Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اٹل بہاری واجپئی کی سیاسی وراثت

***معصوم مراد آبادی***
اٹل بہاری واجپئی ایک ایسے چالاک سیاست داں کا نام تھا جس نے پوری زندگی اپنی سیاسی وفاداری تبدیل نہیں کی۔ 15برس کی عمر میں وہ جس آر ایس ایس سے وابستہ ہوئے تھے، مرتے دم تک اسی کا دامن تھامے رہے۔ یوں تو وہ فرقہ پرست سیاسی جماعت بی جے پی کے ایک قدآور لیڈر تھے لیکن ان میں کچھ ایسی خوبیاں ضرور تھیں جن کی بنا پر وہ دیگر پارٹیوں میں بھی مقبول تھے۔ یہی وجہ ہے کہ 16 اگست کو جب ان کا انتقال ہوا تو سبھی پارٹیوں نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا۔ وہ ایک بہترین مقرر ہونے کے ساتھ ایک شاعر اور صحافی بھی تھے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز ایک صحافی کے طورپر کیا تھا لیکن وہ جلد ہی سیاست میں شامل ہوگئے۔ پہلے جن سنگھ اور پھر بی جے پی کے نام سے شہرت حاصل کرنے والی ان کی پارٹی ہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھی جس کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھوں میں تھا۔ انہوں نے ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ عملی سیاست میں گزارا اور کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ ان ہی کے دور میں پہلی بار بی جے پی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ حالانکہ بی جے پی کو تن تنہا اکثریت حاصل نہیں ہوسکی اور اس نے این ڈی اے کے پرچم تلے مخلوط حکومت کی قیادت کی۔ دیگر پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ان کی پارٹی نے پہلی بار ان موضوعات کو پس پشت ڈال دیا جن کے بل بوتے پر انہوں نے عوامی تائید حاصل کی تھی۔ یعنی رام مندر ، یکساں سول کوڈ اور آئین کی دفعہ 370کو اپنے انتخابی منشور سے عارضی طورپر خارج کرنے کے بعد ہی انہیں دیگر سیکولر پارٹیوں کی حمایت حاصل ہوئی۔ یہ تینوں موضوعات ایسے تھے جن کی بنیاد پر بی جے پی نے اپنی سیاسی عمارت تعمیر کی تھی اور ان ہی موضوعات کو اچھالنے کی وجہ سے انہیں فرقہ پرست رائے دہندگان کی تائید حاصل ہوئی تھی۔ 
یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کی خونی تحریک نے ہی ان کی پارٹی کو ملک کے ایسے عوام میں مقبول بنایا جو یہاں ایک مذہب، ایک زبان اور ایک کلچر کی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جس ایودھیا تحریک میں باجپائی عملی طورپر کبھی شریک نہیں ہوئے اسی کی بدولت انہیں اقتدار کے سنگھاسن تک پہنچنے کا موقع ملا۔ رام مندر تحریک کے لئے جتنی اشتعال انگیزی لال کرشن اڈوانی نے کی تھی اور اپنی رتھ یاترا کے ذریعے ملک کے مسلمانوں میں جو خوف وہراس پیدا کیا تھا اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ اس تحریک کے سیاسی ہیرو لال کرشن اڈوانی ہی تھے لیکن اس کا خراج صحیح معنوں میں واجپئی نے وصول کیا اور اڈوانی آج تک ہاتھ ملتے ہوئے نظر آتے ہیں۔واجپئی اس تحریک کے دوران نہ تو کسی پروگرام میں شامل ہوئے اور نہ ہی کبھی ایودھیا گئے۔ یہاں تک کہ وہ 6دسمبر 1992کو جب کہ بی جے پی کی پوری قیادت ایودھیا میں موجود تھی، اس موقع پر بھی واجپئی لکھنؤ میں ڈیرا ڈالے ہوئے تھے۔ انہوں نے 5دسمبر 1992 کو لکھنؤ میں جو اشتعال انگیز تقریر کی تھی اس میں اپنی لچھے دار باتوں سے ان کارسیوکوں کا حوصلہ بڑھایا تھا جنہوں نے اگلے روز بابری مسجد کو زمیں بوس کردیا۔ بابری مسجد کے انہدام کو لال کرشن اڈوانی نے اپنی زندگی کا سب سے افسوسناک واقعہ قرار دیا جبکہ واجپئی نے اس معاملے میں زبان کھولنا بھی گوارا نہیں کیا۔ 
عام طورپر خیال کیا جاتا ہے کہ اٹل بہاری واجپئی ایک کٹر فرقہ پرست پارٹی کے’ سیکولر‘ لیڈر تھے۔ یعنی وہ بذات خود ایک اچھے آدمی تھے لیکن ایک غلط پارٹی میں شامل تھے۔ ان کے ہاؤ بھاؤ سے بھی یہی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اپنی پارٹی کی شدت پسند امیج سے مختلف ایک لبرل لیڈر ہیں۔ لیکن وہ بنیادی طورپر آر ایس ایس کی متعصب سوچ سے بندھے ہوئے تھے اور انہوں نے کبھی آر ایس ایس کے نظریے سے انحراف نہیں کیا۔ ان کی ظاہری شخصیت کے بارے میں خود آر ایس ایس کے ایک نظریہ ساز گووند اچاریہ نے کہا تھا کہ واجپئی ہمارا ایک ’مکھوٹا‘ ہیں جو آر ایس ایس کے اقتدار میں آنے کی مہم میں کارآمد ہیں۔ واجپئی تمام عمر اسی’ مکھوٹے‘ کے ساتھ سیاسی میدان میں سفر کرتے رہے۔ اگر وہ صحیح معنوں میں سیکولر اور انسانیت دوست ہوتے تو اپنے دور اقتدار میں گجرات کی نسل کشی کے حوالے سے کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے تھے۔ 2002میں گجرات کی سرزمین پر مسلمانوں کی نسل کشی کے موقع پر انہوں نے صرف وزیراعلیٰ نریندرمودی کو ان کا راج دھرم نبھانے کی نصیحت پر اکتفا کیا۔ گجرات کے ایک ریلیف کیمپ میں جاکر انہوں نے یہ بھی کہاکہ اب میں دنیا کو کیا منہ دکھاؤں گا۔ لیکن اس کے فوری بعد گوا میں ایک عوامی جلسے کے دوران انہوں نے اپنی زندگی کی سب سے زیادہ فرقہ وارانہ تقریر کی۔ جس میں انہوں نے کہاکہ’’ مسلمان ہرجگہ پریشانی کھڑی کرتے ہیں اور وہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ‘‘
اٹل بہاری واجپئی بنیادی طورپر اس ملک میں اقلیتوں کو دوسرے درجے کے شہری کے طورپر اکثریتی فرقے کے رحم وکرم پر زندہ رہنے کے گروگولوالکر کے نظریے سے اتفاق رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا’ہندوتن من دھن‘۔ یہ نظم ان کی پہچان کو صرف ایک ہندو کے طورپر پیش کرتی ہے۔ آج اٹل بہاری واجپئی کی بھارتیہ جنتاپارٹی واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے۔ لیکن مکمل اقتدار حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی فرقہ واریت اور اقلیت دشمنی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ اس حکومت کی قیادت اسی شخص کے ہاتھوں میں ہے، جسے انہوں نے ’راج دھرم‘ نبھانے کی تلقین کی تھی۔ لیکن افسوس جس طرح 2002میں راج دھرم نہیں نبھایا گیا اسی طرح آج 2018 میں بھی راج دھرم کی پاسداری نہیں کی جارہی ہے۔ اقلیتیں آج اس ملک میں جس خوف وہراس کے ماحول میں جی رہی ہیں اس کی مثال آزاد ہندوستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔  
 

شیئر:

متعلقہ خبریں