Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم وطن شخصیات اور من پسند پکوان ہوں تو پردیس کا احساس نہیں ہوتا،مشرف شمیم

 
 زینت شکیل۔جدہ
رب السمٰوات والاض، زمین و آسمان اور اس کے درمیان جومخلوق ہے، ان سب کا مالک ہے۔ جب انسان کو شیطان کی طرف سے کچھ وسوسہ آنے لگے توفوراً مالک حقیقی کی پناہ مانگ لینی چاہئے ۔بلاشبہ وہ خوب سننے والا جاننے والا ہے ۔ ایک عالم متمنی ہے سکون قلب کا۔ جان لینا چاہئے کہ تلاوت قرآن مجید دل کے اطمینان و سکون کا ذریعہ ہے ، قرآن کریم ہدایت کا سرچشمہ ہے ۔ 
انسان جہاں جس جگہ رہے ،اس کے ارد گرد رہنے والے اس کے پڑوسی اس کے لئے اہمیت رکھتے ہیں ۔اسی سلسلے میں ہماری گفتگو اس ہفتے ہوا کے دوش پر محترم شمیم الرحمن اور انکہ اہلیہ محترمہ مشرف شمیم الرحمن سے ہوئی۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے شمیم صاحب، آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں رہتے ہیں۔ ان کی ذمہ داری وہاں کی مسجد میں امامت کرانے کی ہے۔ انکی بیگم کا کہنا ہے کہ ہمیں اچھے پڑوسی کے لئے دعا بتائی گئی ہے ۔اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی کے لئے بھی اس کے ارد گرد رہنے والے کتنے اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ بیرون ملک اگر ہموطن شخصیات سے میل جول ہو اور کھانے کے لئے من پسندپکوان میسر ہوں تواپنا گھر اپنے ملک سے باہر محسوس نہیں ہوتااور پردیس کا احساس بھی دامن گیر نہیں رہتا۔
محترمہ مشرف رحمن نے بتایا کہ انکے والد چونکہ قونصلیٹ میں ملازمت کرتے تھے چنانچہ ہمارا بچپن مختلف ممالک میں گزرا ۔جہاں گئے وہاں اپنے ملک کی چیزیں میسر تھیں۔ سب کچھ اپنے قونصلیٹ میں مل جاتا تھا، چاہے وہ دال چاول ہو ں، انواع و اقسام کے موسمی پھل ہوں یا خشک میوہ جات ۔
قومی تہوار پاکستانی کمیونٹی کے افراد مل جل کربے حد جوش و ولولے سے منایا کرتے تھے ۔آج ہم یہ سوچتے ہیں کہ کیا پہلے ہمارا جوش و جذبہ زیادہ تھا یا بچپن تھا کہ جس میںہر کام ہی جوشیلے انداز میں کیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں رہے تو وہاں کے اسکولوں میں دیکھا کہ بچے بہت سیدھے سادھے ہوتے تھے ۔ آپس میں لڑنا جھگڑنا بالکل نہیں ہوتا تھا ۔ انکی مائیں محنتی ہوتی تھیں۔ وہ اکثر کام پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے بچوں کو اسکول پہنچاتی تھیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں جتنی آسانی کے ساتھ نوکرانیاں مل جاتی ہیں، بیرون ملک اس کا تصور ہی ناپید ہے۔ کئی سال سال رہنے کے بعد والد کاتبادلہ جرمنی ہوگیا ۔وہاں بھی خوب مزہ آیا ۔وہاں کی ہریالی اور لینڈ اسکیپ دل موہ لیتے تھے۔ویک اینڈ پر سب ہم وطنوں کا کوئی نہ کوئی پروگرام بن جاتا۔ وہاں کے کئی شہروں میں گھومنے کا موقع ملا ۔جب کالج کی پڑھائی شروع ہوئی تو پاکستان میں ویمنز کالج میں داخلہ لیا کیونکہ پری میڈیکل کی پڑھائی کرنا اتنا آسان بھی نہیں تھا۔کراچی میں اپنے ناناجان اور نانی جان کے ہمراہ رہنے کا موقع ملا۔ خاندان بھر میں باری خالو اور قمرو خالہ امی کے نام سے پکارے جاتے تھے ۔ انہیںسب ہی بہت عزت دیتے تھے ۔ہماری نانی جان بہت سادہ رہتی تھیں لیکن انہیں گھر اور باہر کے کاموں میں کافی مہارت حاصل تھی۔ جس طرح میں تعلیم کے سلسلے میں انکے پاس تھی اسی طرح ہماری کزنز بھی پڑھائی کے سلسلے میں آئی ہوئی تھیں ۔
اسے بھی پڑھئے:زندگی میں سکون و آرام کے لئے خواہشات کو بے لگام نہ ہونے دیں، ثنا ءدرانی
خالہ جان جوشادی کے بعد سے بیرون ملک رہ رہی تھیں، انہوں نے بھی پڑھائی اپنے ملک کی ہی اہم جانی ۔ اسی لئے ہم سب کا وقت بہت اچھا گزرا اور چونکہ نانی جان بہت ایکٹو تھیں تو ہمیں کہیں آنے جانے یا شاپنگ کرنے میں بھی دشواری نہیں ہوتی تھی۔ اس لئے ہماری ہر فرمائش پوری ہوجاتی تھی۔
نانا جان سرکاری نوکری کرتے تھے۔ مصروف رہتے تھے ۔آفس سے چھٹی نہیں کرتے تھے تو ایک دفعہ عید قرباں پر ایسا ہوا کہ نانی جان انہیں قربانی کے لئے جانور لانے کا یاد دلاتی رہیں اور وہ کہتے رہے کہ ہاں آج کام ہے، کل لے آئیں گے اور یہ اتفاق ہی تھا کہ نانی جان اپنے کمپاﺅنڈ سے باہر کسی کام سے گئیں توکچھ دور کئی بکرے بندھے نظر آئے۔ پوچھنے پر معلوم ہو ا کہ مالکان یہ بکرے فروخت کرنا چاہتے ہیںاور وہ خریدار کے انتطار میں ہیں۔ اس رہائشی جگہ پر ایسا ہوتاتو نہیں تھا لیکن انہیں بکرامل گیا۔ پھر کیا تھا انہوں نے عید قرباں کے لئے بکرا خرید لیا جب گھر والوں کو معلوم ہوا ،خاص طور پر بیرون ملک رہنے والے بیٹے بیٹیوں کوپتا چلا تو وہ بے حد حیران ہوئے کہ یہ کانامہ بھی آپ نے انجام دے دیاکہ عید پر قربانی کے لئے بکرا بھی خرید لائیں۔
محترمہ مشرف رحمن نے کئی ملکوں کی سیاحت کی ، کئی ممالک میں رہائش کا موقع ملا۔ان کا کہنا ہے کہ انسان جہاں رہتا ہے وہاں کی معاشرت سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔ مختلف جگہوں پر انکے اہم مقامات ، انکے تعلیمی ادارے، انکے خوردو نوش کی جگہیں اور کھیل کے میدانوں کے علاوہ انکی مقامی رسم و رواج انکی ثقافت کو پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک دنیا بھر میں اپنی پہچان بھرپور طریقے سے کراتے ہیں ۔
محترمہ مشرف شمیم نے بتایا کی انکی نانی جان کی اپنی کزنز سے ایسا ہی معاملہ رہا جیسا کہ اپنی سگی بہنیں ہوں اور اس کی ہی وجہ سے یہی سلسلہ آج تک قائم ہے۔ہماری امی جان کی اپنی دونوں بہنوں کے ساتھ جب کوئی تصویر اتاری جاتی ہے تواسے سب ہی کو شیئرکیا جاتا ہے کیونکہ مختلف ممالک میں رہنے کی وجہ سے بہت اچھا لگتا ہے۔ جب ایک ملک میں عید یا کسی اہم موقع پر تینوں بہنیںیکجا ہوتی ہیںتو انکی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔
مشرف رحمن نے بتایا کہ انہوں نے سیکنڈ ایئر سائنس میں کیا پھر آرٹس کے مضامین میں بیچلرز ڈگری حاصل کی ۔خاندان میں ہی رشتے کی بات چلی اور منگنی کی تقریب ہوئی پھرتمام رشتہ داروں کی بیرون ملک سے آمدکے موقع پر شادی کی تقریب رکھی گئی چونکہ گھر کی بات تھی ،اس لئے دونوں طرف سے ہی آسانیاں میسر آئیں۔ مایوں مہندی میں بزرگ رشتہ دار خواتین نے خوب گیت گائے۔ کئی گیت تو سب کے ساتھ مجھے بھی یادہوگئے۔چونکہ ایک ہی خاندان ہونے کے باعث ہماری رسومات ایک ہی جیسی تھیں تو سب ہی نے خوب حصہ لیا۔مایوں کے دن ہی نکاح ہوا۔ نکاح مسجد میں ہوا اور گھر پر کچھ رسمیں ادا کی گئیں ۔نانی جان کا اپنے ہاتھوں سے چھپا ہوا گلابی رنگ کادوپٹہ آج بھی محفوظ ہے جس پر انہوں نے سفید پولکا ڈاٹس بنائے تھے اور اس سے ہی دولہا دلہن کی رسم کے وقت لڑکیوں نے سائبان کی طرح سایہ کیا ہوا تھا ۔
شمیم الرحمن کے والد انجینیئرتھے۔ والدہ ہاﺅس وائف تھیں۔بچوں کی تربیت میں دونوں نے ہی محنت کی۔ یہی وجہ ہے کہ کم عمری 
 میں انہوں نے قرآن کریم حفظ کیا۔ 8 سالہ کورس عالم فاضل کا مکمل کیا اور اپنے محترم استاد کی رہنمائی میں بطور مفتی کئی مسائل کے حل پیش کئے۔ بعد ازاں پہلے نیوکاسل پھر سڈنی شہر کی مشہور مسجد میں امام مقرر کئے گئے ۔انہوں نے بیچلرز ڈگری بھی حاصل کی۔
والدہ کی فرمانبرداری میں دور رہ کر بھی کمی نہ آئی۔ شادی کے بعد دونوں نے ایک نے ماحول میں اپنے ملک کی شناخت برقرار رکھی۔ اچھا پڑوس ملے اور دینی رہنمائی جاری رہے اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت اس دنیا میں مل سکتی ہے، مسجد کے قرب میں گھر ملا، بہترین پڑوسی ملے، دوستی ہوئی اور دوستی بھی ایسی کہ ایک ہی خاندان کے افراد محسوس ہونے لگے۔ پہلے معاذ اس گھر میں رونق افروزہوئے پھر اس رونق کو بڑھانے کے لئے سرور آگئیں۔ دونوں بچے اپنی اپنی طبیعت میں مختلف ہیں لیکن دوستی بہت زیادہ ہے۔ پڑھائی میں مضامین مختلف ہیں ۔
مشرف رحمن سے جب یہ سوال پوچھا جاتا کہ انہیں اپنے نا م کے حوالے سے کبھی کسی پریشانی کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا؟ ان کا جواب ہوتا کہ انہیں اپنا نام بہت پسند ہے ۔دنیا میں جہاں کہیں بھی انہوں نے سفر کیا، وہاں کچھ لوگ ضرور ایسے مل گئے جو ہمارے ملک کے بارے میں کم از کم سیاسی حالات سے ضرور آگاہ ہوتے تھے اور ہمارے ملک کے صدراور اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا ذکر بھی کرتے تھے ۔وہ کارگل ہیرو کے نام سے بھی انہیں پکارتے تھے۔ مجھے پاکستان کے آرمی چیف کے نام کی مماثلت پر کئی لوگ سیاسی سوالات کر ڈالتے تھے اور مجھے حیرت زدہ کر دیتے تھے ۔سفر کے دوران میرے پاسپورٹ کو چند لمحے کے لئے غور سے دیکھتے پھر اسٹیمپ لگا تے جیسے اس نام سے بہت زیادہ آشنا ہوں۔
شمیم رحمن کا کہنا ہے کہ ان کی اہلیہ مشرف، بہت خوش مزاج ہیں۔ سادگی پسند ہیں، لوگوں میں جلد گھل مل جاتی ہیں۔ فراخ دل ہیںاور اچھی میزبان ہیں ، ایسی میزبان کہ مہمان نوازی کرکے خوشی محسوس کرتی ہیں۔ بزنس ایڈمنسٹریشن کے کئی کورسزمکمل کرنے کے بعد بارہ سال تک ایک اچھے ادارے کے شعبہ ایڈمنسٹریشن میں فرائض بھی انجام دے چکی ہیںلیکن اس کے باوجود انہوں نے گھر اور بچوںکو بھی بھرپور وقت دیا۔یہ انہی کی تربیت ہے کہ صاحبزادے نے آج انجینیئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے دوران ہی پریویس کی کلاسز لینے لگے اور اب وہ ایک یونیورسٹی میں بطور استاد تعینات ہوچکے ہیں۔ ہماری صاحبزادی یہاں کی بہترین یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں وہ اپنے بیچلرز پروگرام کے دو سمسٹر مکمل کرچکی ہیں۔ وہ بھی ملنسار ہیں۔ گھر آئے مہمانوں کی خاطر مدارات میں پیش پیش رہتی ہیں ۔
محترمہ مشرف نے بتایا کہ شمیم صاحب اپنے والدین کے بہت فرمانبردار رہے۔ انہوں نے ہمیشہ بچوں کو یہی سکھایا کہ ہم جب ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں تو اس سے خوشی ملتی ہے، بزرگوں کی دعائیں ملتی ہیں اور دعائیں ہی سب سے قیمتی ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ کئی ممالک کی سیاحت کی تو ہر جگہ خوب لطف آیا۔ میرے شوہر شمیم بچوں کی خوشی کے لئے اکثر پروگرام بنالیتے ہیں ۔گھر کے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔ اپنی والدہ کی طرح صفائی میں لگے رہتے ہیں۔ بیک یارڈ میں کوئی نہ کوئی کام ہوتا رہتا ہے چاہے موسم کیسا ہی ہو ۔جب یہاں تقریبات میں ایسی جگہ جانا ہوتا ہے جہاں شمیم کو بطورنکاح خواں، نکاح پڑھانے کے لئے بلایا گیا ہو تو ہمیں بہت وی آئی پی بنادیا جاتا ہے لیکن سچ تو یہی ہے کہ ایسی شادیوں کی تقریبات میں ہمیں بھی بہت اچھا لگتا ہے ۔ شمیم صاحب اپنے بھائیوں اور بہن کے سب سے پسندیدہ بھائی ہیں جو ہر ایک کا بے حد خیال کرتے ہیں۔
 
 

شیئر: