Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکبانوں کےلئے سرمایہ کاری پیکیج ضروری

***احمد آزاد۔ فیصل آباد***
جمال احمد پچھلے 25سال سے سعودی عرب میں مقیم تھا اور2016ء میں اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوکر پاکستان واپس پہنچا۔جب وہ پاکستان سے سعودی عرب گیا تھا تو بھرپور جوانی میں سیاہ بالوں کے ساتھ تھا لیکن اب بڑھاپے میں قدم رکھ کر سفید بالوں کے ساتھ وطن واپس پہنچا ہے ۔ان 25سالوں میں اس نے شروع کے 10سال جان توڑ کر محنت کی اور ادارے میں اپنا نام بنایا اور جب وہ ادارے سے فارغ ہوا تو ڈپٹی مینجر کے عہدے پر فائز ہوچکا تھا ۔ان 25سالوں میں اس نے ماہانہ اوسط کے حساب سے 50ہزار روپیہ پاکستان بھجوایا ہوگا جو 15ملین کے حساب سے رقم بنتی ہے ۔کچھ رقم ان کو ادارے کی طرف سے ملی ۔کچھ انہوں نے مشکل وقت کے لیے سنبھال رکھی تھی اور جب وہ پاکستان واپس آئے تو انہوں نے وہ رقم بھی پاکستانی کرنسی میں لے لی اور یوں اک بندہ جو دیار غیر میں مقیم تھا اس نے اپنی زندگی کے بہترین سال زرمبادلہ کو پاکستان بھیجنے میں گزار دی۔جب واپس آیا تو 20سے 30لاکھ لے کرساتھ آیا ۔آج وہ پاکستان رئیل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ ہوچکے ہیں ۔
یہ ایک دیار غیر میں مقیم ہنرمندپاکستانی کی کہانی آپ کے سامنے رکھی ہے ۔اس طرح کی کئی کہانیاں ہیں جومعاشرے میں بکھری پڑی ہیں ۔ ایک رپورٹ کے مطابق اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کی بیرون ملک تعداد  ایک لاکھ 97ہزار کے قریب ، اپنے کام میں ماہر افراد کی تعداد4لاکھ کے قریب اور ہنرمندومزدور وغیرہ کی تعداد 96لاکھ کے قریب ہے اور یوں یہ تعداد  ایک کروڑ سے تجاوز کرجاتی ہے ۔اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا بیرون ملک مقیم ہونا اور پاکستان میں ماہانہ بنیادوں پر رقم بھیجنا ہمیں کس قدر فائدہ مند ہے ۔فرض کریں کہ ان میں سے آدھے یعنی 50لاکھ کے قریب لوگ ماہانہ بنیادوں پر زیادہ نہیں تو اوسطاََ50ہزار بھیجتے ہوں تو سعودی ریال میں وہ رقم 7بلین سے زائد بنتی ہے اور سال کی رقم 94بلین سعودی ریال میں جاپہنچتی ہے ۔
تحریک انصاف بلاشہ اس وقت پاکستان کی کامیاب ترین سیاسی جماعت بن کر ابھر چکی ہے ۔عمران خان اور وزیراعظم کی کرسی میں اب صرف حلف برداری کی تقریب کا فاصلہ رہ گیا ہے ۔انتخابات جیتنے کے بعد جس طرح سے تحریک انصاف نے آزاد امیدواروں اور دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملایا ہے اس نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیے کئی سوالات کھڑے کردئیے ہیں ۔پنجاب اسمبلی میں اسپیکر کے انتخاب کے وقت ن لیگ کے اراکین کی تعداد 162تھی لیکن ان کے امیدوار چوہدری اقبال کو صرف 147ووٹ ملے جبکہ چوہدری پرویز الٰہی 201ووٹ لے کر کامیاب ٹھہرے ۔ یوں مسلم لیگ ن کے پنجاب پر دس سالہ راج کا خاتمہ کرنے میں اب صرف وزیراعلیٰ پنجاب کے آنے کا آخری مرحلہ باقی رہ گیاہے۔
مسلم لیگ ن کے اندرونی اختلافات سے تحریک انصاف بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔اپوزیشن کا متحدہ وزیراعظم لانے کا معاملہ بھی اختلافات کا شکاررہا ہے ۔ پیپلز پارٹی شہباز شریف کی جگہ کسی اور کو لانے کی کوشش میں تھی اور مسلم لیگ ن شہبازشریف کے علاوہ کسی اپنا امیدوار لانے کو تیار نہ تھی ۔بہرحال عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف نے ابتک اپنے پتے بڑی کامیابی سے کھیلے ہیں ۔اندرون و بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت تحریک انصاف کی حکومت سے بڑی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے ۔اوورسیز پاکستانی تحریک انصاف کے منشور اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کے بیانات کو سامنے رکھتے ہوئے امید لگائے بیٹھے ہیں کہ اُن کی مشکلات قدرے کم ہوسکیں گی ۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ویسے مسائل تو بہت سارے ہیں جن کا ذکر میں اپنے پچھلے کالم میں کرچکا ہوں جن میں سیاسی سفیر مقررکرنے اور دیگر کئی چیزوں پر بات ہوچکی ہے ۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو 71سال ووٹ ڈالنے کا حق مل چکا ہے جوکہ خوش آئند ہے اور آنے والے انتخابات میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی قدر دوچند ہوجائے گی ۔ایسے میں حکومت پاکستان کا حق بنتا ہے کہ دیار غیر میں بیٹھے ان حب الوطنی سے سرشار پاکستانیوں کے جائز مطالبات کو پہلی فرصت میں حل کرنے کی سعی کرے ۔
حکومت کو دوسرے ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کے سرمایہ کو پاکستان میں لانے کیلئے انہیں پرکشش سہولیات دینا ہوں گی ۔25سے 30سال کا عرصہ دیارغیر میں گزار کرجب وہ اپنا سرمایہ ملک میں لاتے ہیں تو معاشرے سے کئی طرح کے ٹھگ اٹھتے ہیں اور انہیں پرکشش مراعات و پیکجز کا جھانسہ دے کر دولت ہتھیاتے نظر آتے ہیں ۔ایسے میں اگر تحریک انصاف حکومتی سطح پر ان کے لیے پرکشش پیکج دے کر  پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دیتی ہے تو یہ ملک کیلئے بہتر ہوگا۔ ملک واپس آنے والوں کو ان کی متعلقہ فیلڈ میں ہی کاروبار /نوکری کرنے جیسی سہولیات دینے کے لیے ماہرانہ رائے دینے کی غرض سے کوئی ادارہ یا ذیلی ادارہ یاپھر بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کو یہ کام دے دیا جائے کہ وہ وطن واپس آنے والوں کوان کے ہنر کے حوالے سے ماہرانہ رائے دے تاکہ اوورسیز پاکستانی ملک واپس آنے سے قبل ہی اپنا مستقبل پلان کرسکیں۔ملک واپسی پر ان اوورسیز پاکستانیوں کے حقوق کا تحفظ کرنا اور ملکی اداروں کو ان کے ساتھ بہترین سلوک کرنا ان کے جوانی کے گزرے لمحات کا مداوا اگرچہ نہیں ہوسکتے لیکن ماضی میںبرداشت کی گئی تکلیف کو کچھ کم ضرورکرسکتے ہیں۔
حکومت اوورسیز پاکستانیوں کے لیے جہاں انٹرنیشنل بانڈز کا اجراء کررہی ہے وہیں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے پاکستانی اداروں میں چھوٹی سے بڑی سطح پر سرمایہ کاری کا موقع بھی فراہم کرے تاکہ وہ اپنے سرمائے کو محفوظ کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت میں حصہ ڈال سکیں۔1998ء میںایٹمی دھماکوں اور جب بھی ماضی میں ملکی معیشت ڈانواں ڈول ہوئی یہ اوورسیز ہی تھے جنہوں نے اپنے سارے وسائل پیش کردئیے تھے ۔تحریک انصاف کو فنڈنگ سب سے زیادہ اوورسیز پاکستانیوں کی طرف سے کی گئی ہے اس لیے اوورسیز اس حوالے سے حساسیت رکھتے ہیں ۔سب سے پہلاکام تو سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے سفیروں کی جگہ میرٹ پر سفیر مقرر کئے جائیں اور انہیں پابند کیا جائے کہ ہتک آمیز رویہ کسی بھی صورت برداشت نہ کیا جائے گا۔(اوورسیز اپنے اپنے ملک کے سفیر ہوتے ہیں ۔میرے ایک دوست یورپ میں ہوتے ہیں اور جنون کی حد تک پاکستانی ہیں وہ اور ان کے کچھ دوست مل کر پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف نظر آتے ہیں ،انہوں نے یورپ میں اک دوشہروں میںلوکل و پبلک بسوں پر تشہیری مہم کے ذریعے ’’پوزیٹو پاکستان‘‘ نامی مہم شروع کردی ہے جسے بعد میں دوسرے شہروں تک پھیلایا جائے گا )۔ ایئرپورٹس پر ہونے والے برتائوپر قابو پایا جائے تاکہ وطن واپس آنے اور جانے میں ذہنی سکون میسر آسکے۔
دوسرے ممالک میں کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں کو مراعات و پرکشش پیکج دے کر ملک واپس لایا جائے اور ان کو بہترین ماحول فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنی بہترین صلاحیتیں ملکی صورت حال کو بہتر بنانے میں کھپا سکیں۔رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کئی ایک اوورسیز کاروبار کررہے ہیں اس حوالے سے حکومت پاکستان کو انہیں اور پاکستان میں مقیم کاروباری افراد کو سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔اگر اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق مل چکا ہے تو مستقبل قریب میں قومی اسمبلی میں ان کے لیے اک آدھ نشست رکھی جاسکتی ہے تاکہ ایوان میں ان کی آواز کو اٹھانے والا موجود ہواور اوورسیز پاکستانیوں کا احساس کمتری کم ہوسکے۔پاکستان میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ،امن وامان کی بہتر صورتحال، انصاف کا بول بالا ، معیشت کو مستحکم کرنے کی ٹھوس حکمت عملی اور اس جیسے دوسرے مسائل پر قابو پر ہی دوسرے ممالک کے سرمایہ کاروں کو اپنی طرف کھینچا جاسکتا ہے ۔
 

شیئر: