Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ساحل کو چھو کر: ”دوستو!یہی میری شریک حیات،میری جیون ساتھی“

سنا تم نے کہ یہ میراوعدہ نہیں ہے !!!!  رضا کی یہ سفاک سرگوشی ثانیہ کے کانوں میں سیسہ بنکر پگھل گئی، دادو اسٹیج پر کھڑے مسکرارہے تھے ، ندا بھی خوش تھی
ناہید طاہر۔ریاض
(قسط20)
پرنسپل صاحب کے ہمراہ اسٹاف کے سارے ارکان موجود تھے۔وہ کچھ نہیں سمجھ سکی اچانک ایک جانب سے رضا اپنے ہاتھوں میں سرخ گلاب تھامے اسکی جانب بڑھا چلاآرہا تھا۔ثانیہ کی دھڑکنیں شور کرنے لگیں۔خدایا زندگی کا یہ کونسا موڑ ہے۔۔۔۔؟
ہیجان انگیز دھڑکنوں کے درمیان اس سوال کا کوئی جواب ندارد تھا۔رضا نے اپنے چہرے پر خوبصورت مسکان سجا رکھا تھا۔فاصلے مختصر ہونے لگے۔ثانیہ کو اپنی سانسیں سینے میں گھٹتی محسوس ہونے لگیں۔وقت جیسے تھم گیا۔فاصلے مٹ گئے اوروہ اس کے بالکل سامنے دوذانو ہوکر بیٹھ گیا۔ بڑی محبت سے اس کے آگے پھول پیش کیا۔
ثانیہ عجیب الجھن کا شکار تھی۔
"دوستو۔۔۔! یہی میری شریک حیات، میری جیون ساتھی ہے جس سے میں نے گزشتہ ماہ بیاہ رچا یا تھا۔"
اس کی آواز میں شہد کی مانند مٹھاس تھی۔
"خدایا یہ کوئی خواب تو نہیں۔۔۔۔،"ثانیہ سوچنے لگی۔اگر خواب ہے تو بہت حیران کن۔۔۔۔۔۔۔! لیکن بہت حسین۔۔۔۔۔۔۔!!!
خوب صورت سرپرائز۔۔۔!!!پرنسپل صاحب تالیوں کے درمیان کہہ اٹھے،ساتھ میں سارا اسٹاف بھی ان کا ساتھ دینے لگا۔
"یہ۔۔۔۔۔یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟؟؟"ثانیہ کپکپاتی آواز میں پوچھ اٹھی۔
"تم ایک ایسی لڑکی ہو جسے آسائشوں سے زیادہ محبتیں متاثر کرتی ہیں۔ !!!مجھے احساس ہے تم بہت نازک ہو ،تمھیں صرف محبت کی نہیں بلکہ تحفظ کی ضرورت ہے اور یہ تحفظ تمھیں میں دوں گا۔۔۔۔ساری زندگی کے لئے۔۔۔یہ میرا وعدہ۔۔۔۔۔۔وہ لمحے کو رکا اور اس کے بالکل قریب چہرہ کرتا ہوا چپکے سے کہہ اٹھا!
"نہیں ہے۔۔۔۔!!!"
  سنا تم نے کہ یہ میراوعدہ نہیں ہے !!!!  رضا کی یہ سفاک سرگوشی ثانیہ کے کانوں میں سیسہ بنکر پگھل گئی۔ بے رحم انسان نے اپنے لہجے میں بے پناہ نفرتیں سمیٹ رکھا تھا۔
ثانیہ فراز۔۔۔!جو کشتی بھنور میں پھنس چکی۔۔۔۔۔وہ اتنی آسانی سے کنارہ حاصل نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔!!!
محترمہ ! ساحل کو چھونے کی تمنا میں زندگیاں فنا ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔تب کہیں کنارہ نصیب ہوتا ہے۔!!!!
خیر۔۔۔۔۔۔۔!کسی خوش فہمی میں گرفتار نہ ہونا،سارا انتظام دادوکا ہے۔۔۔۔ہم تو کٹھ پتلی ہیں۔۔۔۔۔۔!!!
ثانیہ نے بے اختیار اوپر اسٹیج پر نظریں دوڑائیں۔وہاں دادو کھڑے تھے، ہمیشہ کی طرح اپنے چہرے پر شفقت بھری مسکان سجائے۔
یہ ہمارے گھرانے کی عزت، شان۔۔۔۔۔ہماری عزیز بہو رانی۔۔۔۔!ثانیہ وسیم فراز۔۔۔! دادو کی آواز مائےک پر گونج اٹھی۔
"ہماری خوش قسمتی کہ ثانیہ جیسی سلیقہ شعار، ہونہار لڑکی ہماری بہو بنی ہے۔
ثانیہ اپنی کلائی رضا کے ہاتھوں کی مضبوط گرفت سے آزاد کرنے کی کوشش کرنے لگی ،اسکی ہتھیلیاں کافی سرد ہوگئی تھیں۔رضا نے اسکی کلائی پر اپنی گرفت کمزور ہونے نہ دی اور ثانیہ کو اپنے ساتھ کھینچا اوراسٹیج پر لے آیا۔دادو نے ثانیہ کی باہیں تھام کر اسے اپنے سینے سے لگالیا اور پاس کھڑے رضا کو بھی اپنے قریب کیا۔
تقریب بہت اعلیٰ پیمانے پر منعقد کی گئی تھی۔سارے اسٹاف کی آنکھیں متحرک تھیں ۔ انکشاف کا فی خوبصورت تھا اور رشک آمیز بھی۔ندا کو اپنی عزیز ترین دوست کو ان بلندیوں پر پا کر بہت زیادہ مسرت ہوئی تھی ،وہ خوشی سے جیسے پاگل ہوگئی۔ ثانیہ رضا کے اس رویے اور نفرت پر خار کھائے جارہی تھی جو اس نے سرگوشی بھرے انداز میں اسکی سماعتوں میں سیسہ کی مانند انڈیلا تھا۔ ثانیہ کو ہر لمحہ ایک نئے زخم سے آشنا کروانا اور ان زخموں پر نمک چھڑکنا ، جیسے اس نے خود سے قسم کھا رکھی تھی۔
اس بے رحم انسان سے علیحدگی کا مطالبہ ادھورا رہ گیا تھا۔
پارٹی ساڑھے سات بجے تک چلی تھی۔دادو نے ثانیہ کے والدوسیم فراز کو اس بات کی اطلاع دے دی تھی۔۔واپسی میں دادو اور رضا اسے چھوڑنے گھر آئے تھے دونوں ہی کافی تھک چکے تھے جس کی وجہ سے ابو سے سلام دعا کے بعد فوراً واپس چلے گئے ۔
دوسری صبح اپنے دامن میں ایک نیا طوفان لے آئی۔دادو اور رضا ثانیہ کو لینے آئے تھے۔ ثانیہ انکار بھی نہ کرسکی کیونکہ دادو جو ساتھ تھے۔رضا کی گاڑی ہوا میں فراٹے بھررہی تھی۔ دادو بے انتہا خوش دِکھائی دے رہے تھے اور رضا ہمیشہ کی طرح منہ بسورتانظر آرہاتھا۔ثانیہ کچھ سمجھنے سے قاصر دوڑتی سڑک کو تکتی رہی۔گاڑی ایک اعلیٰ شان بنگلہ کے آگے جا رکی۔
بڑے آہنی گیٹ کے قریب ایک روشن تختی پر " SR paradise " لکھا تھا۔۔
"اس SRکا مطلب۔۔۔؟"کہیں" شاہ رخ کی منت " تو نہیں۔؟ رضا کے اس احمقانہ سوال پر’دادو‘ زور سے ہنس پڑے،ثانیہ بھی اپنی ہنسی چھپا نہ سکی۔ ا±لجھن رضاکے چہرے پر رقصاں تھی۔دادو بڑے پیار سے گویا ہوئے۔۔
شاہ رخ کی منت نہیں۔۔۔!
’ثانیہ، رضا ‘کی جنت۔۔۔۔!!! 
یہ سنکر رضا کے چہرے کی رنگت زرد مائل ہوگئی۔وہ ناگوار تاثر لئے منہ بنادیا۔جبکہ دادو کی اس محبت پر ثانیہ کی آنکھیں بے اختیار چھلک گئیں۔ 
گیٹ پر سیکورٹی گارڈ بھی موجود تھا۔
سلام صاب۔۔۔۔۔۔۔۔۔!اس لڑکے نے ادب سے سلام کر تے ہوئے گیٹ ریموٹ سے کھول دیا۔
"استانی۔ یہ رہی بنگلہ کی چابی۔"
ثانیہ سٹپٹاگئی اور بوکھلائی ہوئی رضا کی جانب دیکھنے لگی۔وہ غصہ سے لبریز اسی کو گھوررہا تھا۔
"دادو میں اس قابل نہیں۔۔۔۔۔۔!مجھے اپنی اوقات کا بخوبی احساس ہے۔۔۔۔"وہ بوجھل انداز میں گویا ہوئی۔۔
"استانی ایسے مت کہو تم نہیں جانتی تم ہمارے لئے کتنی اہم ہو۔۔۔۔۔۔۔!!!!"ہے ناں رضا۔۔۔۔۔؟
"ہاں بے شک دادو۔۔۔۔۔۔! "
" ہماری زندگی کی ہر چھوٹی بڑی خوشی موصوفہ سے وابستہ ہوگئی۔مجھے لگتاہے چند دنوں بعد بینک کے تمام اکاو¿نٹس بھی محترمہ کے نام تبدیل ہوجائیں گے۔۔۔۔۔۔!خوفزدہ ہوں کہیں موصوفہ کے آگے خیرات مانگنے کی نوبت نا آجائے۔۔۔۔۔۔!
"برخوردار۔۔۔۔۔۔ ! آپکے بگڑے تیور میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو دیکھنا ایک دن یہ بھی نوبت آ جائےگی“۔دادو نے اپنے مشاہدے کو جیسے لفظوں کا رنگ بھر کر سخت لہجے میں کہا اورتیزی سے گیٹ کے اندر قدم رکھا۔ "رضا بڑی بے رحمی سے ثانیہ کی کلائی پر اپنی گرفت مضبوط کرتا ہوا دبے انداز میں چیخا۔
تم نے کوئی شکایت کی۔۔۔۔۔۔؟؟؟
اف۔۔۔۔وہ درد سے کراہنے لگی۔
کیا ہوا۔۔۔۔؟دادو گھوم گئے۔
دادوشاید کانٹا لگا۔
بےوقوف۔۔۔کیا یہ کسی جنگل میں ننگے پاو¿ں چل رہی ہے۔۔۔۔؟
دادو کے غرانے پر ثانیہ بے اختیارہنس پڑی۔
ہنس لو۔۔۔۔۔جتنا ہنسنا ہے ابھی ہنس لو۔۔۔۔۔وہ خار کھاتے ہوئے چلایا تو ثانیہ اور زور سے ہنسنے لگی۔
دادو آگے بڑھ گئے۔
ثانیہ کا گلابی چہرہ کسی تازہ گلاب کی طرح کھل اٹھا تھا۔۔۔۔۔۔جس سے اس کی بے پناہ خوبصورت آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہوتاجارہاتھا ،رضا غیر شعوری طور پر اس خوبصورتی کے مجسمے کو تکتا رہا۔
خدانے کمبخت کو بڑی فرصت میں بنایا ہے۔وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا۔
ثانیہ، جب رضا کی گہری نظریں اپنے وجود پر ڈھٹائی سے دوڑتی محسوس کرنے لگی تو سٹپٹا گئی، خودبخود ہنسی کو بریک لگا اور وہ جھینپ سی گئی۔
یہ دیکھ کررضا نے اپنی شوخ نگاہیں اس خوبصورت شاہکار نما سراپے سے ہٹا لیں اور بے اختیار مسکراپڑا۔
(باقی آئندہ ان شاءاللہ)
٭٭٭٭٭٭٭٭

 

شیئر: