Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شوہرسے ذہنی ہم آہنگی کے باعث زندگی بہت آسان ہے ،ناہید اسلم

ہر کام میں اچھا مشورہ اوربھر پور ساتھ دیتے ہیں، ہر طرح سے خیال رکھنے والے شوہرہیں ، ”ہوا کے دوش پر“ اردو نیوز سے ملاقات
زینت شکیل ۔جدہ 
”رب العرش العظیم کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ اسی پر ہم نے بھروسہ کیا اور وہی ہمارے لئے کافی ہے۔“
بس یہی کل کامیابی کا راز ہے۔ علم حاصل کرنا ہی کافی نہیں بلکہ علم مکمل ہی تب ہوتا ہے جب اسے عمل میں لایا جائے۔ دنیا ”دارالعمل“ ہے ۔ جو اس نکتہ کو جان لیتے ہیں، محنت کو اپنی عادت بنا لیتے ہیں ،وہ پرسکون زندگی گزارتے ہیں۔ کام کرنا، مشغول رہناکس قدرفائدہ مند ہے، اس سلسلے میں”ہوا کے دوش پر “ ہماری گفتگو محمد اسلم صدیقی اور انکی اہلیہ محترمہ ناہید اسلم سے ہوئی جن کے والدین نے ہمیشہ محنت کرنے اور آگے بڑھنے کا درس دیا۔اسی کو کامیابی کا راز بتایااور تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔
محترم محسن جلیل اور محترمہ ریحانہ خاتون کے گھر 22 اپریل کو ایک ستارہ اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمکا جسکا نام انہوںنے بڑی محبت سے ” ناہید“ رکھا۔ انکی پرورش میں قواعد و ضوابط کا عمل دخل بھی رہا ۔سادہ اور گھریلو اماں جان نے تربیت میں اس بات کا خیال رکھا کہ کسی کام کو ناممکن نہیں سمجھنا چاہئے۔ ہم جو کام کرنا چاہیں ،اس کی نیت کرلیں اور کوشش کرنا شروع کردیں بس پھر جو اللہ کریم کا حکم۔ کبھی بھی پہلے سے اپنی طرف سے یہ نہیں کہہ دینا چاہئے کہ یہ کام تو ہو ہی نہیں سکتا ۔
ناہید اسلم نے بتایا کہ وہ اپنے والدین کو اپنا رہنما مانتی ہیں کہ جنہوں نے یہ جان لیا کہ پرسکون زندگی کا انحصار مشغول رہنے پر ہے۔ انہوں نے اس بات پرخود بھی عمل کیا اور ہمیں بھی اسی کی تلقین کی ۔ انہوں نے کہا کہ آپ ایشیا میں لوگوں کے روز مرہ اورخاص کر گھریلو معاملات پرغور کریں کہ وہ کیا عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے اکثر گھرانوں میں متنازعہ صورتحال پیدا ہوجاتی ہے اور مشترکہ خاندانی نظام کو کمزور بنادیتی ہے۔ آپ کو یہ حقیقت معلوم ہوگی کہ گھریلو کام کاج وہ سبب ہے کہ جس کی وجہ سے 80 فیصد خاندان علیحدہ گھر کو ترجیح دیتے ہیں۔ صرف20فیصد دوسرے مسائل ہوتے ہیں ۔ ان میں جاب اور پڑھائی کے علاوہ دیگروجوہ شامل ہیں جو فاصلوں کا سبب ہوتی ہیں۔
اسے بھی پڑھئے:ازدواجی گا ڑی غلط مڑ جائے توسفرپر قابو رہتا ہے نہ شریک سفر پر ،حلیمہ شعیب
3 دھائی پہلے تک لوگوں کی اکثریت مشترکہ خاندانی نظام کے تحت اپنی زندگی گزارتی تھی لیکن پھر ایسا ہوا کہ انفرادی طور پر اپنی زندگی، اپنے کنبے کے ساتھ گزارنے میں لوگوں کی دلچسپی بڑھنے لگی اور اس طرح علیحدہ رہنے میں چھوٹے بڑے مسائل کا انباراکٹھا ہونے لگالیکن اب مادی ترقی نے پہلے دنیا کو سمیٹا، فاصلے کم کر دئیے لیکن لوگوں کو مختلف ممالک میں پھیلادیا۔ اب شاید ہی کوئی خاندان ایسا ہو جس کا کوئی فرد پڑھائی یا نوکری کے لئے ملک سے باہر نہ ہو۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ مادی ترقی نے مواصلاتی رابطے کے ذریعے دور کے لوگوں کو قریب اور قریب کے لوگوں کو دور کر دیا ہے۔ کبھی تو ایسا بھی سنا ہے کہ کان میں ہیڈ فون لگا ہے ،گانے کی آواز ارہی ہے اور کسی دوسرے قریب بیٹھے فرد کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی اور وہ آواز دیتا رہامگر دوسرے تک آواز ہی نہ پہنچ سکی اور وہ اس کے قریب ہونے کے باوجود اس کی کوئی مدد نہ کر سکا۔
ناہید اسلم کے والدماجد لڑکیوں کی پڑھائی کو بہت ضروری خیال کرتے تھے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک لڑکے کی تعلیم جس قدر اہم ہے اسی قدر ایک لڑکی کی تعلیم بھی اہمیت کی حا مل ہے۔ ناہید کی والدہ سادہ طبیعت ہونے کے باوجود اپنے طالب علموں کو یہی پیغام دیتیں کہ انسان کی تربیت کے لئے بڑی ڈگری کی نہیں، بڑے صبر و برداشت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ایک استاد اگر بہت بڑی ڈگری حاصل کئے ہوئے ہو لیکن اسے اپنے طلبا و طالبات کو سمجھانا نہیں آتاہو تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ ایک اچھا معلم نہیں۔ اس کے برعکس وہ معلم کامیاب کہلائے گا جو اپنے علم کو دوسروں تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائے۔انہوںنے بتایا کہ انکے والد اچھی پوسٹ پر تھے لیکن جب انکا انتقال ہوا تو کسی سبب انکی والدہ کو انکی پنشن کی رقم نہ مل سکی ۔اس وقت ناہید صاحبہ ٹیچرز ٹریننگ کا کورس کر رہی تھیں اور اس مشکل وقت میں ایسا ہی محسوس ہوا کہ جو بات کہنی ہے اپنے مالک حقیقی سے کہنی چاہئے اور کام کرتے رہو۔ جہاں رکاوٹ آئے ،وضو کرو، نماز پڑھو اور دعا مانگ لو پھر اپنی کوشش جاری رکھو ۔ہر کام کا راستہ خود بخود کھلتا جائے گا، کام ہوتے جائیں گے اورایسا ہی محسوس ہوگا کہ کوئی کام بھی ناممکن نہیں ۔جس کام کا حکم ہو جائے اسے کوئی روک نہیںسکتا۔ 
والد صاحب کی پنشن نہیں ملی اس کے باوجود ہم سب بھائی بہنوں کی پڑھائی لکھائی جاری رہی۔ میں ہسٹری میں ماسٹرز اور ٹیچرز ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اسکول میں پڑھانے لگی۔ ایک بہن نے بیچلرزپروگرام مکمل کیا جبکہ دوسری بہن ڈاکٹر ہیں۔ میرے بھائی انجینیئر ہیں۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا، یہ مالک حقیقی ہی جانتا ہے ۔انسان تو بس اپنی معمولی سوچ کے تحت کہہ دیتا ہے کہ جن کی کوئی آمدنی کی صورت نہ ہو، انکے والد اس دنیا میں نہ ہوں، تو کیسے انکے بچے ترقی کر سکتے ہیں لیکن جب حالات سخت ہوتے ہیں تو رب کریم ، انسان میں ان حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی عطا فرما دیتا ہے ۔
محمد اسلم صدیقی بینکر ہونے کی حیثیت سے اکاﺅنٹس کے شعبے میں ایک طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ کامرس کے شعبے میں دلچسپی کے باعث بچوں میں بھی یہ شعبہ اختیا ر کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ بڑی صاحبزادی عالیہ ناز انگریزی میں ماسٹرز کی طالبہ ہیں جبکہ ان سے چھوٹی بیٹی عائشہ ناز نے بی ایف اے مکمل کر لیا ہے اور عرفانہ صدف سب سے چھوٹی اور گھر بھر کی لاڈلی ہیں۔ کالج میں پہنچ گئی ہیں۔
محترمہ ناہید اسلم کا میکا اور سسرال دونوں کا تعلق دلی سے ہے چنانچہ شادی بیاہ کی رسموں اور کھانے پکانے کی ترکیبوں میں ہر جگہ مماثلت رہی ۔ایک ہی جیسا ماحول ملا ۔دونوں کی شادی میں ان کی بہنوں کا دوست ہونا اس رشتے کی بنیاد بنا یعنی اسلم صاحب اور ناہید صاحبہ کی بہنوں میں دوستی تھی اور ان دونوں نے اپنے اپنے گھر میں یہ بات رکھی اور اس طرح یہ دوستی کا رشتہ ایک خاندان کی صورت میں بدل گیا۔
اسلم صاحب کی 7بہنیں اور3 بھائی ہیں۔ بھرے پرے خاندان میں ناہید صاحبہ نے اپنا بہت اچھا وقت گزارا ۔ انہوں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کسی کو ان سے کوئی شکایت نہ ہو۔آج جب وہ اپنی بیٹی کی شادی طے کر چکی ہیں تو ان کو یہی نصیحت کرتی ہیں کہ کام سے کبھی جی نہ چرانا۔ کاہلی اور سستی سے دور رہنے کی تو ہمیں دعاارشاد فرما دی گئی ہے اس لئے ہر کا م، وہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا، دعا اور ذکر کرتے ہوئے کیا جائے تو تھکن نہیں ہوتی اور کام بھی جلدی مکمل ہو جاتا ہے ۔ بہت سارے گھروں میں صرف گھر کے کام کی وجہ سے باہمی تعلقات میں دراڑپڑ جاتی ہے ۔اس کا حل یہی ہے کہ ہر کام کو اپنے لئے اعزاز سمجھیں اور سوچیں کہ الحمد للہ، مالک حقیقی نے گھر بار والا بنایا ہے تو یہ کام بھی عطا فرمائے ہیں ورنہ زندگی کیسی بے مصرف ہو جاتی۔
ناہید اسلم نے بتایا کہ ہمارے ابو فوج میں تھے پھر بعد میں گزیٹڈ آفیسر رہے ۔وہ ہم سب بہنوں کو بہت اہمیت دیتے تھے ۔انہیں بیٹیوں سے بے حد پیار تھا۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہماری بیٹیاں ہمیں بہت پیاری ہیں ، یہ تو ، ان شاءاللہ ، ہمارے لئے جنت تک پہنچنے کا باعث بنیں گی ۔ 
بیٹیاں بلا شبہ معاشرے کو بہترین قوم بنانے والی ہوتی ہیں ۔اسلم صاحب ،ناہید صا حبہ کی مثبت سوچ سے بہت متاثر ہیں کہ انہوں نے آج کل کی روایتی ماں کی طرح اپنی بچیوں کو الگ نہیںرکھا بلکہ وہ ایک خاندان کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے انہیں نصیحت کرتی ہیں کہ ہمیشہ ایک خاندان بن کر رہنا ہی عزت اور قدر میں اضافے کا باعث بنتا ہے ۔سب کے ساتھ مل کر رہنے میں ہی برکت ہے جس کا ادراک ایک عرصے بعد ہوتا ہے۔
ناہید اسلم صاحبہ کا کہنا ہے کہ جس طرح انکے والدین نے انہیں بہت محبت و شفقت سے پالا، اسی طرح ہم دونوں میاں بیوی کو بھی اپنی بچیاں بہت پیاری ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے والد صاحب کی طبیعت میں یقین بہت تھا کہ جو چاہو، اس کے لئے کوشش کرو، کامیابی ضرور ملے گی۔ ہماری والدہ کی شخصیت میں ٹھہراﺅ ہے، وہ صبر سے کام لیتی ہیں یہی خوبیاں ہم بھائی بہنوں میں بھی آئی ہیں۔
ناہید اسلم کہتی ہیں کہ ان کی اپنے شوہر محترم اسلم صدیقی سے ذہنی ہم آہنگی بہت ہے اس لئے زندگی بہت آسان ہے ،ہر کام میں اچھا مشورہ اوربھر پور ساتھ دیتے ہیں۔ ہر طرح سے خیال رکھنے والے ہیں۔ ہر ایک کے ساتھ مخلص ہیں ۔شادی کے بعد بھی ملازمت کا سلسلہ جاری رہا اور یہ بلا شبہ شوہر کی سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔
اسلم صاحب نے کہا کہ میری اہلیہ ناہید ایک محنتی اور وقت کی پابندخاتون ہیں۔ وہ کام سے نہیں گھبراتیں۔ یہی بات وہ دوسروں کو بھی بتاتی ہیں کہ کام کرنے سے راحت ملتی ہے ۔انسان مصروف رہتا ہے تو کوئی پریشانی اس کے قریب نہیں آتی۔ یہی سوچ انہوں نے بچیوں میں بھی اجاگرکی کہ کام سے نہیں گھبرانا چاہئے بلکہ اس میں آسانیاں تلاش کرنی چاہئیں۔
علم و ادب پر بات ہوئی تو ناہید صاحبہ نے بتایا کہ عالمی ادب میں رسکن بانڈ اور ولیم ورڈز ورتھ جبکہ اردو میں پریم چند ان کے پسندیدہ ہیں جبکہ علامہ اقبال کی شاعری میں بیان کئے گئے کئی واقعات قرآن کریم سے ماخوذ ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے بہت عرق ریزی سے تعلیم حاصل کی اور ا س علم کو اپنے اشعار میں ڈھالا ۔
محترمہ ناہید کا کہنا ہے کہ پریم چند کے افسانے دل کو چھو جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں اتنی غربت بھی تھی کہ انسان کا جینا محال تھا۔ ان کے سادہ طرز تحریرمیں سادہ ماحول کی کہانیاں اپنا اثر تادیر قائم رکھتی ہیں۔ اب ایسی حقیقی ادبی تخلیق نظر نہیں آتی ۔ شاید زمانے کا تغیرہی اس کا سبب ہو ۔

شیئر: