Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

” جو خودہواتنی خوبصورت، اسے میک اپ کی کیا ضرورت“

 اُم مزمل۔جدہ 
وہ وسیع ڈرائنگ روم میں چائے لئے آرہی تھی۔ وہ حریری پردے کے ہوا سے ہل جانے پر طویل راہداری کے آخری سرے پر بیٹھے اسے دیکھ سکتا تھا۔ مہمانوں کے ساتھ آئی اس نوعمر لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ سلام کے بعد کہاکہ آپ تو اتنی پیاری ہیں، لگتا ہے کہ ہم کسی پری یا شہزادی سے یہاں ملنے آئے ہیں۔ وہ شرمیلی مسکراہٹ لئے اس کی باتیں سن رہی تھی جو اس کے حُسن کی تعریف کئے جا رہی تھی۔ آہستگی سے کہنے لگی کہ آپ چونکہ خود بہت اچھی ہیں، اس لئے اتنی تعریف کر رہی ہیں ورنہ ایسی تو کوئی بات نہیں۔
چند ساعتوں کے بعد وہ درمیانی پردے کو ہٹاتے ہوئے وہاں پہنچا اور انکے قریب رکھی ٹرالی پر سے ایک گلاب جامن اٹھاتے ہوئے کہاکہ ” بھئی ہمشیرہ! تم نے تو انہیں یہیں روک لیا ۔ میں تواپنی پسندیدہ مٹھائی سے منہ میٹھا کر رہا ہوں۔ اب اپنی ہونے والی رشتہ دار سے پوچھ لو کہ انہیں کس جگہ کی مٹھائی اور کس بیکری کا کیک پسند ہے ۔ کل کے لئے آج ہی آرڈر دے دیا جائے گا۔
خاندان بھر میں سب سے بڑے ہونے کا فائدہ بہت ہے ۔ان کے کزنز ابھی بتارہے تھے کہ انکی کزن ویسے تو بہت اچھی ہیں لیکن پڑھائی کے معاملے میں بہت سخت ہیں ۔بھئی واہ! دیکھنے میں تو بالکل بے ضرر لگ رہی ہیں لیکن ہم پر سختی نہ کرنے کی ابھی سے درخواست کردو اور جواب سنے بغیر چابی جیب سے نکالتا،سیاہ چشمہ آنکھوں پر لگاتا ،ہال کمرے سے باہر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میں تو ابھی سے تیاری شروع کر دیتا ہوں۔ تم لوگ چھوٹے بھائی کے ساتھ گھر واپس آجانا۔ بہن تو بس اپنے بھائی کو تکتی رہ گئی جو ہمیشہ اپنے رشتے کی بات پر عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتاتھا، آج بابا جان کے دیرینہ دوست کے گھر اس مقصد کے لئے آئے تو جناب نے خود اپنا منہ بھی میٹھا کر لیا اور کل کا پروگرام بھی خود ہی بناگئے یعنی یہ سچ ہی تھا کہ وہ تو” جب دل آجائے تو نیک کام میں دیر کیوں کی جائے“ والے فارمولے پر عمل کرتے نظر آرہے تھے۔ 
مشترکہ خاندانی نظام میں رہنے کے باعث وہ چاروں بھائی اپنے آبائی طویل و عریض گھر میں اپنے اپنے پورشن میں علیحدہ رہنے کے باوجود ہر کام میں مشاورت کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پورا خاندان افہام و تفہیم سے اپنے مسائل حل کر لیا کرتا تھا۔ وہ چاہے خاندانی کاروبار کی بات ہو، بچوں کی پرورش کی ہو، سیر پر جانے کی ہو یا کوئی بھی کام ہو، بڑے اپنی محفل میں کسی نہ کسی طرح طے کر لیتے تھے ۔ان کے فیصلوں پر سب متفق ہوتے تھے۔
وہ بڑے بھائی کی پہلی اولاد ہونے کی بنا پر آبائی گھر میں اپنے تمام چچا زاد بھائی بہنوںسے عمر میں بڑی تھی اور کچھ ان کی چچا چچی نے یہ کہہ کر اسے گھروالوں کی نظروں میں معتبر مقام دلا دیا تھا کہ ہرایک کا اسکول سے واپسی میں ایک ہفتے میں ایک دن پورا کام چیک کرنا اور کوئی ٹیسٹ ہو تو اسکی تیاری کروانے کی ذمہ داری اس کی تھی۔ اس سلسلے میں اسکی اپنی پڑھائی اس لئے متاثر نہیں ہوتی تھی کہ وہ خود بہت اچھی منتظم تھی۔ سب کام مینج کر لیتی تھی۔ پڑھائی کے معاملے میں اس کو پوری اجازت تھی کہ وہ سختی بھی کرسکتی ہے۔ حتیٰ کہ کبھی کوئی سبق یاد نہ کرے تو اسکیل سے دوچار ہاتھ لگا دینے کی بھی خصوصی اجازت اسے حاصل تھی جبکہ عمومی طور پر گھر کے بزرگوں نے کسی کو بھی یہ اجازت نہیں دی تھی۔
وہ آنکھ کھولتا یا بند کرتا ،منظر ایک ہی سمایا ہوا تھا۔ اسے صبح کا انتظار تھا ،شاید اتنی اضطراری کیفیت میں کبھی رات کے گزرنے اور سحر نمودار ہونے کا لمحہ لمحہ منتظر نہیں رہا ہوگا۔ فجر کے بعد کافی دیر تک مسجد میں بیٹھا اذکار میں مشغول رہا یقین تھا کہ قدرت کا فیصلہ بہترین ہوتا ہے۔ گھر پہنچا تو فون کی بجتی ٹیون نے اپنی جانب متوجہ کیا اور جب دیکھا کہ بہن کا فون ہے تو آن کرتے ہی مذاق میں کہنے لگاکہ بھئی ہمشیرہ، معلوم ہوتا ہے تمہارا دل بھی اپنے بھائی کی محبت میں رات بھر آسمان کے ستارے گنتا رہااور اسی دوران اپنی ہونے والی بھابھی کے ویڈنگ ڈریس اور جیولری کا ڈیزائن بھی سوچ لیا اور اب مجھے کہا جائے گا کہ جو میں نے اتنی مشکل سے ڈیزائن سوچا ہے کہ پوری رات ہی اس میں گزر گئی تو اب جلدی سے اسے او کے کردیں۔ بھئی تمہیں اجازت ہے ، جو دل چاہے اور جیسا چاہے خریدلو۔ 
وہ لمحہ بھر کو رکا تو محسوس ہوا رونے کی آواز آرہی ہے ۔کیا تم رو رہی ہو جذباتی ہوکر؟ اس نے پوچھا ۔اس کی آواز قدرتی طور پر بلند ہوگئی تھی۔ حیرت سے دوسری جانب سے آتی آواز سنتے ہوئے اس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا۔ اس نے ہاسپٹل کا نام پوچھا اور بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ 
ہاسپٹل کا ماحول اسے ہمیشہ دل گیر کردیتا تھا لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ جہاں اکثر مریض اپنی جان کی بازی ہار جایا کرتے ہیں، وہاں وہ اپنے دل کی بازی ہارجائے گا۔طویل راہداری کے نسبتاً خاموش گوشے میں وہ دونوں کھڑے تھے۔ وہ پوری صورتحال جاننے کے بعد اپنا نقطہ نظر پیش کر رہا تھا کہ کم عمری میں جذبات کی رو میں بہہ کر ایسا قدم اٹھانے والے کو بعد میں خود ہی ہنسی آتی ہے کہ میں نے کیا بے وقوفی کا کام کیا تھا پھر اس وقت کہاں فیصلہ کیا جاسکے گا ۔
وہ آنسووں سے روتی ہوئی کہہ رہی تھی کہ شاید آپ اندازہ نہ لگا سکتے ہوں کہ ہمارے گھر میں کتنی بڑی پریشانی کی صورت پیش آگئی ہے ۔اس کے والدین میرے فیصلے کے منتظر ہیں۔وہ تشویش سے پوچھ رہا تھا کہ آپ لوگ کل ہمارے گھر والوں کو مثبت جواب دینے کے بعد کیا کوئی دوسرا فیصلہ کرنے کے مجاز بھی ہیں؟ وہ کہہ رہی تھی کہ اس وقت ہم لوگوں کو کیا معلوم تھا کہ وہ جو ہمارے چچا جان کا اکلوتا بیٹا ہے، ایسے اپنی جان کے درپے ہو جاے گااور ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو دوبارہ وہ اپنی جان لینے کی کوشش کرسکتا ہے۔ وہ اس کی بات سن کر اچانک غصے میں آگیا اور کہاکہ آپ کا وہ کزن جو آپ سے عمر میں دوسال چھوٹا اور تعلیم میں چار سال پیچھے ہے، اس کے ساتھ آپ اس لئے شادی کے لئے رضا مند ہو جائیں گی کہ وہ ایسی بے وقوفی دوبارہ نہ کرے، لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ آپ کے والدین بھی ایسا نہیں چاہیں گے ۔ وہ کہنے لگی کہ یہ کسی کی زندگی اور موت کا سوال ہے اور انسانیت یہی ہے کہ یہ فیصلہ کر لیا جائے۔
وہ اسے سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا رہا اور اس دوران اس کی آواز بھی بلند ہوتی گئی اور وہاں سے گزرنے والے اسپتال کے اسٹاف ممبرز یا مریضوں کے لواحقین انہیں کچھ نہ کچھ کہتے گزرتے جاتے تھے ۔کسی نے کہا کہ یہ جوڑا کتنا لڑاکا ہے کہ گھر کے باہر ہاسپٹل جیسی جگہ پر بھی لڑنے سے باز نہیں آرہا۔ یہ ایسا جملہ تھا کہ وہ اتنی ٹینشن میں بھی بھرپور قہقہہ لگانے سے اپنے آپ کونہ روک سکا۔
ڈھائی سال کے بعد وہ گھر خط لکھ کر بتا رہا تھا کہ جب میں یہاں نہیں آیا تھا تو میری زندگی میں صرف ڈانٹ ہی تھی کہ ایک نالائق 
 طالب علم کو پڑھنے کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کرنا چاہئے۔ ہاسپٹل میں نکاح کے بعد تم میری اور سخت گیر ٹیچر بن گئیں کہ اب جب میری 
 تعلیم مکمل ہوگی تو ہم دونوں کا مستقبل سنور سکے گا اور تمہاری محنت سے میں یہاں داخلہ لینے میں کامیاب ہوگیا ۔یہ میری دوسری کامیابی تھی 
 جو تمہاری مرہون منت تھی کیونکہ جب میں سواچتا ہوں تو دل خوشی سے لبریز ہوجاتا ہے کہ ہمارے خاندان کی سب سے حَسین لڑکی میری ہے 
 لیکن تمہارا ٹیچر والا روپ ہمیشہ میرے ذہن میں آتا اور اسی لئے میں نے یہاں پہلے سمسٹر میں اپنی کلاس فیلو سے شادی کرلی۔ وہ بے وقوف سی چھوٹی سی لڑکی مجھے ذہین سمجھتی ہے لیکن جب تم یاد آتی ہو تو دل کو یہ بھرپور خوشی ملتی ہے کہ تم حُسن کا پیکر صرف اور صرف میری ہو اور ہمیشہ میری رہو گی۔ اس نے کسی کو کچھ نہ بتا یا اور اپنے داخلے کی کوشش شروع کر دی۔ وہاں پہنچی تو پہلی ہی منزل پراسے اس فیملی سے ایئر پورٹ پر ملاقات ہوگئی جو اسے اپنا نا چاہتی تھی ۔ قدرت کی مدد اسے مل گئی۔ وہاں کے قانون سخت تھے ۔اسے حُسن کے پیکر سے ہاتھ دھونا پڑا کہ اگر اس کی بیوی کو معلوم ہوجاتا تو وہ اسے چھوڑ جاتی۔
چند ماہ کے بعد وہ گنگناتے ہوئے کہہ رہا تھاکہ بھئی ہمشیرہ، یہاں وقت کی قدر کی جاتی ہے۔ اب کتنی دیر تم لوگوں کو لگے گی تیاری میں اور آئینے میں دلہن کو دیکھتے ہوئے کہنے لگاکہ جو خودہے اتنی خوبصورت، اسے میک اپ کی کیا ضرورت۔“
اور ہمشیرہ صاحبہ اپنی بھابھی جان کو دعائیں دے رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ حُسن کو دوآتشہ کرنے کا حق ہر حَسین کو ہے۔“
٭٭جانناچاہئے کہ مالک حقیقی نے کائنات و حیات کو بے حد خوبصورت بنایا ہے۔

شیئر: