Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

محمد اقبال چوہدری:سعودی عرب میں کرکٹ کی عظیم شخصیت

 
38سال تک سعودی عرب کی کرکٹ میں دوستی اور یکجہتی کا علم بلند کئے رکھا،کرکٹ سے پیار ان کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا، جو دل ہر وقت کرکٹ گراونڈ میں لگا رہتا وہی دل مہلت ختم ہونے پربے وفائی کر گیا
سید مسرت خلیل ۔ جدہ
محمد اقبال چوہدری جدہ کرکٹ ایسوسی ایشن کے چیف ایگزیکٹوآفیسر (سی ای او) 22اگست 2018ءکو لاہور میں 75برس کی عمر میں وفات پا گئے۔محمد اقبال چوہدری کے دیرینہ دوست سید مسرت خلیل کے مطابق وہ 1981ءسے جدہ میں قیام پذیر تھے ۔ پیشہ کے لحاظ سے تو اکاونٹس کی فیلڈ کے مانے ہوئے کھلاڑی تھے مگر کرکٹ ان کے دل میں بسی تھی اور اس کھیل سے پیار ان کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا۔ اقبال چوہدری کا زمانہ طالب علمی چونکہ لندن میں گزرااسی کے باعث کرکٹ میں ان کی دلچسپی ، انسیت اور پھر پیار پروان چڑھا۔ یہی وجہ تھی کہ جدہ آنے کے بعد انہوں یہاں پاک ینگ کے نام سے کرکٹ کلب قائم کیا یہ کلب کچھ ہی عرصہ میں مستحکم او رمشہور ہو گیا۔ شروع میں کلب کے کپتان شاہد شبیر تھے اور کھلاڑیوں میں معروف سلیم عبدالغنی، گوگی، ہمایوں فاروق، حیدرشاہ اور دیگر شامل تھے۔
جدہ میں ممتاز ماہر تعلیم و دہلی پبلک اسکول کے ڈائریکٹر ضیاء عبداللہ عباس ندوی نے جب اپنے بہنوئی ندیم ندوی کے کرکٹ کے شوق کو برقرار رکھنے کیلئے ایک اور کرکٹ کلب اورینٹل شپنگ کے نام سے قائم کیا ۔ اس کلب نے بھی کافی شہرت حاصل کی۔اس کلب کیلئے بھی اقبال چوہدری کی دلچسپی اور کاوشیں بے پناہ رہیں۔ ندیم ندوی ان دنوں سعودی کرکٹ سنٹر کے سی ای او کے طور پرکرکٹ کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔جدہ کی ان دونوں کرکٹ کلب کے مابین ہر ہفتے دوستانہ میچ کا انعقاد ہوتا جس میں کرکٹ کے چاہنے والے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور اسے پرجوش اور یادگار بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ، چوہدری اقبال کی ان میچوں کیلئے کاوشیں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ کچھ ہی عرصہ بعد ضیاء بھائی نے اپنی ٹیم کوجے سی اے میں رجسٹرڈ کرانے کا فیصلہ کرلیا۔ 
1985ءمیں جب جدہ کرکٹ لیگ (جے سی ایل) کے بانی ایگزیکٹو محمد شریف کی ہندوستان کیلئے مستقل واپسی کے باعث یہ اہم عہدہ خالی ہورہا تھا تو لیگ کے بانی صدر شاہد امین نے محمد ہاشم ، انیس الہدیٰ، خالد زیدی، احمد عباس ، محمد افتخار حسین، عبدالباری اور بہت سے دیگر با صلاحیت انتظامی امور کے ماہرین کی موجودگی میں محمداقبال چوہدری کاانتخاب کیا۔انتہائی ملنسار ، مخلص اور انسان دوست محمداقبال چوہدری نے شب وروز کی محنت اور اپنی بھرپورصلاحیتوںسے جے سی ایل کو پورے سعودی عرب میں موجود برصغیر کے تارکین وطن کی کرکٹ تنظیموں میں بام عروج تک پہچادیا ۔نظام قدرت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے اسی طرح جے سی ایل کے ساتھ بھی ہوا جو اب داستانوں تک محدود ہے۔اس کے بدلے 2008ء میں جدہ کرکٹ ایسوسی ایشن (جے سی اے) کے نام سے ایک نئی تنظیم وجود میں آئی۔ اس تنظیم جے سی اے نے محمد اقبال چوہدری کی خدمات کو سراہتے ہوئے انھیں اس تنظیم کاچیف ایگزیکٹیومنتخب کیا۔ عمر رسیدہ ہونے کے باوجود ان کے عزائم جوان تھے اور کرکٹ کیلئے بھرپور توانائیاں رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ تادم مرگ یہ عہدہ ان کے پاس رہا۔ 
جے سی اے کے صدر انجینیئراعجاز احمد خان کے مطابق محمد اقبال چوہدری عظیم شخصیت کا نام ہے، فرشتہ صفت انسان ، کرکٹ کے ہر شعبے کو بہت اچھی طرح پہچاننے والے بہترین کرکٹر ،اسپورٹس مین اسپرٹ کا ہر لمحے خیال رکھنے والے آدمی تھے، تعصب نام کا شائبہ تک ان میں نہیں تھا، نہ ہندوستانی نہ بنگلہ دیشی اور نہ ہی پاکستانی ، نہ سندھی نہ پنجابی نہ اردو اسپیکنگ اور نہ ہی پٹھان فقط ایک انسان ایسا انسان جو تفرقے سے پاک کرکٹ کا دیوانہ ہے۔ کیا غریب کیا امیر ان کی نظر میں انسانیت سب سے بڑا خزانہ رہا ۔اعجازخان اگر اپنی یادیں تازہ کریں تو محمداقبال چوہدری کا ہمیشہ انہیں ایک اچھے اور مخلص دوست کی مانند انتہائی قربت حاصل رہی ۔ کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے عقب میں جے سی ایل کے گراونڈ تھے ، اس کے بعدبحر احمر کے کنارے ابحر پر جے سی اے کے گراونڈ بنے غرضیکہ برسہا برس جہاں جہاں کرکٹ وہاں وہاں محمد اقبال چوہدری کا ساتھ ۔ کچھ عرصہ قبل وہ دل کا روگ لگا بیٹھے تھے جس کے باعث انہیں ہارٹ اٹیک بھی آیا اور یہی وجہ تھی کہ اعجاز خان انہیں گاڑی بھی چلانے نہیں دیتے تھے اور کرکٹ کی تمام مصروفیت میں ان کا ساتھ ایسے دیتے کہ انہیں گاڑی ڈرائیو نہ کرنی پڑے چونکہ ڈاکٹرز نے انہیں گاڑی چلانے سے منع کر رکھاتھا۔ اقبال چوہدری کی موجودگی میں وقت پر لگا کر اڑتا جب ہم صبح 6 ، ساڑے 6 بجے گراو¿نڈ پہنچ جاتے اور شام کو میچ ختم ہونے کے بعد 8،9 بجے عشاءکی نماز پڑھ کر گھر واپس آتے۔ اکثر اوقات صبح کے ناشتے سے رات کے کھانے تک اکٹھے ہوتے ۔سادہ اور درویش طبیعت انسان میںکبھی کوئی تکلف نہیں دیکھا۔اگر کسی کرکٹ میچ میں کھلاڑی نہیں پہنچا یا کھلاڑی کم ہے توخود گراونڈ میں اتر جاتے تھے۔ اگر کسی دوسری ٹیم کوکھلاڑی چاہئے تو بھی کھلاڑی کا بندوبست کر دیتے، کبھی کسی کھلاڑی کیلئے ڈریس کاانتظام کر رہے ہیں تو کبھی گاڑی میں سے نئے جوتے کی جوڑی نکال کر پیش کر رہے ہیںحتیٰ کہ نہ صرف گراونڈ میں بلکہ باہر بھی ضرورت مند کا خیال رکھنے اور اس کی مدد کرنے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ 
محمد اقبال چوہدری نے کرکٹ نے سعودی عرب میں کرکٹ کو پروان چڑھانے کیلئے ہر قسم کی مدد اور رہنمائی کی اگر یہ کہا جائے کہ ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ اس باغیچے کی باغبانی میں گزرا تو غلط نہ ہو گا۔ لیگ میچز ہوںیا کرکٹ فیسٹیول ، پاکستانی یا ہندوستانی قونصلیٹ کے نمائشی میچز ہوں یا انٹر اسکول یا انٹرسٹی ٹورنامنٹ ہر وقت ان کی خدمات حاضر رہتیں۔وہ گراو¿نڈ کا چکر ضرور لگا تے اور کھلاڑیوں کے حوصلے بڑھاتے رہتے تھے۔ اٹیکنگ یا ڈیفنسیو کھیل کیلئے اپنے مفید مشوروں سے نوازتے رہتے ۔ انٹر سٹی ٹورنامنٹ کیلئے فوراً ہی اپنی ٹکٹ بک کرا لیتے اور بیگ تیار رکھتے جب تک ٹورنامنٹ جاری ہے ہر میچ میں ٹیم کے ساتھ ہوتے۔ ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ میٹنگ کرتے اور تمام کھلاڑیوں کو خاص طور پر ڈسپلن کا خیال رکھنے پر سب سے زیادہ زور دیتے۔
جے سی اے ایس ٹریول ٹورنامنٹ کا فائنل اور تقریب تقسیم انعامات ان کی زندگی کی آخری تقریب ثابت ہوئی۔ اس دن انھوں نے ہمیں روک کر کہا تم اور عبدالرحمان مرچنٹ دوپہر کو آنا میں صبح پہلی گیند سے میچ دیکھنا چاہتا ہوں۔ یہ انکی زندگی کا آخری فائنل میچ تھا جو انہوں نے دیکھا ۔ وہ پہلی سے آخری گیند تک میچ دیکھتے رہے پھرشام کو تقریب تقسیم انعامات میں بھی شامل رہے۔ اس موقع پر جے سی اے کے ہارون عبداللہ، حامد رانا اور عبدالرحمان مرچنٹ سے کہا کہ میں کافی تھکاوٹ محسوس کررہا ہوں اس لئے تقریر نہیں کرسکتا ۔ میری جگہ اعجاز احمد خان ہی مہمانوں کو خوش آمدید کہیں اور پھر تقریب کے اختتام پر وہ انتہائی نڈھال حالت میں آہستہ آہستہ گاڑی کی طرف آئے۔ عرصہ دراز ہمارا ایک ساتھ گزرا  اقبال چوہدری صاحب کی سب سے خاص بات یہ دیکھی کہ انہیں کبھی کسی سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہوتا تھا۔ سعودی عرب میں کرکٹ کی تمام تنظیموں کے عہدیداروں اور کھلاڑیوں کے ساتھ ہمیشہ ان کے نہایت دوستانہ اور خوشگوار تعلقات رہے۔ یہاں تک کہ اگر انہیں یکجہتی کی علامت کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ان کی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ساتھ آخر میںہماری محترمہ بھابھی صاحبہ کا بھی ذکر کیا جائے تو وہ بھی انتہائی نفیس اور ملنسار خاتون ہیں۔ میرے ساتھ ساتھ شعبہ کرکٹ سے تعلق رکھنے والے بہت سے دیگر دوستوں کی فیملیوں کے ساتھ ان کے انتہائی مخلصانہ اور دوستانہ مراسم قائم ہیں۔
محمد اقبال چوہدری دل کی تکلیف میں مبتلا تھے اور خصوصی چیک اپ کیلئے لاہور تشریف لے گئے تھے جہاں پر زندگی نے انہیں جدہ واپس آنے کی مہلت نہ دی اور وہ جہان فانی سے رخصت ہو گئے۔ ان کی تدفین بھی لاہور میں ہوئی۔ ویسے تو اقبال چوہدری کی جدائی ہم سب کو ہی سوگوار کر گئی ہے لیکن ہمارے ساتھ ان کے پسماندگان میں بیوہ ، 2 بیٹے ڈاکٹر افضل اور انجینیئر اقدس کے علاوہ ایک بیٹی (ڈاکٹر میمونہ) سوگواروں میں چھوڑی ہے۔ محمد اقبال چودھری کی نفاست اور خوش مزاجی کے باعث نہ صرف پاکستانی بلکہ سعودی عرب میں بہت سی دیگر کمیونٹیز میں بھی یکساں مقبولیت حاصل تھی۔ ان کی وفات سے سعودی عرب میں کرکٹ کی دنیا ایک انتہائی اور باکمال انتظامی امور کے ماہر شخصیت سے محروم ہو گئی ہے۔ کرکٹ جیسے کھیل کے ساتھ ساتھ سماجی اور رفاہی خدمات بھی ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ ان کے انتقال پر پاکستان حج والنیٹرز گروپ (پی ایچ وی جی) کے ایک سینیئر والنٹیئر نے بتایا کہ گزشتہ سال وہ بطور والنٹیئر بھی ہمارے ساتھ تھے مگر اس بار علالت کے باعث ہم ان کی خدمات سے محروم رہے ۔
سعودی کرکٹ کے سی ای او ندیم ندوی، زاہر اسکندر، زاہد قریشی، سلیم صدیقی،حامد رانا، پروفیسروسیم شاہد، امریکہ سے حیدرشاہ ، شریف زمان، لندن سے جے سی ایل کے بانی صدر شاہد امین اور بہت سے دیرینہ دوستوں نے محمد اقبال چوہدری کے بچھڑنے پر اپنے دکھ کااظہار کیا اور بوجھل دل سے ان کیلئے تعزیتی پیغامات ارسال کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور درجات بلند فرمائے،
آمین۔         
                 
 

شیئر: