Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

”سانس در سانس ہجر کی دستک::کتنا مشکل ہے الوداع کہنا“

ڈاکٹر وجاہت فاروقی کی 3دہائیوں پرمحیط رفاقت کے بعد ہندوستان واپسی کے موقع پرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ، الجبیل اور ایوانِ اردو جدہ کی محفل مشاعرہ اور عشائیہ
اُمِ آدم۔الخبر 
مشاعرے ہماری علمی ادبی شناخت و تاریخ کے حسین امتزاج کو قائم رکھنے کا سب سے موثر ذریعہ رہے ہیں اور آج بھی ادب سے گہری وابستگی رکھنے والے افراد اپنے اِس ادبی و تاریخی ورثے کی آبیاری اپنا فریضہ سمجھ کر بخوبی و احسن ادا کر رہے ہیں۔
منطقہ شرقیہ کے زرخیز ادبی شہر الجبیل سے اہل ادب و فن بخوبی واقف ہیں جہاں پاک و ہند کی مختلف ادبی تنظیمیں اپنے ادبی ورثہ سنبھالے اپنا فریضہ کما حقہ ادا کر رہی ہیں۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ،الجبیل اور ایوانِ اردو جدہ کی شراکت سے ترتیب دی گئی الوداعی محفلِ مشاعرہ و عشائیہ کا اہتمام کیا گیا جو الجبیل کی ہر دل عزیز سماجی و ادبی شخصیت ڈاکٹر وجاہت فاروقی کی 30سالہ ادب دوست خدمات و معاونت کے اعتراف و سعودی عرب سے ہندوستان ہجرت کی مناسبت سے تھا۔ اس موقع پر زبان قلم ایک شعر کی ترقیم چاہتی ہے ، آپ بھی ملاحظہ فرمائیے:
سانس در سانس ہجر کی دستک
کتنا مشکل ہے الوداع کہنا
ڈاکٹر و جاہت فاروقی1986ءسے سعودی عرب میں بہ سلسلہ روزگار مقیم رہے۔ وطن سے دور اپنی ادبی تشنگی کے لئے گاہے بگاہے مشاعروں کے انعقاد و ذیلی نشستوں کو بپا کر کے فرحت محسوس کرتے رہے ۔ ڈاکٹر وجاہت فاروقی نے جدہ اور الجبیل میں اپنے قیام کے دوران جن معزز و محترم شعرائے کرام کو مدعو کیا وہ تمام معروف نام ہیں۔ ان میں بعض شعرائے کرام ایسے بھی ہیں جو اب اس دار فانی میں نہیں رہے۔
اسے بھی پڑھئے:”عید آئی ہے اور توہی نہیں::چاند میرے تو روبرو ہی نہیں
ڈاکٹر وجاہت نے جن شعراءکو دعوت دی ان میں ڈاکٹر گلزار دہلوی ، پروفیسر ڈاکٹر کلیم عاجز ، شمیم جے پوری ، کرشنا بہاری نور، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ، ڈاکٹر ساغر کیانی ، ڈاکٹر بشیر بدر ، ڈاکٹر نسیم نکہت ، پروفیسر شہریار ، مجروح سلطان پوری ، خمار بارہ بنکوی ، راحت اندوری ، حسن کاظمی ، معراج فیض آبادی ، انجم ملیح آبادی ، سعید اختر بھوپالی ، محترمہ انا دہلوی ، صبیح الدین ظفر ، ترنم کانپوری ،واصف فاروقی ، شاداب معین ، ولی آسی ، ماجد دیو بندی ، پاپولر میرٹھی ، چرند سنگھ ب±شر اور انور جلالپوری۔ 
عالمی مشاعروں کی ایک طویل فہرست کی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ڈاکٹر وجاہت فاروقی ادب سے کتنا گہرا لگاو¿ رکھتے ہیں۔ اِن مشاعروں کے انعقاد میں خصوصی طور پرپردیس میں بہت ہی ترتیب سے کام کرنا ہوتا ہے اور انتہائی مربوط انداز میں تمام معاملات نمٹانے ہوتے ہیں۔ 
ڈاکٹر وجاہت فاروقی کے اعزاز میں منعقدہ الوداعی مشاعرہ و عشائیہ اس وقت عالمی مشاعرے میں تبدیل ہوگیا جب اس پروگرام کے دعوت نامے ارسال ہونا شروع ہوئے ۔ ڈاکٹر صاحب کے ہر دل عزیز شخصیت ہونے کے باعث ہر فرد انگشت بدنداں بھی تھا اور مطمئن بھی کہ ڈاکٹر صاحب بخیر و عافیت ، صحت مند و مسرور ہجرت فرما رہے ہیں تو اس موقع پر ملاقات لازمی ہے چنانچہ سعودی عرب کے مختلف شہروں سے شعرا کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔جدہ ،ریاض ، الحساءدمام ، الخبر اور مملکت بحرین نیز برطانیہ سے بھی شعراءنے شرکت کی۔
الجبیل کے رہائشی کمپاونڈ کے وسیع کمیونٹی ہال کو بہت منظم طریقے سے مشاعرہ گاہ میں تبدیل کیا گیا تھا۔ عشائیے کے بعد پروگرام کا آغاز ہوا۔ نظامت کی اہم ذمہ داری جدہ سے خصوصی طور پر تشریف لائے ہوئے معروف و سینئر شاعر ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد نے ڈاکٹر وجاہت سے اپنی دیرینہ محبت کی بنا پر خراجِ تحسین پیش کرنے کے واسطے بہت منفرد اسلوب و ماحول کو انتہائی دوستانہ رکھتے ہوئے ادا کی۔ 
تلاوت قرآن کریم کی سعادتِ مبارکہ ضیاءالرحمٰن صدیقی نے حاصل کی اور نہایت خوش الحانی سے سورة الرحمٰن کی آیات پاک تلاوت کیں۔ نعت ِطیبہ کا ہدیہ مبارک نعیم حامد علی الحامد نے بصد احترام پیش کیا۔ 
ناظمِ مشاعرہ نے اسٹیج پر مہمانوں کا استقبال کیا ۔ صدارت الجبیل کے سینیئر شاعر ڈاکٹر سید سجاد نے کی ۔تقریب کی مہمانِ خصوصی الخبر کی معروف ادبی وثقافتی تنظیم کی روحِ رواں محترمہ قدسیہ ندیم لالی تھیں۔ مہمانِ اعزاز ڈاکٹر وجاہت فاروقی ، بحرین سے آئے ہوئے شعرائے کرام اقبال طارق اورریاض شاہد ، ریاض سے آئے ہوئے سینیئر شاعر یوسف علی یوسف اور رضوان ، لندن سے خصوصی طورپرآنے وا لے عادل مظفر پوری ،الحساءسے حکیم اسلم قمر تھے۔ 
ڈاکٹر وجاہت فاروقی کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈبوائز اور ایوانِ اردو جدہ کی جانب سے خوبصورت و خوش رنگ گلدستہ ، ادبی و سماجی خدمات کے اعتراف میں ایک خوبصورت شیلڈ اور موبائل فون کا تحفہ پیش کیا گیا ۔ ادبی،ثقافتی و سماجی تنظیم کی جانب سے بھی ڈاکٹر وجاہت فاروقی کے لئے ایک خوبصورت شیلڈ اقبال اسلم بدر اور قدسیہ ندیم لالی نے پیش کی۔ ساتھ ہی سندھ کی معروف اجرک و سندھی ٹوپی بھی ہدیتاً پیش کی گئی۔
پاکستان کے نامور شاعر محسن بھوپالی کے صاحبزادے ارشد محسن بھوپالی ، سعودی عرب کے شہر دمام میں بسلسلہ روزگار مقیم ہیں۔ انہوں نے کلیاتِ محسن بھوپالی کا ایک نسخہ ڈاکٹر وجا ہت فاروقی کو پیش کیا اور احباب کی فرمائش پر متفرق اشعار بھی سنائے ۔ جن افراد کو محسن بھوپالی کو ماضی میں سننے کا موقع مل چکا تھا، ان کا کہنا تھا کہ ارشد بھوپالی کی آواز و انداز بالکل اپنے والد کی طرح ہے اور ایسا لگ رہا ہے جیسے محسن بھوپالی سے ہی ان کا کلام سنا جا رہا ہو۔
مشاعرے کا باقاعدہ آغاز روایتی انداز میں شمع روشن کر کے کیا گیا۔یہ ادوبی محفل دو ادوار پر مشتمل تھی۔پہلے حصے میں اہل جبیل کی معروف شخصیات نے اظہارِ خیال کیا۔ ناظمِ محفل ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد جو آغازِ محفل سے ہی دوست کو الوداع کہنے کے خیال سے اداس تھے، انہوں نے اپنے کلمات میں تحسین کا سمندر، صبر و استقامت سے موجزن رکھتے ہوئے انتہائی اختصار کے ساتھ دعائیہ اشعار سنائے۔ سید ذوالفقار زلفی نے کہا کہ ڈاکٹر وجاہت فاروقی جبیل کا دل ہیں اور بنا دل شہر جبیل کس طرح جئے گا؟ فی الحال یہ کہنا کافی کٹھن ہے ۔ جناب زلفی نے ہندوستان کے معروف شاعر اسلم بدر کا خصوصی پیغام بھی پڑھ کر سنایا جو انہوں نے ہندوستان سے بھیجا تھا۔
محترمہ سیمیں آصف جمیل نے بھی اظہارِ خیال کیا اور ڈاکٹر وجاہت فاروقی کے سعودی عرب سے رخصت ہونے پر انہوں نے اداسی کا اظہار بڑے جذباتی انداز میں کیا ۔ محترم نفیس ترین نے آسان و بہتر مستقبل کی دعاﺅں سے وجاہت فاروقی کی الجبیل میں محسوس کی جانے والی کمی کا ذکر کیا۔ محترمہ قدسیہ ندیم لالی نے ڈاکٹر وجاہت فاروقی کے لئے اظہار خیال میں کہا کہ وہ ایک عرصے تک ڈاکٹر فاروقی کو سینیئر شاعر ہی سمجھتی رہیں کہ ان میں کسی شاعر کا ایک شعر سن کر دوسرے شعر کا قافیہ ادا کرنے کی صلاحیت موجود تھی ، مگر کبھی اپنی شاعری نہ سنانے پر حیرت بھی بہت ہوتی تھی چونکہ ڈاکٹر وجاہت فاروقی ، قدسیہ ندیم لالی کے استادِ محترم ، نسیمِ سحر کے دیرینہ احباب میں شامل ہیں۔ اس واسطے کبھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کلام پیش نہ کرنے پر استسفار کرتیں اوربالآخر اپنے استاد سے اس بابت سوال کرنے پر علم ہوا کہ ڈاکٹر وجاہت فاروقی علمی وادبی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور شاعری کے رموز کو بہت بہترین انداز میں سمجھتے ہیں۔ شعر و ادب کے دلدادہ ہیں اور اپنا ذوق و شوق مشاعروں کے انعقاد سے پورا کر رہے ہیں ۔ قدسیہ ندیم لالی نے ڈاکٹر وجاہت فاروقی کو منظوم خراجِ تحسین بھی پیش کیا۔ ڈاکٹر وجاہت فاروقی نے اپنے خطاب میں مشاعرے کے منتظمین اور شرکائے محفل کا بصد احترام شکریہ ادا کیا اور شخصیت کی مناسبت سے معروف خوبصورت منتخب اشعار احباب کی نذر کئے۔مشاعرے میں پیش کئے جانے وا لے شعرائے کرام کے تازہ کلام سے انتخاب قارئین کے ذوقِ سلیم کی نذر : 
٭٭ نعیم حامد علی الحامد :
گو نعرہ سلطانی جمہور ہے دلکش 
جو کام ہے سورج کا ستارے نہیں کرتے 
لاکھوں کا ہو انبوہ مگر کارِ نمایاں
افراد ہی کر تے ہیں ادارے نہیں کرتے
٭٭آصف سہیل مظفر نے اپنا کلام پیش کر کے داد پائی ۔ ان کے بعد مسعود جمال نے کلام سنایا:
٭٭مسعود جمال :
رخصت کا وقت یاد کئے جا رہا ہوں میں
”بے کیف ہے دل اور جئے جا رہا ہوں میں “ 
تیرے بنا او ساقیا ایسی ہے زندگی
خالی ہے اپنا جام، پئے جا رہا ہوں میں 
٭٭محمد یوسف شیخ :
گر وہ ہم سے ملا نہیں ہوتا
رازِ الفت کھلا نہیں ہوتا
سچ مرے لب پہ گر نہیں آتا
قتل میرا ہوا نہیں ہوتا
٭٭خالد صدیقی سبرحدی :
یہ بے ثباتی¿ دنیا سے دل لگانا کیا
بنے جو رشتہ سو اس کو کوئی دوام تو ہو
٭٭عامر نظر :
جبیں پہ وجد کناں ہیں شکن کی محرابیں
نظر نظر کی تمازت قبائے جاں تک ہے
یقیں کے در پہ کئی بار دستکیں دی ہیں
مگر یہ کاوشِ ادراک بھی گماں تک ہے
٭٭رضوان الحق رضوان :
سر میں سودا ہو تو ٹکرا کے حجر ٹوٹتا ہے
ورنہ ہلکی سی لگے چوٹ تو سر ٹوٹتا ہے
کرچیاں اس کی سمیٹوں تو سمیٹوں کیسے
مسئلہ یہ ہے کہ اندر سے بشر ٹوٹتا ہے
٭٭ارشد محسن بھوپالی:
 کلام محسن بھوپالی:
شوق پرواز خوب ہے لیکن
حد پرواز پر نظر رکھنا
جب بھی پاﺅ کوئی نیا اعزاز
اپنے آغاز پر نظر رکھنا
٭٭٭
تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
راہ طلب میں خود جو کچھ معتبر نہ تھے
٭٭اقبال اسلم بدر :
اس بات کا افسوس ہے مرتے ہوئے مجھکو
سیکھا ہے ذرا دیر سے جینے کا سلیقہ
٭٭ثاقب جونپوری :
کاش وہ پھر سحاب ہو جائیں
اور ہم آب آ ب ہو جائیں 
٭٭یوسف علی یوسف :
بس غم حسرت ناکام کی باتیں ہوں گی
ہجر کے ماروں سے کب کام کی باتیں ہوں گی
ایک شام اس کی رفاقت میں گزاری تھی کبھی
اب تو ہر شام اسی شام کی باتیں ہوں گی
٭٭ریاض شاہد :
جیسا میں نے سوچا ویسا ہو سکتا ہے
تجھ سا میں ، تُو میرے جیسا ہو سکتا ہے
امبر کے اے چاند مجھے اک بات بتا
جیسا میرا چاند ہے، ویسا ہو سکتا ہے
٭٭عادل مظفر پوری :
کچھ لمحے گزرے برسوں میں
کچھ برس لمحوں میں بیت گئے
وہ پہلے پہل تو دوست بنے
پھر میرے من کو جیت گئے
٭٭حکیم اسلم قمر :
میں ذرا تلخ نوا تھا سو مرے ہم نفسو 
میری ہر بات ہواﺅں میں اڑا دی گئی ہے
تیری یادوں کی حلاوت ہے فقط پاس مرے
تلخی زیست تو اشکوں میں بہا دی گئی ہے
٭٭اقبال طارق :
قصہ دردکسی طورنہ بھو لے مجھ کو 
آتے ہو ،یاد دلاتے ہو، چلے جاتے ہو 
قدسیہ ندیم لالی ؛
نرغہ موسمِ برسات میں آیا ہوا ہے
شہرِ جاں غم کی مدارات میں آیا ہوا ہے
جب سے ہونے لگی ہر روز ملاقات اس سے
اک تعطل سا ملاقات میں آیا ہوا ہے 
٭٭ڈاکٹر سجاد سید :
محتاج سمندر کے نہ محتاج صدف کے 
جب چاہیں گہر دیدہ نمناک سے لے آئیں 
وقت بدلا تو دکانوں میں سجے تاج و کلاہ 
پھر ہوا یوں کہ غلا موں نے خرید اری کی
اہل جبیل کا ذوق و شوق اِس اوجِ کمال پر کبھی نہیں دیکھا تھاجو اِس محفل میں نظر آیا ۔ اگر یہ کہا جائے کہ مشاعرہ گاہ سے واہ واہ اور مکرر مکرر کی صداﺅں سے ہال کے در و دیوار تک رشک سے ڈاکٹر وجاہت فاروقی کو دیکھ رہے تھے تو یقینا ایسا ہی محسوس ہو رہا تھا ۔ سامعین اس جذبے سے شعرائے کرام کو سن رہے تھے کہ جیسے کوئی بھی نہ چاہ رہا ہو کہ محفل کے اختتام کا اعلان کیا جائے۔ رات کے ڈھائی بج چکے تھے ، کچھ شعراءکو ہوائی جہاز سے اپنی منزل کی طرف جانا تھا تو ناچار محفل ِمشاعرہ کو اختتام کی طرف موڑا گیا ، ڈاکٹر سید نعیم حامد علی الحامد کو بھی اگلی صبح جدہ کے لیے روانہ ہونا تھا ، اپنے جذبات و خیالات کو نم آنکھوں سے سمیٹے ہوئے حاضرینِ محفل کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے الوداعی کلمات کے ساتھ محفل کے اختتام کا اعلان کیا۔

شیئر: