر جو قانون کے مطابق سیکیورٹی ہے، وہ رکھ لیں۔ باقی تمام اخراجات قومی خزانے میں جمع کرادیں۔ یہاں ان کی توجہ قائداعظمؒ کے اصولو ںکی طرف دلانا چاہتا ہوں۔ پہلی کابینہ میٹنگ میں جب قائداعظمؒ کے اے ڈی سی نے پوچھا کہ سر چائے یا کافی سرو کروں تو بابائے قوم نے حیرت سے پوچھا کہ کیا یہ لوگ گھر سے ناشتہ کرکے نہیں آئے، کوئی ضرورت نہیں قوم کا پیسہ فضولیات پر خرچ کرنے کی، صرف پانی کا گلاس رکھ دیا جائے۔ جب قائداعظمؒ کے سامنے 47 روپے کا بل پیش کیا گیا، ان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب نے اپنی کتاب شہاب نامے میں لکھا ہے کہ قائداعظمؒ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ پیسہ کیوں خرچ کیا گیا۔ جواب ملا کہ آپ کی ہمشیرہ فاطمہ جناح چونکہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں تو ان کے بیٹھنے کے لئے کرسی خریدی گئی ہے۔ آپ نے جواب دیا کے فاطمہ کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں، انہیں کہیں کہ رقم وہ اپنی جیب سے ادا کریں۔ یہ تھی پاکستان کی وقعت اور  ذمے داری کا احساس…
  آج ہم اقربا پروری، دوستوں کو نوازنے پر خطیر رقم خرچ کرتے ہیں، کیا یہ قائدؒ کا پاکستان ہے۔ نہیں جی، ہمیں دوبار ہ تجدید عہد وفا کرنا پڑے گا، اپنے گریبان میں جھانکنا پڑے گا کہ ہم قومی خزانے کے امین  ہیں، ایک پیسہ بھی عوام کا غلط استعمال نہ ہونے پائے، جبھی قومی فرائض اور عہد سے وفا کرپائیں گے، ورنہ پاکستان کا شاید اس سے بھی برا حال ہوجائے، لوگوں کے جوش وخروش، عزم ولولہ سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ مایوسی کی ایسی لہر اٹھے گی جس پر قابو پانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجائے گا۔ پاکستان کا مستقبل ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے، لوگوں نے امید کے نئے چراغ جلائے ہیں، ایک نئی شمع روشن کی ہے، ہوائوں اور طوفانوں سے اسے ہمیں بچانا ہوگا۔ یہی تجدید عہدِ وفا ہے، اس میں ہمارا مسقبل پوشیدہ ہے، ہوائوں کے تھپیڑے سے اگر ہم نے اس کی حفاظت نہ کی تو شاید ہماری داستان بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔ 
بس یہ سمجھ لیں قوم جاگ چکی ہے، اب حساب مانگ رہی ہے، ہمیں اسے جواب دینا ہوگا۔ 71سال بعد عمران اور ان کے ساتھیوں کو اپنے ہر عمل میں مثالی بننا پڑے گا، اے چمن مجھ پربھاری قرض ہے تیرا، ہمیں یہ قرض چکانا ہوگا، یہ ہے تجدید عہد وفا، ہم میں ہر ایک پاکستانی بن کر دکھائے، اپنا فرض پورا کرے اور وطن عزیز کے لوگوں میں سرخرو ہو ۔(آمین)۔ 
 

شیئر: