Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تینوں آسمانی مذاہب کی روح کی تلاش

خالد العماری۔مکہ
جب جب حج کا موسم آتا ہے اور دنیا کے ہر علاقے سے گوناگوں مواصلاتی وسائل کے ذریعے عازمین حج کی مکہ مکرمہ آمد کا سلسلہ بنتا ہے تب تب ابو الانبیاءابراہیم علیہ السلام کی یادیں بھی تازہ ہوتی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیبہ ، اخلاقیات ، علوم و معرفت اور ایمانیاں کی یادوں کا مجموعہ ہے۔ ان کی زندگی اس مقدس سرزمین سے جڑی ہوئی ہے۔ 
معرو ف قلمکار بروس ویلر نے ایک کتاب تصنیف کی۔ انہوں نے اس کا نام ”الخلیل ابراہیم تینوں آسمانی مذاہب کی روح کی تلاش کا سفر “رکھا یہ کتاب درحقیقت علوم و معارف کی دنیا کا دلچسپ اور فرحت بخش سفر ہے۔ یہ ان مقامات سے واقفیت کی جستجو کا سفر ہے جن کا تعلق ابراہیم علیہ السلام سے قائم ہے۔ بروس ویلر نے اپنے اس تصوراتی سفر میں ابراہیم علیہ السلام سے منسوب تینوں آسمانی مذاہب کے نمائندوں سے ملاقاتیںکی ہیں۔انہوں نے ابراہیم علیہ السلام پر ایمان کے حوالے سے تینوں مذاہب کے پیروکاروں کو جوڑنے اور جدا کرنے والے عناصر دریافت کرنے کی کوشش کی۔انہوں نے یہ معلوم کرنے کا اہتمام کیا کہ بین الاقوامی عقیدے کے باب میں مرکزی شخصیت ابراہیم علیہ السلام سے مربوط کون سے رسم و رواج باقی ہیں اور ان سے تعلق رکھنے والے کون سے شعائر آج تک زندہ ہیں۔
بروس ویلر اپنے اس سفر کی بابت بتاتے ہیں کہ تینوں آسمانی مذاہب کے جوہر کی جستجو کا ان کا سفر زمان و مکان کی حد بندیوں سے بالا رہا۔ انہوں نے 3بین الاقوامی مذاہب کی روح تک رسائی کیلئے 4ہزار برس کا سفر طے کیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوافکار کی تاریخ میں ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت دنیا کے 50فیصد اہل ایمان کیلئے الہامی شخصیت کا درجہ رکھتے ہیں اور اپنے بیٹے کے ساتھ ان کا قصہ انتہائی سحر آفریں قصوں میں سے ایک ہے۔ عیسائی حضرات انہیں اپنے معروف تہوار عید القیامہ”الفصح“کے موقع پر یاد کرتے ہیں۔ اس تہوار کے بعد یہود کا نئے سال کا تہوار آتا ہے۔ وہ اپنے اس تہوار پر ان کی یادیں تازہ کرتے ہیں جبکہ مسلمان حج کے مصروف ترین موقع پر عیدالاضحی کے روز ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو زندہ کرتے ہیں۔ 
بروس ویلر نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے ذبیح اللہ ( اسماعیل علیہ السلام )کے قصے کے سلسلے میں مسلمانوں کے عقیدے کا خصوصی تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے جمرات کی رمی اور اس کی حکمت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انہوں نے حیرت برپا کرنیوالی قربانی کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صرف سعودی عرب میں 5لاکھ جانور ایک موقع پر ذبح کردیئے جاتے ہیں۔ بھیڑ ، بکری، گائے اور اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں۔اس سے لگتا ہے کہ مسلمان قربانی کے حوالے سے اپنے عقیدے کو صحیح مانتے ہیں اور قربانی پر اہل اسلام کا ایمان بڑا گہرا ہے۔مسلمانا ن عالم اس مناسبت سے ابراہیم اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہما السلام کے واقعات کا ذکرکرکے قربانی کی روح پانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ بروس ویلر مزید کہتے ہیں کہ آپ دنیا کے کسی بھی مسلمان سے وہ کہیں بھی ہو مکہ میں ہو یا منیٰ میں ہو یا انٹر نیٹ پر موجود ہو جب یہ پوچھیں گے کہ ابراہیم کا وہ بیٹا کون ہے جس کی جان کا نذرانہ انہوں نے پیش کرنا چاہا تھا۔ ہر مسلمان ادنیٰ تردد و تذبذب کے بغیر اسماعیل علیہ السلام کا ہی نام لے گا۔ بروس ویلرمسلمانوں کے اس غیر معمولی اتفاق سے متاثر ہوکر قرآن کریم کی آیات اور نمایاں ترین تفاسیر کے مطالعے پر مجبور ہوئے اور انہوں نے یہ جاننے کی کوشش بھی کی کہ آخر قرآن کریم میں ذبیح اللہ کا نام کیوں نہیں بتایا؟۔
بروس ویلر نے یہ جاننے کا بھی اہتمام کیا کہ ابراہیم مذاہب عالم کے درمیان مصالحت کا بہترین سرچشمہ ہیں۔ شیکشپیئر جیسا زرخیز ذہن رکھنے والا انسان بھی ان سے بہتر شخصیت تخلیق نہیں کرسکتا تھا۔ 
مسلمان اللہ کے فضل و کرم سے ابراہیم علیہ السلام کے سب سے زیادہ حقدار ہیں ۔ وہ اس دین سے منسوب ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ابراہیم ہی نہیں بلکہ تمام انبیاءعلیہم السلام کیلئے پسند کیا۔ مسلمان ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے باقی ماندہ نشانات کے دیدار سے فیضیاب ہور ہے ہیں۔ ابراہیم نے جو خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا اس سے مسلمان گہرا تعلق رکھتے ہیں۔یہ وہی مقام ہے جسے ابراہیم ، ہاجرہ ، اسماعیل اور ان کے بعد اہل ایمان کا مرکز ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔ مقام ابراہیم بھی ہے ۔ ان کے قدموں کے نشانات ہر مسلمان روشن نشانیوں کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ صفاءاور مروہ ، زمزم کا کنواں، مشاعر مقدسہ ، منیٰ اور حدود حرم ابو الانبیا ابراہیم علیہ السلام کی نشاندہی کرنے والے تاریخی نشانات ہیں جبکہ یہودی اور نصرانی ان سے منحرف ہوچکے ہیں۔ اللہ نے مسلمانوں کو ہدایت کے راستے پر ڈالا ۔کسی بھی رنگ، کسی بھی نسل اور کوئی بھی بولی بولنے والے ملت ابراہیمی کے پیروکار ہوسکتے ہیں۔ پیغمبر اسلام سے اپنی زندگی مربوط کرسکتے ہیں۔ویلر کا کہنا ہے کہ ابراہیم علیہ السلا م کی تلاش کیلئے ان کی جائے پیدائش کی نشاندہی کی ضرورت نہیں بلکہ دیکھنا یہ ہے کہ کون شخص ان کی زندگی کو اپنا کر ان سے تعلق اور محبت کا اظہار کرتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭٭٭٭
 

شیئر:

متعلقہ خبریں