Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شادی کی تقریب ، ان گنت مسائل کا شکار

مسز ربانی
امی جان بہت خوش تھیں اچھے لڑکے کا رشتہ تھا، ان کی اکلوتی بیٹی کیلئے جو پڑھی لکھی بھی تھی اورساتھ ہی خوبصورت بھی۔بہر حا ل یہ تو خوشی کا مقام تھا ہی۔ لڑکا بھی خوبرو ، تعلیم یافتہ اور اچھے خاندان کا ۔ بات بن گئی، شادی کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ پورا گھر ابو امی، بھائی سب ہی دل و جان سے تیاریوں میں جُت گئے۔ کارڈ چھپ گئے، تقسیم کا مرحلہ بھی آگیا کیونکہ رشتہ آنا ہی سب سے بڑا مرحلہ تھا۔در اصل رشتے کے لئے جو خوبیاں ڈھونڈی جاتی ہیں ان میں کافی وقت لگ جاتا ہے ۔ بعض اوقات عمریں بھی شادی کی حد سے نکل جاتی ہیں۔ اس کے باوجود کسی ایک بات پر بھی سمجھوتہ ممکن نہیں ہوتا۔ کارڈ کا انتخاب، رنگ ، تحریر، ڈیزائن ، استقبالیہ کے لئے حضرات کا انتخاب اور پھر تقسیم کا مرحلہ۔ 
گھر گھر جاکر کارڈ دینے کے بعد بھی شادی میں شرکت کی زبانی درخواست کرنا کیونکہ ہماری جہالت عروج پر ہے۔ فون پر تو دعوت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور اگر کارڈ دینا بھی ہے تو گھر کے افراد ہوں، وہ بھی بڑے ، پھر یوں دروازے سے ہی کارڈدے کر نہیں لوٹنا ۔ خیر اس مرحلے سے بھی نکل آئے۔ 
درزیوں کو جو کپڑے سلنے کے لئے دیئے ،ان سے رابطہ کرنا، جہیز کا ایک ایک سامان لسٹ بنانے کے بعد بھی ، یاد آنا اور ساتھ ہی ساتھ مایوں کی تیاری بھی چل رہی تھی۔ مہندی بھی تیسرے دن تھی، یہ شکر ہے کہ مایوں، مہندی، بارات او ر ولیمہ سب میں دو دو دن کا فراغ تھا۔ پورا گھر مایوں کی تیاری میں تھا۔ ہال والے کو بھی جاکر پھولوں اور سیج کے بارے میں بتانا تھا ۔ خود میں نے اپنے پیلے لباس اور پھولوں کی تیاری اپنی باجی کے ذمہ کر دی تھی۔ یوں مایوں بیٹھ گئی۔ 
بیٹھ کیا گئی بیٹھنا تو ولیمے کی تقریب کے بعد ہی شادی کی تقاریب کا سلسلہ تمام ہوتا۔ اس دوران ساری دیکھ بھال آن لائن اور آف لائن تو کرنی ہی تھی۔ بہرحال رات گئے مایوں سے فارغ ہوئے پھر دوسرے دن مایوں کی تصویروں کا انتخاب کیا گیا کہ کون سی تصویر رکھنی ہے اور کون سی بے کا رہے۔ 
چوتھے دن مہندی پھر ہال پہنچے ۔ہری بھری تیاریاں تھیں۔ فوٹو سیشن ہوا ۔ کھانا ہوا اور دوسرے دن مہندی کی تصویرو ں کا انتخاب ہوا۔اب ایک دن بعد بارات تھی۔ دوسرے دن دوپہر سے لیکر رات تک پارلر میں رہی۔ وہاں دو تین گھنٹے بیٹھنا دشوار تھا کمر اور گردن نے تو پارلر میں ہی جواب دے دیاتھا۔ آنے کے بعد فوٹو سیشن ہی چلتا رہا۔ اب رخصتی کا وقت آیا۔ امی نے آواز لگائی کہ قرآن کریم لے آﺅمیں ڈر گئی اب کیا ہوگا ، کیونکہ وہ تو میں رکھنا ہی بھول گئی تھی کیونکہ امی نے کہا تھا کہ زیو روالے اٹیچی میں قرآن کریم حفاظت سے رکھ لینا تاکہ بھول نہ جاﺅ۔
میں سہمی بیٹھی تھی۔ امی آئیں، انہوں نے مجھ سے استفسار کیا۔ میں نے کہا امی بھول گئی مگر ہال والے نے انتظام کردیا۔ اس نے کہا کہ اکثر لوگ یہاں آتے ہیں اور کچھ نہ کچھ بھول کر چلے جاتے ہیں ۔ بہر حال بھیا ، امی اور سب کی موجودگی میں رخصتی ہو گئی ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ہمارا رویہ کیسا ہے؟ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا ہم نے اپنی زندگیوں میں قرآن کریم کی تعلیمات مبارکہ کو اپنا رکھا ہے ۔ اگر ہم قرآن کریم کی تعلیمات عالی کو یاد رکھتے اور ان کے مطابق زندگی گزارتے تو یقینا شادی جیسا نیک کام اتنے مسائل کا شکاراور محنت طلب نہ ہوتا۔ 
ہم نے مسلمان ہونے کا اقرار کیا اور اس پر ایمان بھی لائے لیکن یہ کون سمجھائے کہ محض دعویٰ کرنا اور سنت طیبہ کے مطابق عمل کرنا ، یہ دو مختلف چیزیں ہیں۔ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آخرت میں ہمیں اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ ہمیں اپنے ایمان کو مضبوط بنانا ہے ۔آخرت کی تیاری کرنی ہے ۔ ہمیں ا للہ کریم نے نعمتوں سے نوازا ہے ، ہمیں اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہئے ۔ ہماری دعا ہے کہ جو غلطیاں ہم سے سرزد ہوئیں یا ہو رہی ہیں، وہ اللہ کریم معاف فرما دے اور ہمیں رحمتوں سے نوازے، ہم سب کی مغفرت فرمائے ، آمین ثم آمین۔
 
 

شیئر: