Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہم

***جاوید اقبال***
گزشتہ ہفتے کے لاہور  نے 2تفریحی مقامات کی یاد ایک بارپھر دلادی ۔ سب سے پہلے اس شہر رنگ و نکہت کی بات کرتے ہیں ۔ حافظ و سعدی کے شیراز کا ذکر ہے ۔ شہر کے بیچوں بیچ چلتی خیابانِ زند کے آخری مغربی سرے پر دانشگاہِ پہلوی کے عقب میں خوشبوئیں بکھیرتاباغِ ارم ہے ۔ 13لاکھ 70ہزار مربع فٹ کے رقبے پر بنے اس دلربا گلستان کی بنیاد 11ویں صدی میں سلجوق شہنشا ہوں نے رکھی تھی ۔ پھر وقت کے ساتھ اس میں تبدیلیاں متعارف کرائی جاتی رہیں ۔ وسط میں ایک نظر نواز دو منزلہ عمارت تعمیر ہوئی جس کی ٹائلوں پر حافظ شیرازی کی غزلیں نقش کی گئیں ۔ 1965ء میں یہ باغ اور اس کے 32کمروں پر مشتمل عمارت شہنشاہ آریا مہر محمد رضا شاہ پہلوی نے اپنی شخصی نگرانی میں لے لی اور تب اس باغ کو حسین تر بنانے کیلئے مساعی کا آغاز ہوا ۔ دنیا بھر سے گلاب کی قلمیں لائی گئیں اور پیوندکاری کا کام ہوا ۔ ہر رنگ و مہک کا گلاب کاشت ہوا ۔یوں تقریباً70ہزار صرف گلاب کے پھولوں کے کرۂ ارض پر ایک عجوبۂ روزگار گلستان کو مجسم کر دیا ۔ 
1965ء میں اسے دانشگاہِ پہلوی کے زیر نگرانی دیا گیا تاہم 1979ء میں شہنشاہ کے زوال کے بعد اس دانشگاہ کا نام تبدیل کر کے دانشگاہِ شیراز رکھ دیا گیا اور تب سے یہ اس درسگاہ کے شعبہ علوم کا ایک حصہ ہے ۔ یونیسکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا ۔ 
باغ میں ایرانی گلوکاروں کے تازہ ترین گیت فضا کو مترنم کرتے ہیں ۔ پھولوں کو چھوآنے والی بادِ شمیم ماحول میں ہلکی ہلکی مہک پھیلاتی ہے اور حافظ و خیال کا سرور دلوں کو فرحت دیتا ہے ۔ رات کے کھانے کا وقت قریب آتا ہے تو کبابو ں اور مچھلی کی اشتہا انگیز مہک اٹھتی ہے ۔ ایک آدھ گھنٹہ اور ۔۔۔اور پھر روانگی کا آغاز ہوتا ہے ۔ باغ کے گوشے خالی ہونا شروع ہو تے ہیں ۔ ہر خاندان اپنی نشستوں پر سے کوڑا کرکٹ سمیٹ لیتا ہے  جسے اسے صدر دروازے پر رکھے خالی کوڑا دان میں ڈالنا ہوتا ہے ۔ نصب شب تک باغ ارم پھر سکوت میں ڈوب جاتا ہے ۔ ہر رنگ و خوشبو کے گلابوں کی حسین آغوش! نکہتِ بادِ بہاری سے اٹھکیلیاں کرتے شجر!ایرانی غرور کا نشان! اور پھر مجھے استنبول کے باسفورس پر آباد مرمرہ کا ساحل بہت یاد آیا ۔ غروب ِ آفتاب سے پیشتر جب آبنائے باسفور س کی حتک موجیں اپنے سینے پر سوار بجروں کو ہلکورے دیتی ۔ جھولاجھلاتی مرمرہ کے ساحل سے ٹکراتی ہیں تو ساحلی پٹی پر سوگوشیاں کرتی نمکین بادِ شمیم اٹھکیلیاںکرتی ہے ۔ ترک مرد و زن ایک حسین شام بسر کرنے کیلئے ہجوم کر آتے ہیں ۔ چند ایک ریڑھیاں بھی آن پہنچتی ہیں ۔ مرمرہ کی موجوں سے مچھلی پکڑی جاتی ہے اور وہیں ریڑھیوں پر تلی اور فروخت کی جاتی ہے ۔ ترکی موسیقی ماحول پر سحر طاری کرتی ہے ۔ یہیں اسی ساحل پر سلطان محمد فاتح کے سفینے آن لگے تھے اور پھر باز نطینی کلیسا کے صدر مقام قسطنطنیہ کو اس کی سپاہ نے تہس نہس کر ڈالا تھا اور اس ساحل پر کچھ بوڑھے قصہ گو سیاحوں کو وہ داستان سناتے ہیں جب قسطنطنیہ فتح کرنے کے بعد سلطان محمد فاتح اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر مرکز ی کلیسا آیا ۔ صوفیہ کے دروازے پر جا رکا تھا اور اندر جاکر اس نے اپنے خون آلود لباس میں ہی نماز کی ادائیگی کی تھی ۔ پھر اس نے خوف سے لرزتے پادریوں اور راہبائوں کی جان بخشی کا فرمان جاری کیا تھا اور صلیب ہٹوا کر وہاں منبر نصب کرایا تھا ۔ قصہ گوسیاحوں کو اسی تاریخ ساز فتح کی داستان سناتا ہے ۔ 
چادر پوش ترک بوڑھیاں نوجوان بچوں اور بچیوں کو پاس بٹھا کر ان صدیوں کا ذکر چھیڑتی ہیں جب عثمانی تاجداروں اور جانثاری  رسالوں کے گھوڑوں کے سموں تلے نصف جہاں کے ساحل لرزتے تھے ۔ مرمرہ کے ساحل کی شامیں بھی انتہائی دلکش ہوتی ہیں ۔ نم آلود سرگوشیاں کرتی سمندری ہوا  ۔بھنی مچھلی کی مہک ، ننھے بچوں کی اچھل کود ، لہروں پر ڈولتے ، جھومتے بجرے اور گروہوں میں بیٹھی خواتین اور جب رات کا دامن دراز ہوتا ہے تو محفل آہستہ آہستہ اٹھتی ہے ۔ اردگرد پڑا سب کچھ سمیٹا جاتا ہے اور پاس پڑے خالی ڈبوں میں اچھال دیا جاتا ہے ۔ اگلے گھنٹے ، ڈیڑھ میں انسانی آوازیں کوچ کر جاتی ہیں ۔ سکوت میں صرف سمندری ہوا سرگوشیاں کرتی رہ جاتی ہے ۔ تاریخ انسانی کے درخشاں ورق پر ایک موتی کی طرح رکھا مرمرہ جو ہر سیاح کی توجہ کا مرکز ہے اور اس لمحے کا امین ہے جب یورپی مورخ کو اپنے قلم کا رخ تبدیل کرنا پڑا تھا ۔ 
لاہور کی مال روڈ پر بسا گورنر ہائوس 700کنال کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اس کا رقبہ جامعہ پنجاب سے بھی زیادہ ہے ۔ درمیان میں گورنر کی رہائش ہے جبکہ اس کے اردگرد باغات ہیں ۔ برطانوی راج اور پھر پنجاب پر انگریز کے قبضے کے دوران اس میں توسیع کی گئی ۔ مکہ معظم وکٹوریا کی حکومت نے یہ عمارت اور نواحی علاقہ سکہ رائج الوقت مبلغ 2500روپے میں خریدا تھا اور پھر یہ عمارت برطانوی حکومت کے لیفٹیننٹ گورنر کی رہائش کے لئے استعمال ہوتی رہی ۔ تشکیل پاکستان کے بعد اسے صوبائی گورنر کیلئے مختص کر دیا گیا ۔ نو آبادیاتی کروفر کا نمائندہ یہ محلہ ہمیشہ سے ہی عوام الناس اور سیاحوں کیلئے ممنوع الدخول رہا ہے ۔ 1947ء سے پیشتر تو یہ حال تھا کہ کرسمس جیسے مواقع پر انگریز کے پروردہ وڈیرے ’’ تحائف ‘‘ کے ساتھ گورنر ہائوس کے صدر دروازے پر ساری رات اس انتظار میں کھڑے رہتے کہ صاحب کی قدمبوسی کا شرف حاصل ہو جائے ۔ شبِ سرور و خود فراموشی کی صبح ہوتی تو صاحب کی طرف سے باہر کھڑے منتظرین کو پیغام بھیجا جاتا کہ ان کے سلام اور تحائف قبول کر لئے گئے ہیں ۔ بس کافی ہوتا ۔ مملکت عظمیٰ کے غلام ایک دوسرے سے بغلگیر ہوتے ، مبارکیں وصول کرتے اور
 شاداں اور فرحاں اپنی جاگیروں پر واپس ہو جاتے ۔ تو یہ تھا لاہور کا گورنر ہائوس!
ناقابل رسائی اور جاہ و حشم کی تصویر !
اور پھر گزشتہ ہفتے نئی حکومت نے اس کے دروازے عوام الناس پر کھول دئیے ۔ اسے تفریح گاہ بنا دیا گیا ! 
پہلے دن ہی 25ہزار نے دھاوا بولا اور جب غروبِ آفتاب ہو ا تو وہاں غلاظت اور بربادی کی داستان تھی ۔ زائرین نے درختوں پر سے پھل توڑ لئے ۔ باغیچوں کی شکل بگاڑ دی ۔ ٹہنیوں کو پھولوں سے محروم کر دیا ۔ پودوں پر لگی سبزیوں کو توڑ کر جیبوں میں بھرلیا ۔ جب وقت ملاقات ختم ہونے پر آخری شہری باغ سے نکلا تو وہاں ویران پیٹروں اور روندے پودوں کی داستان تھی ۔ 
اس دوران میں ایک محافظ نے ایک جوشیلے زائر کو درختوں کے پھل توڑنے سے روکا تو اسے جواب ملا اوئے تو کون ہے روکنے والا؟ یہ سب میرے ٹیکس سے ہی تو بنا ہے۔
تو شیراز کا باغِ ارم اور استنبول کا مرمرہ کا ساحل !اور لاہور کا گورنر ہائوس ! ایرانی اور ترک توہیں ! ہم کہاں ہیں ؟
 

شیئر: