Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”’اچھی باتیں، صرف باتیں اور بُری باتیں“

شہزاد اعظم
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھانت بھانت کا پانی پینے کے باعث انسان میں بھانت بھانت کی خوبیاں بھی عود کر آتی ہیں۔اس کا ثبوت ہمارے ”آئیڈیل فرینڈ“ ہیں جن کا نام ”ڈبو“ ہے۔ یہ اُن کا خاندانی نام نہیں بلکہ ہمارے محلے میں کسی نشے کی طرح عام ہونے والے کھیل”ڈبو“ کا وہ پہلا شکار بنے تھے، اسی تناظر میں اُن کا نام ”ڈبو“ رکھ دیا گیا تھا۔ڈبوصاحب قسمت کے دھنی ہیں کیونکہ وہ اکثر و بیشتر بیرون ملک دورے پر رہتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ موصوف ہمارے وطن عزیز میں ایک ”کرپٹ“ سیاستداں کے مالشیے ہیںچنانچہ انہیں ان گنت ممالک گھومنے کا موقع ملتا ہے اورنتیجتاًڈبو کی فہم و فراست” بلندیوں“کو چھو رہی ہے۔وہ جب بھی ملتے ہیں،ہمارے دماغ کے ”شعبہ¿ ذہانت“ کی بنجر زمین میں ”تخمِ آگہی “بو دیتے ہیں۔17جنوری 2013ءہمارے لئے ایک اور ”بختاور“ یوم ثابت ہوا کیونکہ اس روز ڈبو سے ہماری گفتگو ہوئی۔ اس مرتبہ انہوں نے ہماری ذہانت میں متنوع ”بوائی“ کی۔ہماری دلی خواہش ہے کہ اس” منفرد آگہی “سے آپ بھی استفادہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں اس لئے گفتگو کا مختصر مگر جامع احوال نظر نواز ہے۔ڈبو صاحب یوں گویا ہوئے:
”یار!تعلیمی لحاظ سے پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک کے ماحول میں بھی ایسا ہی فرق ہوتا ہے جیسے کراچی میں واقع ”گیدڑ کالونی“ اور ”خیابانِ شمشیر“کے احوال میں سیاہ و سفید یا آسمان و زمین کا تفاوت پایا جاتا ہے ۔تعلیم یافتہ ممالک میں آوارہ گردی کرنے والے بھی معاشرے سے کچھ نہ کچھ اچھی بات سیکھتے ہیںجبکہ تعلیمی لحاظ سے پسماندہ معاشروں میںاہم مقصد کے لئے جدوجہد کرنیوالے پڑھے لکھے بھی شاہراہِ جہالت پر سرپٹ دوڑنے لگتے ہیں۔میں نے تعلیمیافتہ معاشروں سے کچھ نیایہ سیکھا ہے کہ باتیں 3قسم کی ہوتی ہیں”اچھی باتیں، صرف باتیں اور بُری باتیں۔“ایسی اچھی باتیں جس پر نسل در نسل عمل کیا یا کروایا جائے ”اقدار“ کہلاتی ہیںاور ان پر عمل کرنے یاانہیں گلے سے لگائے رکھنے والے لوگ ”اقدار کے امین “ کہلاتے ہیں۔اقدار ہمیشہ قابلِ رشک ہوتی ہیں جن سے کسی بھی قوم کی انفرادیت اور شناخت واضح ہوتی ہے۔اسی طرح بعض باتیں ”صرف باتیں“ ہوتی ہیں،جو اچھی ہوتی ہیں اور نہ بُری، اس کے باوجود ان باتوں کو نسل در نسل سینے سے چمٹائے رکھنے والے لوگ ”لکیر کے فقیر“ کہلاتے ہیں۔ یہ باتیں بھی قوم کی شناخت بن جاتی ہیں مگر یہ قابلِ رشک ہرگز نہیں ہوتیں۔بعض باتیں ”بُری باتیں“ہوتی ہیں مگر ان پر بھی پشت در پشت عمل کیا جاتا ہے۔ انہیں اپنے گلے ڈالے رکھنے والے لوگ ”عادی مجرم“ کہلاتے ہیں۔ یہ کسی بھی قوم کے لئے باعثِ ندامت و تمسخر اور دیگر اقوام کے لئے عبرتناک ہوتی ہیں۔ ان بُری باتوں کی ایک مثال ”کرپشن“ یا ”بدعنوانی“ ہے۔
میں حال ہی میںتعلیمیافتہ ملک سے لوٹا تو کل ہی وطنی سیاسی رہنما سے بھی کچھ نیا سیکھ لیا۔یہ رہنما ہمارے ملک کے ایک نجی چینل کے ٹاک شو میں ”معزز“ مہمان کی حیثیت سے مدعو تھے۔ اینکر نے سوال کیا کہ ”یہ فرمائیے کہ پہلے تو حکومت نے اسلام آباد لانگ مارچ کو ابتدا میں ہی روکنے کی کوشش نہیں کی اورجب ہزاروں کی تعداد میںخواتین ، بچوں ،بوڑھوں اور جوانوں نے اسلام آباد پہنچ کر یخ بستہ موسم میںکھلے آسمان تلے دھرنا دیا تو4روز تک ان کی ایک نہ سنی گئی اور پانچویں روزان سے مذاکرات کر کے دھرنا ختم کرا دیا گیا۔آپ یہی کام پہلے کر لیتے تو کم از کم معصوم بچوںاور پرامن شہریوں کو اس خوفناک اذیت سے بچایا جا سکتا تھا،ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟“ وطن عزیز کے کہنہ مشق ،مقبول سیاسی رہنمانے جواب یوں مرحمت فرمایا کہ ”یہ جمہوریت ہے اور جمہوری فیصلوں میں توتاخیرہوتی ہے۔“ان کا یہ جواب میرے لئے بیک وقت عاقلانہ، ماہرانہ،شاطرانہ،ناصحانہ اور ظالمانہ نوعیت کا تھاجو مجھے ایسی ”غیر سیاسی آگہی“ عطا کر گیا جس سے مجھے 40برس قبل ذہن میں وارد ہونے والے سوال کا جواب مل گیا۔ سوال یہ تھا کہ میں 18برس کی عمر میں جوان ہوا مگر شادی 36برس کی عمر میں ہوئی ۔ایک میں ہی نہیں بلکہ ہمارے ہاں اکثر حضرات کے ہاتھ جوانی کے آخری ایام میں ہی پیلے ہوتے ہیں۔آخر ایسا کیوں ہے؟سیاسی رہنما کے جواب سے میسر آنے والی ”غیر سیاسی آگہی“نے ہمیں یہ سمجھایا کہ ”بڑے صاحب! ہمارے معاشرے میں شادی بھی ایک ”جمہوری فیصلہ“ہوتی ہے۔ اس میں ماں، باپ، بہن، بھائی، بھانجے بھتیجے، بھانجیاں بھتیجیاں اور گاہے محلے داروں سمیت ”سینچری بھر“ افراد شریک ہوتے ہیں۔ وہ لڑکے کے لئے100لڑکیاں دیکھنے کے باوجودکسی کو بھی ”چاند سی دلہن“ قرار دینے پرمتفق نہیں ہو پاتے۔ کئی برس گزرنے کے بعدجب لڑکا عمر رسیدہ ہو جاتا ہے توکوئی ”نظر بٹو“ اُس کے گلے مڑھنے پرسب کے سب یہ کہتے ہوئے متفق ہو جاتے ہیں کہ ”اب اس عمر میں کوئی مہارانی تو ملنے سے رہی ۔جو مل رہی ہے ،صبر و شکر سے گھر بسانے کی کرو۔ویسے بھی خوبصورتی تو 4دن کی ہوتی ہے اور میاں! بزرگوں کا توکہنا ہے ہی کہ ”کام پیارا نہ کہ چام پیارا۔“یوں اس کی شادی ”جمہوری فیصلہ“ہونے کے باعث تاخیر کا شکار ہوجاتی ہے۔اس کے برخلاف ہمارے معاشرے میں طلاق کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ کسی کو شادی کے چند روز بعد، کسی کو چند ہفتے ، چند ماہ یا سال بھر کے اندر اندر ہی طلاق کا طوق پہنا دیا جاتا ہے۔ طلاق کا فیصلہ بہت جلدی ہوتا ہے کیونکہ یہ ”جمہوری“ نہیں بلکہ ”آمرانہ“ یا ”شخصی“ یا عام فہم ”لغتِ جدید“ کے مطابق”مشرفانہ“ فیصلہ ہوتا ہے۔افسوس یہ ہے کہ ہمارے ہاںمہنگائی، لوڈ شیڈنگ، گیس کی لوڈ مینجمنٹ، بیروزگاری، ٹارگٹڈ کلنگ اورلانگ مارچ جیسے انسانی اور عوامی مسائل پر تو ”جمہوری فیصلے“ کئے جاتے ہیںمگرسیاسی رہنما¶ں کے ”سفر،حضر، مستقراور حتیٰ کہ ”اخراجاتِ مطبخ“میں لاکھوں کا اضافہ کرنے کے لئے آمرانہ فیصلے کئے جاتے ہیں۔کاش ان فیصلوں کے مقام میں ”تبدیلی“ کر دی جائے تو وطنِ عزیز ،ترقی یافتہ ممالک کیلئے بھی قابلِ رشک ہوجائے گا۔کیا یہ ”تبدیلی“ ہمارا مقدر ہو سکے گی؟

شیئر: