Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسلامی سال کا آغاز ہجرت ہی سے کیوں؟

 اسی ہجرت کے دامن میں اسلام کی تمام ترترقیاں پوشیدہ تھیں ، یہی ہجرت تمام تر کامیابیوں کا سرچشمہ ثابت ہوئی
 
*  * * *مولانا محمد عظیم فیض آبادی ۔ دیوبند* * *
   ابتدائے اسلام میں مسلمانوں میں عام طور پر تاریخ نویسی کا دستور نہیں تھا۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے حکومت کے مختلف علاقوں میں خطوط روانہ کیے جاتے ہیںمگران خطوط پر تاریخ درج نہیں ہوتی حالانکہ تاریخ لکھنے کے بے شمار فوائد ہیں اور ریکارڈ کے محفوظ رکھنے میں کافی سہولت ہے۔آپ نے خط کس دن تحریر کیا، کس دن روانہ کیا، کب پہنچا، کس دن حکم جاری ہوا، کس دن اور کس وقت سے اس پر عمل کا آغاز ہوا۔ ان سب باتوں کے جاننے اور سمجھنے کا دارومدار تاریخ لکھنے پر موقوف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی اس مدلل بات کو بہت معقول سمجھا اور بہت سراہا، فورا ًمشورے کے لئے اکابر صحابہ کرامؓ  کی ایک میٹنگ بلائی اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ مفید رائے مجلسِ مشورہ میں اکابر صحابہ کرامؓ کے سامنے رکھی، تمام صحابہ کرامؓ  کوبھی حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی یہ بات بہت پسند آئی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس سلسلے میں مشورہ طلب کیا کہ اس کا آغاز کب سے ہو، تو اکابر صحابہ کرامؓکی طرف سے اس سلسلے میں 4 قسم کی رائے سامنے آئی:
     ایک جماعت نے مشورہ دیا کہ حضور کی ولادت باسعادت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو۔دوسری جماعت نے یہ رائے دی کہ نبوت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو اور تیسری جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ہجرت کے سال سے اسلامی سال کا آغاز ہو جبکہ چوتھی جماعت کا یہ خیال تھا کہ رسول اللہ کی سالِ وفات سے اسلامی سال کی ابتداء کی جائے۔
          یہ 4 قسم کی رائیں اور مشورے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بلائی گئی مجلسِ شوریٰ میں پیش کیے گئے۔ان آراء میں سے کسی ایک کے انتخاب اور اس کو حتمی شکل دینے کے لئے صحابہ کرامؓکے درمیان بحث ومباحثہ ہوا۔ غور وخوض کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ صادر فرمایاکہ ولادت یا نبوت کی تاریخ اور دنوں میں اختلاف کے باعث ولادت یا نبوت سے اسلامی سال کے آغاز کرنے میں اختلاف رونما ہوسکتا ہے اور وفاتِ نبوی سے اسلامی سال کی ابتداء کرنا اس لئے مناسب نہیں کہ وفاتِ نبوی کا سال اسلام اور مسلمانوں کے لئے رنج وغم اور صدمہ کا سال ہے اس لئے ہجرت سے اسلامی سال کا آغاز کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ ہجرت نے حق وباطل کے درمیان واضح امتیاز پیدا کیا۔اسی سال سے نبی کریم اور صحابہ کرامؓ امن وسکون کے ساتھ بلاخوف وخطر پروردگار کی عبادت کرنے لگے، اسی سال مسجدِ نبوی کی بنیاد رکھی گئی جو دراصل دینِ اسلام کی نشرواشاعت کا مرکز تھی۔          حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان کردہ ان دلائل ووجوہ کی بناء پر تمام صحابہ کرامؓ  کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ اسلامی سال کی ابتداء ہجرت کے سال سے ہی کی جائے، اگرچہ اسلام کے اس قریبی عہد میں دیگر اور بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے،مثلاً واقعۂ بدر، فتحِ مکہ اور حجۃْ الوداع وغیرہ۔ان میں سے کسی ایک واقعہ کو سنِ آغاز کی علامت قرار نہیں دیاگیاحالانکہ ان میں سے ہر ایک واقعہ اپنے اندر مذہبی، قومی، تاریخی، اور سیاسی عظمت ورفعت رکھتا ہے۔ بخلاف واقعۂ ہجرت کے، کیونکہ یہ بظاہر کسی قسم کے علومرتبت کا حامل نہیں ہوتا، اس سے داعیٔ اسلام اور اہل اسلام کی غربت ومظلومیت، بے بسی وبے کسی اور بے سروسامانی کی یاد تازہ ہوتی ہے، اس سے اسلام کی کمزوری کا حال معلوم ہوتا ہے مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرامؓ کی مجلس شوریٰ نے ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے بالکل انوکھی اور تمام دنیا سے نرالی راہ اختیار کی۔
     یہ اعتراض واشکال کسی سطحی نظر رکھنے والے کے لئے اہم ہوسکتا ہے، جس کی نگاہ ظاہری شان وشوکت پر ہوتی ہے، تاہم عمیق وگہری نظر رکھنے والا اس بات کے اقرار واعتراف پر مجبور ہوگا کہ یہ حسنِ انتخاب بڑی حکمت ومصلحت سے معمور ہے کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین کی دوراندیشی اور ان کی عقلیں آسمان کی بلندیوں تک پرواز کرتی تھیں، ان کے ذہن کی رسائی جس تہہ تک ہوتی ہے، وہاں تک کسی دوسرے کا طائرِ فہم پربھی نہیں مارسکتا۔اس میں شک نہیں کہ واقعۂ ہجرت بظاہر یاس وناامیدی، بے بسی وبے کسی، نامرادی اور غربت وافلاس کا واقعہ معلوم ہوتا ہے،جس طرح صلح حدیبیہ کے وقت اس مصالحت سے بظاہر بے بسی وکمزوری سمجھی جارہی تھی، نظر آتی ہے لیکن یہی صلح بہ باطن فتحِ مبین (فتح مکہ) کا دیباچہ اور اس کی تمہید تھی، اسی طرح ہجرت کا واقعہ ظاہر نگاہوں میں جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہو مگر حقیقت میں یہی ہجرت کاواقعہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے عروج وسربلندی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ اسی ہجرت کے دامن میں اسلام کی وہ تمام ترترقیاں پوشیدہ تھیں اور یہی ہجرت تمام تر کامیابیوں کا سرچشمہ ثابت ہوئی، جن کا ظہور آئندہ چل کر ہوا۔ اسی ہجرت نے مسلمانوں کے لئے فتح ونصرت کی راہیں ہموار کیں۔
     سن ہجری کا آغاز مسلمانوں کے لئے دینی، تاریخی اعتبار سے اپنے اندر خاصی اہمیت رکھتا ہے۔وہ اہلِ اسلام کو اُس دور کی یاد دلاتا ہے، جب ان کو مکّی دور کے ابتلاء وآزمائش کی تنگ زندگی سے نجات ملی اور مستحکم وپائیدار اور مضبوط مستقر ملا۔ اسلام اور اہل اسلام کو پھولنے پھلنے کا موقع ہاتھ آیا اور یہیں سے اسلام اور مسلمانوں کو قوت اور شان وشوکت نصیب ہوئی۔باطل کو شکست وہزیمت اور کفر اپنی موت مرنے لگا اور یہیں سے مسلمانوں نے پوری دنیا کو رشد وہدایت اور توحید کا عالم گیر پیغام دیا اور دنیا کے ایک بڑے حصے تک اسلام کی شعائیں پہنچیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ بلائی گئی اِس شوریٰ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سن ہجری کا آغاز کس مہینے سے ہو؟
          اس سلسلے میں بھی  صحابہ کرامؓ کی طرف سے مختلف رائیں پیش ہوئیں۔ ایک جماعت نے یہ کہا کہ رجب کے مہینے سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے اور دوسری جماعت کا خیال تھا کہ رمضان کے مہینے سے؛ کیونکہ رمضان ہی وہ سب سے افضل ترین مہینہ ہے، جس میں پورا قرآن نازل ہوا، تیسری جماعت کی رائے یہ تھی کہ محرم کے مہینے سے اس کا آغاز ہو کیونکہ ماہ محرم میں حجاج کرام حج کرکے واپس آتے ہیں اور چوتھی جماعت نے یہ مشورہ دیا کہ ربیع الاوّل سے سال کے مہینے کی ابتداء کی جائے کیونکہ اسی مہینے میں حضور نے ہجرت فرمائی کہ شروع ربیع الاوّل میں مکہ مکرمہ سے سفر شروع کیا اور 8ربیع الاوّل کو مدینہ منورہ پہنچ گئے۔
     ان4 قسم کی رائیوں کے سامنے آنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باہم مشورے کے بعد محرم الحرام کو ترجیح دی کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں بھی عرب میں سال کا پہلامہینہ محرم کو قرار دیا جاتا تھا اور مہینوں کے نام (محرم الحرام، صفر، ربیع الاوّل، ربیع الثانی، جمادی الاولیٰ، جْمادی الثانی، رجب، شعبان، رمضان، شوال، ذی قعدہ، ذی الحجہ) کلاب بن مرّہ کے زمانہ میں تقریباً اسلام سے 200 سال پہلے متعین کیے گئے تھے اس لئے صحابۂ کرامؓنے جب ہجرت کے سال سے سن کی ابتداء کی، تو سن کے مہینے کے لئے محرم الحرام کے مہینے کا انتخاب کیا تاکہ نظام ِسابقہ بھی اپنی اصلی حالت پر باقی رہے اور نظام میں کوئی گڑبڑی نہ ہو۔
مزید پڑھیں:- - - - -ہجرت ، دینی ابتلا کے شکار مسلمان پر فرض

شیئر: