Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے نئے امتحانات

***خلیل احمد نینی تال والا***
ایک طرف اسمبلیوں کے اسپیکرز کے انتخابات ہوچکے ہیں مسلم لیگ (ن) ہر محاذ پر پسپا ہوچکی ہے ۔ عمران خان ملک کے وزیراعظم منتخب ہوچکے ۔اس کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری کی نئی حکمت عملی مسلم لیگ (ن )سے قطعی لاتعلقی نے کام کردکھایا اور دوسری طرف خود مسلم لیگ (ن )کے اپنے ممبران نے بھی پنجاب میں 12ووٹ عمران خان کی جھولی کی نظر کرکے اپنی رہی سہی امیدیں مرکز میں مسلم لیگی امیدوار کی کامیابی کی ختم کردی اور عمران خان کو بہتر موقع فراہم کردیا ۔وہ باآسانی وزیراعظم بننے کا راستہ حاصل کرسکیں یہ سب کچھ کیسے ہورہا ہے یہ مسلم لیگ (ن )یا پاکستان کی سیاست میں کوئی نئی یا انہونی بات نہیں ہے ۔
ہمارے ملک کی سیاست میں ایسی بے شمار مثالیں ہیں جن میں الیکشن میں اُتار چڑھائو اور کود پھلانگیں وقتِ ضرورت ہمارے سیاست دان لگاتے رہتے ہیں۔ جو لوٹا سمجھے جاتے ہیں ۔جن میں ایک جماعت سرفہرست اور مشہور ہے جو ایسے ٹانکے لگانے میں بہت ماہر سمجھی جاتی ہے اور اس الیکشن میں بھی وہ پی پی پی کو ورغلاتی رہی کہ خدارا صرف عمران خان کے خلاف محاذ میں اُس کا ساتھ دیں پھر دیکھیں وہ کیا گُل کھلاتے ہیں۔ 
جس طرح الیکشن 2013ء میں یہی صاحب مسلم لیگ( ن) کے نوازشریف کو ورغلاتے رہے کہ کے پی کے میں ان کے ساتھ اتحاد کریں تو وہ عمران خان کی ناکامی کے لئے راہ ہموار کرکے ان کی پارٹی کو کے پی کے میں حکومت نہیں بنانے دیں گے مگر مسلم لیگ (ن) والوں نے اس جھگڑے میں پڑنے سے انکار کردیا مگر پھر وہ خود مسلم لیگ (ن )کے اتحادی بن کر فائدہ اُٹھاتے رہے اور آخر تک مسلم لیگ (ن) کو مشورہ دیتے رہے کہ موقع اچھا ہے پی ٹی آئی پر حملہ کردو ۔یہی جماعت شکست کھانے کے باوجود تلملارہی ہے۔ اس کی وجہ وہ مراعات ہیں جو  اِن کو 15سال سے کسی نہ کسی بہانے پی پی پی اور مسلم لیگ( ن ) سے حاصل رہیں ۔اس الیکشن میں بھی آخری دم تک لگے ہوئے ہیں کہ ہمارے ساتھ دھاندلی ہوئی ہے جبکہ گزشتہ الیکشن 2013میں پی ٹی آئی نے ایسی ہی دھاندلیوں کی نشاندہی کی تھی مگر انہوں نے پی ٹی آئی کا اُس وقت ساتھ نہیں دیا تھا ۔اور چپ کا روزہ رکھ لیا تھا اور ان پنکچروں سے آنکھیں چرالی تھیں۔
جب نوازشریف کی سیاست کا طویل باب بند ہونے جارہا ہے تو یہی مشترکہ شکست سے تمام سیاست دان آگ بجھنے سے پہلے شعلہ بن کر بھبھک رہے ہیں اور چاہ رہے ہیں کہ کسی طرح کوئی اُٹھے اور ان کا ساتھ دے مگر دونوں بڑی جماعتیں پی پی پی اور مسلم لیگ  (؎ن )اُن کاساتھ نہیں دے رہی ہیں ۔
مسلم لیگ( ن )کے نئے صدر شہباز شریف کے سامنے اُن کے بھائی اور بھتیجی مریم نواز کی غلطیاں اور ٹکرائو کی پالیسیوں کا خمیازہ سامنے آرہا ہے ۔وہ اس لئے خاموش ہیں۔ دوسرا مسلم لیگ (ن) کی ماضی کی لوٹوں کی داستان بھی اُنہیں یاد ہیں تو دوسری طرف پی پی پی کے آصف علی زرداری پر نیب نے اپنے ہاتھ سخت کرلئے۔ اُنہیں اور اُن کی ہمشیرہ فریال تالپور کی بار بار طلبی کھل رہی ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ مسلم لیگ( ن) کے پھڈے میں اپنی ٹانگ پھنسائیں ۔وہ مسلم لیگ( ن) اور پی ٹی آئی کی جنگ میں فریق نہیں بننا چاہتے ۔اُ ن کے حق  میںیہی بہتر ہے کہ وہ کنارہ کش ہوکر 5سال اپنی پارٹی کو دوبارہ کھڑا کرنے میں وقت صرف کریں اور اسمبلیوں میں اپنی جماعت کو مضبوط کریں ۔ابھی صرف سینیٹ ان کے ہاتھ میں ہے وہ بھی ہاتھ سے جاسکتاہے ۔لہذا وہ  ایک جماعت کے فارمولے پر عمل نہیں کرسکتے ۔
اب پھر میں آخر میں عمران خان بطور وزیراعظم پاکستان کی طرف آتاہوں۔ انہوں نے جس مجبوری سے مسلم لیگ( ق )اور متحدہ قومی موومنٹ کو اپنے ساتھ ملایا ہے اُن کی بدعنوانیوں اور ماضی کے الزامات کو وہ کیسے تسلیم کریں گے اور جگہ جگہ ہر موقع پر اُن کے گناہوں کا کیسے دفاع کریں گے۔ وہ تو خود پرویز الہی اور ان کے صاحبزادے اربوں روپے کے بنک اسکینڈل سے منہ چھپائیں گے۔ اسی طرح کراچی میں ایم کیو ایم کے اسی دھڑے کے خلاف قتل وغارت گری کے مقدمات کیسے ختم کریں گے جبکہ کراچی والوں نے ایم کیو ایم کو رد کرکے اُن کی پارٹی کو ووٹ دیئے تھے ۔کیا وجوہ بناکر ایم کیو ایم کو 5سال تک لے کر چلیںگے جبکہ خود ان کی اپنی ہی پارٹی میں بیشتر داغدار افراد داخل ہوچکے ہیں  جن کا ماضی نیب اور ایف آئی اے کے مقدمات سے بھرا پڑا ہے ۔جو ماضی میں کھل کر دوسری پارٹی میں رہ کر بھر پور کرپشن کرتے رہے ۔ان سب کا ایک ساتھ کیسے دفاع کرسکیں گے کیا وہ پارٹی کے فیصلے روحانی طاقت کے بل بوتے پر کریں گے یا پھر حالات وواقعات کے مطابق کریں گے ۔اب ان کے امتحانات کاسلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ مزید خدشات سے کیسے نکلیں گے ۔بازار میں نئے این آر او کے بھی آنے کی افواہیں گردش کررہی ہیں ۔شاید اسی وجہ سے میاں صاحب اور اُن کی صاحبزادی کے منہ کو ٹیپ لگوادی گئی ہے۔
یہ بات دیگر ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کسی ڈاکو کو این آر او دینے کی افواہوں کو غلط قرار دیکر واضح کردیا کہ کسی کو این آر او  نہیں دیا جائیگا۔ قوم کو توقع ہے  کہ عمران خان اس ملک کو بام عروج پر نہ سہی لیکن مشکلات سے ضرور نکالیں گے۔ نواز شریف نے ملک کو مشکل صورتحال میں ڈالا ہے او ربھگتنا نئی حکومت کو ہی ہوگا۔
 

شیئر: