Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب ہم”ایم ایف این“کے پیچھے پڑے تھے

شہزاد اعظم
یہ تحریر پڑھنے کے لئے ذرا ماضی قریب میں لوٹنا پڑے گا:
ہمیں بہت ہی اچھی طرح یاد ہے کہ ٹاٹ اسکول کی ”پکی“ جماعت میں ہم اپنی لاہوری ہمجولیوں کے ساتھ ایک کھیل کھیلا کرتے تھے جس میں پختہ زمیں پر کوئلے سے چھوٹے بڑے خانے بنا کر اس میں پتھر کا ایک ٹکڑا پھینک کر اسے مختلف پابندیوں کے تحت ایک پیر سے ٹھکرا ٹھکرا کر آخری خانے تک لے جاتے تھے ۔اسے ”ٹنگی“ یا ”کیڑی کاڑا“ کہا کرتے تھے۔ٹنگی کی وجہ تسمیہ تو سمجھ آسکتی ہے کہ یہ ایک ٹانگ سے کھیلا جانے والا کھیل ہے اس لئے ٹنگی کہلاتا ہے مگر ”کیڑی کاڑا“ کس لئے کہا جاتا ہے ، اس کی وجہ ہماری عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔بعدازاں جب باقی ماندہ بچپن میںہم نے کراچی میں اپنی ہم نفسوں کے ساتھ یہ کھیل کھیلا تو پتا چلا کہ وہاں اسے ”پہل دوج“ کہا جاتا ہے۔ بہر حال ”ٹنگی نامہ“ بیان کرنے کا اصل مقصد یہ آگاہ کرنا ہے کہ جب ہم اس کھیل میں عبرتناک شکست سے دوچار ہوتے تھے تو باقی سب چلاتیں کہ ”ہار گئے، جھک مار گئے۔“ یہ سن کر ہمارا خون کھول اٹھتا اور ہم مٹھیاں بھینچتے اوردانت پیستے رہ جاتے اور اپنے آپ کو سمجھاتے کہ فتح و شکست تو کھیل کا حصہ ہے ۔ہماری ہمجولیاں سب کی سب بداخلاق اور تمیز و تہذیب سے عاری ہیں کیونکہ انہیں اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کہ اگر ہم نہ ہارتے تو اُنہیں فتح کیسے ملتی؟ہمیںاُن دلخراش لمحات کا حوالہ اس لئے رقم کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ دو روز قبل ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم نے عالمی شہرت یافتہ بلے بازوںکو7درجن سے زائد رنز سے شکست دیدی تھی۔ اس کے بعد پاکستانی میڈیا نے جس طرح ہاری ہوئی حریف ٹیم پر” آوازے“کسے، اُس پر ہمیں” ٹنگی“ میں شکست کے بعد ہمجولیوں کی جانب سے طنزیہ جملوں پر اپنا کھولتا ہوا خون، بھنچی ہوئی مٹھیاں اور پستے ہوئے دانت یاد آگئے۔ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم ”ٹنگی چیمپیئن“تو تھے نہیں، اس کے باوجود چِڑانے والیاں جب ہمیں چِڑاتی تھیں تو ہمارا کیا حشر ہوتا تھا۔ کہاں ہندوستانی کرکٹ ٹیم جو مختلف اوقات میں مختلف ٹورنامنٹس کی عالمی چیمپئین رہ چکی ہے، کئی ریکارڈ بنا چکی ہے، اُسے شکست کے بعد ایسے ”القابات “ کے ساتھ منہ کی سنانا کہ جنہیں سن کر”کوما“میں گیا ہوا مریض بھی ایک مرتبہ ٹیڑھی آنکھ کر کے دیکھنے پر مجبور ہوجائے، یہ بات کیسے درست کہی جا سکتی ہے؟ آپ خود ہی غور فرمائیے کہ ایک چینل نے ہندوستان کی شکست کی خبر یوں سنائی کہ ”گھر کے شیر، گھر میں ہی ڈھیر۔“ بھلا یہ کونسی بات ہوئی، یہ تو محض دوسرے کو برانگیختہ کرنا ہوا ورنہ حقیقت تویہ ہے کہ بلی اپنے گھر میں شیر ہوتی ہے اور دوسرے کے گھر میں بلی، جبکہ شیر اپنے گھر میں بلی ہوتا ہے اور دوسرے کے گھر میں شیر۔چونکہ ہندوستانی کھلاڑی ”شیر“ ہیں اس لئے وہ اپنے گھر میں”بلی“ بن کر شکست کھا گئے۔ یہ بات صرف کرکٹ کھلاڑیوں تک ہی محدود نہیں، گھر گھر یہی عالم ہے۔ شوہر خواہ کتنا ہی غصیلا اور بھڑکیلا کیوں نہ ہو، اپنے گھر میں وہ نہ صرف بلی بلکہ ”بھیگی بلی“ بن کر وقت گزارتا ہے مگر دوسرے کے گھر جا تے ہی وہ شیر بن جاتا ہے اور خوب دھاڑتا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں ”وقت گزارنے والے شوہر“اس تلخ حقیقت سے بخوبی آشنا ہیں کیونکہ انہیں ہر روز انتہائی صبر و شکر کے ساتھ اسکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
دوسری جانب ہمیں یہ بات بھی فراموش کرنے کی بجائے پیشِ نظر رکھنی چاہئے کہ سرکاری سطح پر ہندوستان ہماری ”موسٹ فیورٹ نیشن“ یعنی ”سب سے پسندیدہ قوم“ ہے اوراسی کے کھلنڈر سپوتوں کی شکست کوہم کبھی ”دھول چاٹ جانے اور کبھی ڈھیر ہوجانے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہئے کہ ”موسٹ فیورٹ نیشن“ کی ٹیم کی شکست کے بارے میں اس طرح خبر دینا اور ایسے ہی الفاظ میں تبصرہ کرنا ”چِڑانے، اُکسانے ، سیخ پا یا برانگیختہ کرنے کے زمرے میں آتا ہے۔ ”موسٹ فیورٹ نیشن“ یعنی ”ایم ایف این“ کوخواہ دھول چٹائی جائے، گھر میں ڈھیر کیا جائے یا عبرت ناک شکست سے دوچار کیا جائے، اسے کبھی من و عن بیان نہیں کیا جاتا بلکہ عقل کے ناخن لیتے ہوئے ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے مثلاًیہ کہنے کی بجائے کہ پاکستان نے ہندوستانی ٹیم کو انہی کے ملک میں بدترین شکست سے دوچار کر دیا، یوں کہا جانا چاہئے کہ ”ہندوستان نے ”روایتی مہمان نوازی“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ملک کے دورے پر آئی ہوئی پاکستانی ٹیم کو فتح سے ہمکنار کرا دیا۔اسی طرح ”شیر اور ڈھیر “والی”بھڑاس“ یوں نکالنی چاہئے کہ” ہندوستانی شیروں کا وطن آئے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوںکے ساتھ ”بلیانہ“ سلوک۔مہمانوں کو” فتح کا تحفہ“ دے کر شکست کو گلے لگا لیا۔“اسی طرح جب کوئی پاکستانی کھلاڑی ، ہندوستانی بلے باز کی گیند پر ”شاہین “ بن کر جھپٹے تو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ پاکستانی شاہین نے کیچ لے کر فلاں کھلاڑی کو شکار کر لیا بلکہ ”سب سے پسندیدہ قوم“ کے کھلاڑی کے لئے یہ خبر یوں بیان کی جانی چاہئے کہ فلاں ہندوستانی بلے باز نے اپنا کیچ پاکستانی شاہین کے ہاتھ میں دے دیا۔اس سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ ، ہمارے منہ میں خاک، جب ہمارے شاہین کسی میچ میں ”ممولے“ بن کر چاروں خانے چت ہونگے تو عین ممکن ہے کہ ”ایم ایف این“ بھی ہماری ٹیم کے لئے سیخ پا کرنے والے بیانات سے گریز کرنے لگے۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم ہندوستان کو ”پسندیدہ ترین قوم“ کا درجہ دینے سے ہی مکر جائیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ ہمارے ہاں کتنے ہی شائقین ایسے ہیں کہ جن کے لئے ”شیلا، منی، چمبیلی اور انارکلی“ وغیرہ ”زندگی اور موت“ کا مسئلہ بنی ہوئی ہیں۔
 

شیئر: