Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وہ اس کی سوکن لے آیا، اتنا بڑا” سرپرائز“تو سوچا ہی نہیں تھا

اُم مزمل۔جدہ
وہ اپنے پر دادا جان کی بسائی ہوئی بستی میں رہتی تھی۔وہ اپنے خاندان کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ نماز مغرب کی جماعت ابھی ہوئی تھی کہ وہ واپس آگئے ۔وہ جو ابھی تسبیح ہاتھ میں لئے ذکرمیں مشغول تھیں، فوراً دعا کی اور ساتھ ہی بے وقت آنے کے اچھے سبب کے لئے دعا بھی مانگی۔ خادمہ سے پانی منگوایا، انہوں نے پورا گلاس پانی کا فوراً ہی ختم کر لیا اور کہہ اٹھیں کہ نجانے مالک حقیقی کو کیا منظور ہے کہ وہ لوگ ڈھائی ماہ پہلے دئیے گئے جواب پر نظر ثانی کا مشورہ دے رہے ہیں اور کسی بزرگ ہستی کو درخواست کی منظوری کے لئے واسطہ بنایا ہے ۔
وہ چونک گئیں، کہنے لگیںکہ میں نے تو پہلے ہی ان لوگوں سے معذرت کرلی تھی کہ ان کا خاندان بہت اعلیٰ ہے۔ دولت وثروت میں کوئی کمی نہیں۔ لڑکا خوبرواور والدین کا فرمانبردار ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے اور اتنی بڑی جائداد کا تنہا وارث ہے لیکن ہم کیا کریں کہ ہمارا دل اپنی لخت جگر کو اتنی مسافت پر بھیجنے کو تیار نہیں۔ وہ بتانے لگے کہ یہی بات میں نے کہی تو کہاکہ بھلا آج کی دنیا میں سفرکے ذرائع نے فاصلوں کو سمیٹ نہیں دیا؟ جب چاہے ،جہاں چاہے انسان کم وقت میں پہنچ سکتاہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں جب بیٹی کا دل چاہے گا میکے آجایا کریں گی۔
ماں کا دل اب بھی راضی نہیں تھا کہ فقط14 سال کی عمر میں وہ گھر کیسے سنبھال سکے گی۔ وہ بتانے لگے کہ انہوں نے اس ملک کے گھومنے کے لئے چند دنوں کا پروگرام بنایا تھا لیکن ہمارے گھر رشتہ دینے کے بعد آج اسی مسجد سے ملحقہ گھر میں رہ رہے ہیں جسے دیکھنے کے لئے کہ یہ ہمارے آباءکی بنائی ہوئی مسجد ہے تو اس گاﺅں میں بھی جاکر رہیں ۔ وہ حیران رہ گئیں کہ ریسٹ ہاﺅس سے وہاں کیوں منتقل ہوگئے۔ دور کے سہی، ہمارے رشتے دار تو ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیسے اپنے جاننے والے سے منگوائے ہیں جو دوسرے ملک میں رہتے ہیں کہ اپنے گھر تو صرف نوکر چاکر ہیں، وہ کیسے یہ کام کر سکیں گے؟ وہ حیرت زدہ رہ گئیں کہ جن لوگوں کے حجاز میں سفینے چلتے ہیں، وہ یہاں مسافرت میں کیسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں ۔صرف اس لئے کہ ہمارے یہاں سے رشتے کی منظوری مل جائے۔
انہوں نے عشا کی اذان سنی تو کہاکہ آپ جائیے ،انہیں ہماری طرف سے رشتے کی منظوری دے دیجئے ۔ ڈھائی کروڑ کی ہیرے کی انگوٹھی اسکی مخروطی انگلی میں پہنچ کر اور خوبصورت ہوگئی تھی۔انکے ولیمے کی تقریب میں کئی راجہ رانیوںنے شرکت کی۔ شرکا ءجہاں دلہن کے حسن سے مرعوب ہورہے تھے ، وہیں 29 سالہ دولہا کی وجاہت کو بھی بے حد سراہ رہے تھے۔ کئی ایک منچلے دوستوں نے پوچھ بھی لیا کہ دنیا کے کس جزیرے سے دلہن لے کر آئے ہو، ہمیں بتاﺅ، ہم بھی وہیں جائیں گے چاہے سفر کتناہی طویل کیوں نہ ہو۔اس پر کئی دوستوں کا قہقہہ ایک ساتھ ہی بلند ہوا جو اس خوشیوں بھری رات کا یادگار لمحہ بن گیا ۔
تقریب لاجواب تھی۔حاضرین کا متفقہ فیصلہ تھا ۔دنیا کی ہر نعمت موجود تھی اور وہ بہت چاہتوں میں وقت گزار رہی تھی۔ پڑھنے کا شوق تھا اور اس کے شوہر نے خود بیرون ملک سے اعلیٰ ڈگری حاصل کی تھی۔ اسے بھی خوشی ہوئی کہ وہ پڑھائی جاری رکھنا چاہتی ہے ۔ ڈیڑھ سال بعد ٹوئنز کی آمد نے اسے بوکھلا کر رکھ دیا۔ سسرال کا ماحول سازگار تھا۔ میڈ کے ساتھ ساتھ بزرگ خواتین ہر دم کوئی نہ کو ئی مفید مشورہ دیتیں ۔ وہ من و عن ان کی بات مان لیتی ۔ ایک سال کی عمر کو پہنچے تو دونوں بیٹوں کو لیکر وہ لوگ انکے نانا جان کی آبائی حویلی پہنچے۔ وہاں تو ایک میلے کا سماں بندھ گیا۔ ہر کوئی خوش تھا۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکے دو بڑے بھائیوں کی شادی خانہ آبادی کی تقریب رکھ لی گئی جو رشتہ کم عمری سے طے تھا ۔ والدین کو اس کے بارے میں جان کر خوشی ہوئی کہ ہر خواہش جو وہ کرتی ہے ،اس کے لئے محنت بھی کرتی ہے اور دعا بھی۔ اسی لئے وہ جہاز رانی کے کاروبار میںاپنا الگ سیکشن بنا کر بزنس شروع کر چکی ہے۔ یہ اسکے بہترین ٹیم ورک کا نتیجہ ہی ہے ۔
جب دونوں صاحبزادے اسکول جانے کے قابل ہوئے تو بھر پور توجہ کے طالب ہوئے کہ روز کوئی نہ کوئی سوال انکے ذہن میں ہوتا اور وہ بہت اچھی طرح سمجھاتی چاہے اس میں کتنا ہی وقت کیوں نہ لگے۔ وہ دونوں اب دوسرے بڑے شہر کے ایک معروف اسکول میں داخل ہوچکے تھے ۔وقت کا پنچھی اڑان بھرتا رہا اور وہ پہلے سے زیادہ حُسن و ذہانت کا مرقع بنتی گئی۔ اس کی نرم مزاجی اور حُسنِ سلوک لوگوں کو اس کا گرویدہ بناتا گیا لیکن شاید وہ یکسانیت کا شکار ہو رہا تھا اور اپنے رسم و رواج میں کوئی خرابی بھی نہ پاتا تھا ۔
آج وہ بہت دل سے تیار ہوئی تھی کیونکہ ایک ہفتہ پہلے اس کی 30ویں سالگرہ تھی اور آج شادی کی 16ویں سالگرہ کا پروگرام طے تھا کہ اپنی پسندیدہ جگہ جائیں گے، یادگار دن گزاریں گے لیکن سوچا ہی نہیںتھا کہ وہ اتنا بڑا سرپرائز دے گا ۔وہ لانگ روم میں ٹی وی پروگرام سے دل بہلا رہی تھی کہ اچانک وہ سجی سجائی دلہن جیسے لباس میں ملبوس ایک شخصیت کو لے کر وہاں پہنچاجو حقیقتاً اس کی سوکن تھی۔ وہ حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ کچھ سمجھنا چاہتی تھی۔ سوچ رہی تھی کہ ہمارے درمیان تو کوئی جھگڑا نہیں،کوئی تنازع نہیں تو پھر یہ سب کیا ہے ؟وہ تعارف کرا رہا تھا اور وہ نووارد کو دیکھ رہی تھی۔ گورا، بے کشش چہرہ۔ بھاری نقش اور تاڑ جیسا قد۔ اگر خوبی تھی تو یہی کہ وہ بارہویں جماعت کی طالبہ تھی۔ جتنی دور کی وہ رشتہ دار تھی اس سے زیادہ دور دراز شہر میں اس کی رہائش تھی۔ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ بھلا پہاڑ کا ریت کے ٹیلے سے کیا مقابلہ ؟ اس کا مقابلہ تو اس چٹان سے تھا جو ان دونوں کے درمیان ایستادہ تھی۔وہ کچھ کہہ رہاتھا لیکن وہ اس کی بات سننے کے دوران سوچ کا گھوڑا تیزی سے دوڑائے جا رہی تھی اور اتنے کم وقت میں کہ اس نے چند جملے ہی ادا کئے ہونگے کہ وہ ایک پورادورگہری سوچ میں گزار آئی اور اس لمحے اسے ایسا لگا کہ وہ جو بہت اونچی سلطنت کی مسند پر بیٹھا تھا ،اونچائی سے دھڑام سے نیچے آگرا۔ وہ اچانک سر اٹھا کر برابر کھڑے اس کی پیشانی کو غور سے دیکھنے لگی کہ اسے اوندھے منہ گرنے پر زیادہ چوٹ تو نہیں آئی؟ یہ وہ لمحہ تھا جب اس کا لاشعور اس کے شعور پر حاوی ہوگیا تھا۔
وہ اسٹڈی کم کانفرنس روم میں اسی جگہ کھڑی اپنی بات جاری رکھے ہوئے تھی جہاں وہ اکثر ضروری بات کہنے کے لئے کھڑی ہوتی تھی۔ وہ جیسے ہی آیا ،وہ خیر مقدمی انداز میں مسکراتے ہوئے گویا ہوئی آپ سب کو جیسا کہ معلوم ہے، ہماری کمپنی دوسرے20 ممالک میں بھی بزنس کرنا چاہتی ہے۔ کچھ تجاویز پر کام ہورہا تھا۔ اب مجھے خود بھی سفر کرنا ہے تو تمام معاملات کو رواں رکھنے کے لئے آپ سب لوگوں کو کم وقت میں یہاں بلالیا گیا اور مجھے خوشی ہے کہ سب سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے دیوار گیرگھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا کہ میری فلائٹ میں کم وقت رہ گیا ہے، مجھے ایئر پورٹ کے لئے روانہ ہونا ہے ۔
خاندانی جائداد کا حساب کتاب رکھنے والے ایڈووکیٹ فائل سنبھالے خاموشی سے برابر برابر کھڑے دونوں کو اپنی زیرک نگاہ سے دیکھ رہے تھے لیکن کچھ بھی کہنا انہوں نے مناسب نہیں جانا۔ وہ اسے ایئر پورٹ پہنچانے آیا تھا۔ اس کی عادت تھی جب وہ شوہراور بچوں کے ہمراہ میکے جاتی تھی تو خوب ہیرے جواہرات کے زیورات استعمال کرتی تھی اور ساتھ لے جاتی تھی لیکن جب اکیلی سفر کرتی تو والدہ کی طرف سے تحفے میں دیئے جانے والے دو جوڑے رکھتی اور وہ کرنسی جو اسکے بھائیوں کی طرف سے ملتی تھی اور بس۔ 
ایئر پورٹ پہنچنے پر وہ اپنی سفری دستاویزات چیک کر رہی تھی کہ اس نے اسکی انگلی میں شادی کی انگوٹھی دیکھ کر سوچاکہ یہ ڈیزائن دوبارہ بن نہیں سکا اور اسکی خواہش تھی کہ وہ آج شام ولیمہ ریسیپشن میں اپنی نئی دلہن کو یہ انگوٹھی ہی پہنائے۔ ابھی اسے ایک اہم لفافہ دینے کا کام بھی تھا۔جیسے ہی وہ گاڑی سے اتری، انگوٹھی پر نظر پڑی اور وہانگوٹھی اتار کر دیتے ہوئے کہنے لگی کہ میں کبھی اکیلے سفر میں کوئی قیمتی چیز اپنے پاس نہیں رکھتی اور آج یہ بھول گئی۔ اس نے انگوٹھی پر ایک نظر ڈالی اور اسے جیب میں ڈال لیا۔ تھوڑی دور ساتھ چلے پھر اس نے ایک بھاری لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ اس نے لفافہ تھاما۔ اناﺅنسمنٹ کی آوازیں آنے لگیں ۔وہ اسٹارٹ گاڑی میں جا بیٹھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس کا دیاہوا لفافہ جہازمیں یا گھر جا کر کھولے لیکن اس نے گاڑی کے شیشے میں دیکھا کہ وہ چلتی آگے بڑھتی ہوئی اس کے دئیے ہوئے لفافے کو کھول رہی ہے اور پھر اچانک وہ زمین پر گر پڑی ارد گرد کے مسافر آگے بڑھے۔وہ بھی گاڑی سے اترا لیکن جس طرح اچانک وہ گری تھی، اتنی ہی تیزی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ایئر پورٹ کی عمارت میں داخل ہوگئی کہ دیکھنے والوں کو ایسا ہی لگا کہ ان کی آنکھوں کو کوئی دھوکا ہوا ہے ۔اس کی باوقار چال اور تنی گردن سے اندازہ ہی نہیں ہورہا تھا کہ اس کے گلے میں آنسوﺅں کا سمندر جمع ہے۔ وہ اتنا خوش تھا کہ آج ایک نئی زندگی شروع کرنے جا رہا ہے۔ اس کے وکیل نے سمجھایا تھا کہ اسے پہلی بیگم سے ہر رشتہ ختم کرلینا چاہئے تاکہ وہ جائداد میں حصہ دار نہ بن سکے لیکن جو اس نے اپنی کاوش سے کمپنی بنائی اور اس کی برانچزبھی بنا لی ہیں وہ اس کی ہی ہونگی۔ جب وہ گھر آیا تو اسے ایک فائل پیش کی گئی جس میں اس نے اپنی تمام منقولہ و غیر منقولہ جائدار اس کے نام لکھ دی تھی جس جائداد کی خاطر اس نے تمام رشتے منقطع کئے تھے کہ اس کے نئے سسرال والوں کی خواہش تھی کہ ایک بڑا حصہ انکی بیٹی کے نام کیا جائے اسی شرط پر رشتہ جوڑا گیا تھا۔ وہ حیرانی سے سوچ رہا تھا ۔کسی کے لئے یہ جائداد روپیہ پیسہ کتنی اہمیت رکھتا ہے اور کوئی اس کو درخود اعتناہی نہیں جانتا ۔ شہر کی خوبصورتی میں اضافہ کرنا بہت اچھی بات ہے۔ سڑکوں کے کنارے پودے لگانا بھی صحت مند ماحول کے لئے بہترین ہے ۔یوں توچوراہے پرنصب چائے دانی اورپیالی، مہمان نوازی کو مہمیز لگاتی ہے اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہے لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنے گھر کو مضبوط قلعہ بنائے، ٹوٹاہوا خاندان منتشر معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔
  ٭٭جاننا چاہئے کہ معاشرے کی قوت گھر جیسی اکائی کی مضبوطی میں مضمرہے۔
 
 

شیئر: