Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی زندگی کا پہلا دور بھتیجا، دوسرا چچا

شہزاد اعظم
اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں کسی بھی شخص کی عمر کے دو ادوار ہوتے ہیں۔ ایک میں وہ بھتیجا ہوتا ہے اور دوسرے دور میں چچا۔جب تک وہ کم عمر ہوتا ہے تو ہر بڑی عمر والے کو چچا چچا کہہ کر مخاطب کرتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے مستقبل میں ”کانٹے “ بو رہا ہوتا ہے کیونکہ جیسے ہی وہ ادھیڑ عمری کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، اسے لوگ چچا چچا یا چاچا چاچا کہنا شروع کر دیتے ہیں۔ تب اسے خیال آتا ہے کہ میں اپنا ہی بویا ہوا آج اپنے ہاتھوں کاٹ رہا ہوں۔ کل تک میں لوگوں کو چچا کہہ کر مخاطب کرتا تھا، آج لوگ مجھے چچا کہہ رہے ہیں شاید اسی لئے کہتے ہیں کہ جیسا کروگے، ویسا ہی بھرو گے۔
جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ہم اپنے معاشرے کے ”چچا“ یا ”چاچا“ بن چکے ہیں۔ جس کسی کو دیکھو، ہمیں چچا کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔یہ خطاب سن کر ہمیں کبھی تو دلی افسوس ہوتا ہے اور کبھی شدید غصہ آتا ہے۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ہمیں نسوانی آواز ”چچا میاں“کہہ کر مخاطب کرتی ہے اور غصہ اس وقت آتا ہے جب کوئی ناہنجار، نامعقول، بدتمیز، بے وقوف، بد سلیقہ اور کم عقل نوجوان ہمیں ”چچا“ کہنے کی جسارت کرتا ہے۔ہم چند روز قبل وطن آئے تھے اور اسی روز سے ہر صنف ہمیں چچا چچا کہہ کر پکار رہی ہے ۔جب ہم چچاچچا کی گردان سن کر تنگ آ جاتے ہیں تو ایک آدھ روز کے لئے گھر سے نکلنا بند کر دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کراچی ، پاکستان کا بہت بڑا شہر ہے۔یہاں تمام قومیتیں آباد ہیں اس لئے اسے بجاطور پر”منی پاکستان“ کہا جاتا ہے۔شہر میں اتنی رونق ہے کہ کیا کہنے۔ ویگنوں کے اندر ہی نہیں، چھتوں پر بھی لوگ سوار نظر آتے ہیں۔ہر فرد دوڑتا بھاگتا دکھائی دیتا ہے۔کسی کے پاس کسی دوسرے کی بات سننے کا بالکل ٹائم نہیں۔اسکے باوجود لوگ ہمیں کبھی انتباہی انداز میں، کبھی پیار محبت میںاور کبھی برہمی کی حالت میںچچا کہہ کر پکارنے کا وقت کسی نہ کسی طرح نکال ہی لیتے ہیں۔ابھی کل ہی کی بات ہے ہم موٹر سائیکل پر سوارایک بغلی شاہراہ سے گزر رہے تھے۔ سامنے سے ایک منہ زور قسم کی پک اپ آ رہی تھی جسے دیکھ کر ہم سے آگے جانے والی موٹر سائیکل رُک گئی۔ ہم بھی اس کے پیچھے جا ٹھہرے تاکہ پک اپ گزر جائے تو ہم پھر سے محوِ سفر ہوجائیں۔اسی اثناءمیں ہمارا ایک ”جاہل بھتیجا“آیا اور اس نے اپنی موٹر سائیکل کا ہینڈل ہماری پیٹھ میں ٹھوک دیا۔ ہم درد و کرب سے چلائے تو ندامت سے عاری بھتیجا ہماری اصلاح کے ارادے سے گویا ہوا کہ ”چچا! تم بھی کدھر آ کر کھڑے ہوگئے ہو؟“ یہ کہہ کر وہ کسی بے قابو گھوڑے کی طرح موٹر سائیکل دوڑاتا ہوا نکل گیا۔ ہم نے تیزی سے اس کا پیچھا کیا اور چوک میں جا کر اس کے قریب پہنچ کر کہا کہ”میاں بھتیجے! کس احمقانہ انداز میں موٹرسائیکل چلا رہے ہو، کنارے کھڑے چچا کو مار کر بھاگ آئے اور غلطی بھی ہماری ہی نکالتے ہو؟‘ ‘ یہ سن کر اس کے پیچھے بیٹھا شخص انتہائی قاہرانہ انتباہ کرتے ہوئے گویا ہوا، ”چلو چچا! بولدیا غلطی ہوگئی، چل نکل۔“ہم دل ہی دل میں خوش ہوگئے کہ دیکھو کتنا عظیم آدمی تھا جس نے انتہائی مہلک انداز میں ”بات ختم“ کرتے ہوئے ”غلطی“ کو تسلیم کر لیااورجان بخش دی، کوئی گولی وولی نہیں ماری۔لوگ نجانے کیوں کہتے ہیں کہ ہمارے شہر کے لوگوں میں برداشت کا اور تحمل ختم ہوتا جا رہا ہے۔اسی طرح ہم شمالی ناظم آباد کی وسیع و عریض شاہراہ کے ٹریفک اشارے پر رُکے۔ بتی سبز ہوئی تو موٹر سائیکل آگے بڑھائی۔ جیسے ہی ہم چوک کے وسط میں پہنچے تو مخالف سمت سے اشارہ توڑ کر ایک عالیشان کارہمارے راستے میں آگئی۔ ہم نے ہاتھ پا¶ں کی تمام بریکس لگا دیں۔ موٹر سائیکل رُک گئی۔ ہماری اس ”اخلاقی حرکت“پر کار والے نے ہمیں کچا چبا جانے والی نگاہوں سے دیکھا کیونکہ اسے ہماری جان بچانے کی خاطر ذرا سا توقف کرنا پڑا تھا۔ جب اُسے یقین ہو گیا کہ ہماری موٹر سائیکل نے اُس کی کار سے کوئی ”چھیڑ خانی“ نہیں کی تو وہ ناک بھوں چڑھائے ہماری شخصیت پر ”ناگوار تبصرہ“ کرتا ہوا نکل گیا۔ ہمیں خوشی اس بات کی ہوئی کہ ہم اپنے بارے میں کوئی جملہ اُس کی زبان سے سن ہی نہیں سکے کیونکہ اس کی کار میں ایئر کنڈیشنر چل رہا تھااور شیشے بند تھے۔
ہمیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے شہر میں ٹریفک کا نیا نظام نافذ ہوا ہے جس سے ہم بالکل نا بلد ہیں۔ ٹریفک اشاروں کی اہمیت تو صفر ہو چکی ہے۔ہر باڑی، موٹورائیکل، سائیکل، ویگن، بس اور گدھاگاڑی اپنی مرضی سے منہ اٹھائے بھاگتی نظر آتی ہے ۔ایسا لگتا ہے جیسے یہ شاہراہیں نہیں، فٹبال کا میدان ہے جس میں کھلاڑی مختلف سمتوں میں بھاگ رہے ہیں۔ اسی معاشرے کے ایک اور چچا سے ہماری بات ہوئی تو وہ بولے کہ میاں کسی روڈ کے کنارے چند منٹ کھڑے ہو کر ٹریفک کا نظارہ کر لیں تو دل کہتا ہے کہ یہ تو ہو بہو ہمارے سیاسی نظام کی عکاسی ہے۔
 

شیئر: